سارک کا مستقبل کچھ تلخ سوال
جنوبی ایشیا میں دنیا کی 20 فی صد آبادی بستی ہے اور مجموعی طور پر اس کا 40 فی صد حصہ غربت کا شکار ہے
جنوبی ایشیا میں دنیا کی 20 فی صد آبادی بستی ہے اور مجموعی طور پر اس کا 40 فی صد حصہ غربت کا شکار ہے، دنیا میں سب سے زیادہ غربت سے متاثر خطہ یہی ہے۔ سرحدی تنازعات اور جنگوں کے تاریخی پس منظر کے ساتھ یہ خطہ سیاسی کشیدگی، بے اعتمادی اور گاہے بہ گاہے تصادم کے خدشات سے دوچار رہتا ہے۔ مجموعی طور پر یہاں جمہوریت میں احتساب کا تصور رواج نہیں پا سکا، جاگیر دارانہ ذہینت رکھنے والا مقتدر طبقہ اختیارت کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کے لیے تیار نہیں۔ تعلیم سے دوری کے باعث عوام کی اکثریت اپنے مسائل کے حل کے لیے جدوجہد سے لاتعلق اور متذبذب ہے۔
1985ء میں سارک کا قیام ہوا، جنوبی ایشیائی خطے کی ترقی کے امکانات ہمیشہ روشن رہے ہیں، لیکن اجتماعی بہبود، عام آدمی کی زندگی میں بہتری، سست رفتار، ناقابل ذکر پیشرفت اور کام یابیوں نے اس تنظیم کو بے اثر اور جمود کا شکار کر دیا۔ سارک کے ان حالات اور اس کے اسباب جاننے کے لیے 6 فروری 2017ء کو سری لنکا کے انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز (آئی این ایس ایس) اور سری لنکا میں پاکستانی ہائی کمیشن کے اشتراک سے ایک سیمینار منعقد ہوا، جس کی میزبانی سری لنکا میں پاکستانی ہائی کمشنر میجر جنرل (ر) شکیل حسین نے کی جب کہ سری لنکا کے سیکریٹری دفاع کروناسینا ہیٹیا راچشی اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔
مقررین میں سارک کے سابق سیکریٹری جنرل نہال روڈریگو، آئی این ایس ایس ایل کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) اسانگا ابیا گوناسی کیرایشنل یونیورسٹی آف سائنس و ٹیکنالوجی کے گورنمنٹ پالیسی اینڈ پبلک ایڈمنسٹریشن شعبے کے سربراہ ڈاکٹر سید رفعت حسین بھی شامل تھے۔
مسئلہ کشمیر اور بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیاں خطے میں مکمل قیامِ امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔ عوامی مزاحمت کو کچلنے کے لیے مہاراجا ہری سنگھ نے، فوجی مدد کے عوض، متنازعہ معاہدۂ الحاق کیا، حالانکہ کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی۔ پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کی بنیادی وجہ کشمیر پر بھارتی افواج کا قبضہ ہے۔
اس سرزمین پر بھارتی دعوے کو اقوام متحدہ نے بھی مسترد کیا اور کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دیا۔ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت ملنا چاہیے۔ تباہ کُن شکل اختیار کرنے والے تنازعات حل کرنے کے لیے سارک میں باقاعدہ نظام وضع کرنا ضروری ہے۔ دوطرفہ تنازعات اگر سارک میں زیر بحث لائے جائیں تو اس سے پُرامن فضا میں خطے کی سیاست پر پیشرفت کے امکانات پیدا ہوں گے۔
خطے میں بالخصوص پاکستان و افغانستان اور بھارت و بنگلا دیش کے مابین پناہ گزینوں اور نقل مکانی پر مجبور افراد کا سیلاب ایک سنگین مسئلہ ہے جس کی وجہ سے خارجی قوتوں کو بھی مداخلت کا موقع ملتا ہے۔ بھارت، افغانستان، پاکستان اور بنگلا دیش خطے کے وہ ممالک ہیں جہاں علیحدگی پسند اور شورش برپا کرنے والے گروہ تیزی سے پھل پھول رہے ہیں۔
بھارت نکسل باغیوں کے ہاتھوں زخم خوردہ ہے، اس گروہ کو سابق بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے بھارت کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔ یہ اپنی جڑیں مضبوط کر رہے ہیں اور 70 اضلاع میں حکومت کو اس تحریک کی جانب سے ریوینیو جمع کرنے کی اجازت نہیں۔ بھارت کی مالی اور اخلاقی مدد سے سری لنکا کے جنت نظیر جزیرے کو جہنم بنا دینے والے عناصر کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ باہمی تنازعات رکھنے والے، خطے کے ممالک کے مابین اعتماد کی بحالی کے لیے کوئی غیر معمولی قدم نہیں اٹھایا جا سکا۔
