اب تو پہلی سی محبتیں نہ رہیں
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ آج کا دورماضی کے مقابلے میں کتنا بدل گیا ہے
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ آج کا دورماضی کے مقابلے میں کتنا بدل گیا ہے۔جب رابطے کے مواقعے آج کی طرح بہت زیادہ میسر نہ تھے تو دنیا آج سے بہت مختلف تھی۔عزیزواقارب میں فاصلے اگرچہ بہت زیادہ ہوتے تھے، لیکن دلوں میں فاصلے نہ ہونے کے برابرہوتے تھے۔ رشتے داروں میں رابطے توکبھی کبھی ہوا کرتے تھے،لیکن محبتوں میں کبھی کمی نہیں آتی تھی۔کسی دوسرے شہر سے گاؤں آتے ہوئے کوئی کسی عزیزکا پیغام لاتا تو بے انتہا خوشی ہوتی تھی،کیونکہ آج کی طرح رابطے کے آسان مواقعے میسر نہ ہونے کی وجہ سے بہت دنوں بعد ہی کوئی پیغام ملا کرتا تھا۔ عزیزواقارب کا خط توکئی ماہ کے بعد ہی آتا،لیکن گھرکا ہرفرد خط کا بے چینی سے منتظر ہوتا تھا۔ بار بار ڈاکیے سے کہا جاتا کہ ہمارا کوئی خط آئے تو یاد سے گھر پہنچا دینا،گم نہ کردینا۔ سب گھر والے ایک ساتھ بیٹھ کر خط پڑھا کرتے تھے اور پھرکئی دن تک اس خط اور اپنے رشتے داروں کا تذکرہ ہوتا رہتا تھا۔جب میں تیسری چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا،کوئی خط آتا تو نانی اماں مرحومہ بار بارخط پڑھوایا کرتی تھیں۔انتظار رہتا تھا کہ کوئی خط آئے اور اسے پڑھنے کا موقع ملے اور جب خط لکھواتیں توگھرکے ہر فرد کے لیے ڈھیروں ساری دعائیں اور بچوں کے لیے بہت سا پیار خط میں سمیٹ دیاکرتی تھیں۔خط کی چند سطروں میں بہت سی محبتیں پنہاں ہوتی تھیں۔
پھر ٹیلی فون نیا نیا آیا تو پورے گاؤں میں شاید ہی کسی کے گھر میں ٹیلی فون لگا ہوتا تھا، جہاں گاؤں بھرکے لوگوں کا کبھی کبھار فون آیا کرتا، لیکن فون پر ہونے والی چند منٹ کی گفتگوکئی دن تک گھر میں زیر بحث رہا کرتی۔اس وقت رابطوں کے مواقعے کم ہوتے تھے، لیکن محبتیں بے انتہا ہوتی تھیں۔ جوں جوں رابطوں کے مواقعے زیادہ ہوگئے، آپسی محبتوں میں کمی بھی اتنی ہی تیزی کے ساتھ واقع ہونے لگی۔ موبائل فون آئے،کال پیکجز سستے ہوئے،اتنے سستے کہ چند روپے میں گھنٹوں گھنٹوں باتیں کی جاسکیں، لیکن حقیقی تعلقات میں اتنی ہی کمزوری آتی رہی۔ سوشل میڈیا کا دور آیا۔ فیس بک، ٹوئٹر، واٹس ایپ اوروائبر جیسی سماجی رابطے کی ویب سائٹس اور ایپلیکیشنز کی بہتات ہوگئی۔
لوگ گھنٹوں گھنٹوں سوشل میڈیا پر بیٹھ کرگزارنے لگے۔ سوشل میڈیا سے نئی دوستیاں ملیں، نئے تعلقات بنے اورانسان بہت زیادہ مصروف ہوگیا،اتنا مصروف کہ اس کے پاس خود کو دینے کے لیے بھی وقت نہ بچا۔ بڑے تو مصروف ہوئے ہی تھے، بچوں کے بڑوں سے سیکھنے کا وقت بھی جدید ٹیکنالوجی کی نذرہوگیا۔ پہلے تو بچے گھرآکر بہت عمدہ سبق آموز کہانیاں پڑھا کرتے تھے، جن سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا تھا، لیکن اب گھر پہنچتے ہی موبائل پر انگلیاں رقصاں ہوتی ہیں اور پھر رات گئے تک ٹی وی اورانٹرنیٹ پر ہی وقت گزرجاتا ہے۔ صبح اٹھتے اسکول اورپھراگلے دن وہی روٹین۔اتوارکے دن تو رات کو سوکر اٹھتے ہی اس وقت ہیں جب آدھے سے زیادہ دن گزرچکا ہوتا ہے۔ نہ ماں باپ کے لیے وقت اور نہ ہی گھرکے بزرگوں سے کچھ سیکھنے کی طلب۔ اب تو پہلی سی محبتیں نہ رہیں۔ اب تو سب کو بدل گیا۔
رابطوں کے بے بہا ذرایع نے آج کی دنیا کے لوگوں کو آپس میں اتنا قریب کردیا کہ آپ دنیا کے جس بھی کونے میں ہوں،اپنے تعلق والوں کے ہر وقت ساتھ ہوتے ہیں،لیکن اس سہولت کے ہوتے ہوئے بہت سے قریبی افراد، قریبی دوست، رشتے دار اور بہت سے عزیزواقارب اتنے دورہوگئے کہ ان کے ساتھ ان کی خوشیاں بانٹنے کا وقت ہی نہیں رہا۔ اب رابطہ کرنے کے مواقعے بہت زیادہ اوروسائل بھی میسر، لیکن اپنوں سے کرتا کوئی اس لیے نہیں کہ پہلے میں رابطہ کروں گا تو میری شان گھٹ جائے گی۔ یہ انہی سائنسی ایجادات کی کرشمہ سازی ہے کہ دور والے قریب ہیں اورقریب والے بیگانہ،اجنبی بنتے جارہے ہیں۔ فاصلے سمٹ رہے ہیں، لیکن محبتیں ختم ہوتی جارہی ہیں۔اب تو اکثر تعلقات مفادات کے گرد گھومتے ہیں۔ بے لوث تعلقات کا دورشاید ختم ہوگیا ہے۔ ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ ایسے شخص سے تعلقات بنائے جائیں جس سے مفادات حاصل کیے جاسکیں۔ لوگ سلام اورملاقات کرتے ہوئے بھی پرکھتے ہیں کہ فلاں سے ملاقات کرکے کیا حاصل ہوگا اور جب ملاقات کرکے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ حاصل نہیں ہوگا تو پہلے کی طرح اجنبی بن جاتے ہیں۔ اب تو سب کچھ ہی مفادات کی نذرہوگیا۔
آج کے ٹیکنالوجی کے دور میں تعلقات بنتے بھی بہت جلدی ہیں اورٹوٹتے بھی پتا نہیں چلتا۔ جب مفاد حاصل کیا تو تعلقات ختم۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سوشل میڈیا کے تعلقات دیرپا یا مفادات سے خالی نہیں ہوسکتے، ہوسکتے ہیں، بلکہ بہت سے ایسے دوست بھی مل جاتے ہیں جوحقیقی دوستوں سے بھی زیاہ آپ کے قریب ہوجاتے ہیں اور بچھڑ بھی جائیں تو بھی ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتے ہیں، لیکن ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا۔ سوشل میڈیا کی اکثر دوستیاں وقتی اورمصنوعی ہوتی ہیں۔آج کے دور میں سوشل میڈیا نے مصنوعی دوستیاں تو بہت دی ہیں، لیکن حقیقی دوستیوں اور رشتوں کو بہت کمزورکردیا ہے۔
زندگی کے حقیقی دوستوں اور رشتے داروں کے ساتھ بتانے کا وقت بھی سوشل میڈیا کی مصنوعی دوستیوں نے چھین لیا ہے، حالانکہ سوشل میڈیا کے وہ مصنوعی دوست جن کے ساتھ کبھی ملاقات تک نہ ہوئی ہو، وہ کسی طور بھی شب وروز کے حقیقی دوستوں اور رشتے داروں کے برابر نہیں ہوسکتے، لیکن سوشل میڈیا نے زندگی کے پہیے کو الٹا گھما کر رکھ دیا ہے اور انسان بھی اس پہیے کے ساتھ گھوم کر رہ گیا ہے۔ گھنٹوں گھنٹوں سوشل میڈیا پر بیٹھے موبائل یا کمپیوٹر کے ڈبے میں بند دنیائے فیس بک یا واٹس ایپ کے دوستوں کے ساتھ توگپ شپ لگاتے گزاردیتے ہیں، لیکن دیرینہ دوستوں اوررشتے داروں کے ساتھ کچھ دیرکی ملاقات بھی گراں گزرتی ہے، بلکہ ان سے مختصر سی ملاقات کے دوران بھی انگلیاں موبائل پر ناچ رہی ہوتی ہے۔ایسی صورتحال میں حقیقی دوستیوں اورخونی رشتوں میں دراڑیں پڑنا فطری امر ہے۔ ایک مصنوعی سی دنیا کی خاطر اپنے حقیقی رشتوں میں دراڑیں ڈالنا اگرچہ بالکل غیر معقول سی بات ہے، لیکن بہرحال ایسے رویوں پر غورکرنے کی ضرورت ہے، جو حقیقی دوستیوں اور رشتوں میں دراڑیں ڈالنے کا سبب بنتے ہیں۔
اگرچہ سوشل میڈیا ایک اوپن پلیٹ فارم ہے، جہاں سب کے ساتھ دوستی رکھنا پڑتی ہے اوردوستی رکھنے میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے، لیکن پھر بھی حقیقی دوستوں اور رشتے داروں کا حق مصنوعی دنیا کی مصنوعی دوستیوں سے سے کہیں زیادہ ہے۔ فیس بک کی دوستی تو صرف ایک کمنٹ اور لائک کے بندھن میں بندھی ہوئی ہیں، یہ بندھن کسی وقت بھی ٹوٹ سکتا ہے، جبکہ حقیقی دوست اوررشتے دار اس ''ڈبے'' سے باہر بھی آپ سے محبت کرتے ہیں اورآپ کے کام آتے ہیں۔ ان کو جوڑنے کی کوشش کریں، ان کو ان کا حق ادا کیجیے۔ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہیے۔ اگر وہ بچھڑ جائیں تب بھی ان کو یاد رکھیے۔سوشل میڈیا کی دوستیوں کے ساتھ ساتھ حقیقی دوستیاں اوررشتے داریوں کو بھی مضبوط کیجیے، اگر ہم نے اپنے رویوں پر نظرثانی نہ کی اور اسی طرح حقیقی دنیا کو خیربادکہہ کر مصنوعی دنیا میں مگن رہے تو ایک ایک کرکے اپنے بہت سے قریبی لوگوںکوکھودیں گے۔