ڈاکٹر رفعت حسین نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی متعدد خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی اور بتایا کہ کس طرح یہ معاملہ دونوں ممالک کے مابین ممکنہ جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ دہشتگردی اور شورش سرحدوں کی پابند نہیں، غیر ریاستی عناصر جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنے ممالک میں رہتے ہوئے کہیں بھی انتشار اور فتنے کے بیج بو سکتے ہیں۔
جنوبی ایشیائی ممالک کے مابین آزادانہ تجارت کے معاہدے (SAFTA) سے خطے کے ممالک کے مابین معاشی تعلقات کے فروغ کی کئی امیدیں وابستہ تھیں جو جلد ہی دَم توڑ گئیں۔ یہ معاہدہ یکم جنوری 2006ء کو وجود میں آیا لیکن ناقص روابط اور کمزور سرحدی انفرااسٹرکچر (کسٹمز اسٹیشنز، گودام، غیر متحرک سرحدی حکام) کی وجہ سے اس پر تاحال عمل نہیں ہو سکا۔
جنوبی ایشیا میں ایک مضبوط تجارتی بلاک بنانے کی ضرورت ہے۔ اس خطے کی باہمی تجارت کا حجم محض پانچ فی صد ہے جب کہ اس کے مقابلے میں دیگر علاقائی تنظیموں مثلاً NAFTA کا تجارتی حجم 52 فی صد، ایشیا پیسفک 32 فی صد اور آسیان میں شامل ممالک کی باہمی تجارت 22 فی صد تک ہے۔ بھارت کی خود غرضی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ خطے میں کسی بھی معاشی پیشرفت کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتا ہے۔
پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ سری لنکا کی نومنتخب حکومت نے بھارتی اصرار پر اپنے ملک میں چین کے فنڈ سے تعمیر ہونے والے انفرااسٹرکچر کے تقریباً تمام منصوبے منسوخ کر دیے ہیں۔ تین برس بعد، تاحال جب بھارت سے فنڈز ملنے کے آثار دور دور تک نظر نہیں آتے، سری لنکا کو ایک بار پھر چین کے در پر جانا پڑے گا۔
بھارت اور دیگر ممالک کے مابین کوئی جوڑ نہیں، ٹیکنالوجی اور معاشی ترقی کا موازنہ کیا جائے تو بھارت کے مقابلے میں یہ انتہائی معمولی ہے۔ متعدد چینی اساتذہ، جن میں فودان یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے پروفیسر شویان بھی شامل ہے، سری لنکا میں بڑھتے ہوئے بھارتی اثر و رسوخ پر رائے کا اظہار کر چکے ہیں۔ بھارت بحرِ ہند میں چینی رسوخ کو کم کرنا چاہتا ہے اور اسی کی ایما پر سری لنکا نے ہیمبنتوٹا بندرگاہ کا تنازعہ کھڑا کیا۔ سری لنکا کب تک یہ دباؤ برداشت کر سکے گا؟ کم از کم دانش مند طبقات اور عوام اس کے لیے تیار نہیں۔
بھارت کی ہٹ دھرمی نے سارک کو عضو معطل بنا دیا ہے۔ پاکستان میں سارک کے 19 ویں اجلاس کی منسوخی کے لیے اس نے اڑی حملوں کو جواز بنایا۔ بنگلا دیش، بھوٹان اور افغانستان پر بھی بائیکاٹ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ مذاکرات ناکام بنانے کے لیے غیر ریاستی عناصر کو آلہ کار بنانا کسی طور قابل قبول نہیں۔ غیری ریاستی عناصر ایک ارب سے زاید انسانون کو کیسے یرغمال بنا سکتے ہیں؟
مالدیپ اور افغانستان کو چھوڑ کر، سارک میں جن ممالک سے بھارت کی سرحدیں ملحق ہیں، کسی نہ کسی جواز کی بنا پر ان کے ساتھ بھارت کے تعلقات مسائل کا شکار ہیں۔ بھارتی دفاع کی حکمت عملی غلبے کے اصول پر مبنی ہے۔ وہ عالمی قوت بننے کے لیے پڑوسی ممالک کے معاملات میں مداخلت سمیت کوئی بھی حربہ استعمال کرنے پر مصر ہے۔ بھارت سارک کو غیر مؤثر بنا کر اسے ایک ایسا پلیٹ فارم بنانا چاہتا ہے جہاں صرف اس کے مفادات کا تحفظ ہو۔
سارک کو اس کے طاقتور ترین رکن کا یرغمال بننے سے بچانا ہو گا۔ ان اسباب پر غور کرنا چاہیے جن کی وجہ سے یہ فورم اس حالت کو پہنچ چکا اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ یہاں ہونے والے معاہدوں یا فیصلوں کا فائدہ کسی ایک کے بجائے سب کو یکساں طور پر پہنچنا چاہیے۔ جب تک خطے کی معاشی محرومیوں اور امتیازی سلوک کا خاتمہ نہیں ہوتا اور اصلاحات کے ساتھ باہمی تعلقات میں بھی عدل قائم نہیں کیا جاتا، سارک کی اثر پذیری اور افادیت پر سوالیہ نشان لگا رہے گا۔
مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر خطے میں امن خواب ہی رہے گا اور رفتہ رفتہ سارک بھی بے معنی ہو جائے گی۔ یہاں حاضرین میں سے کئی ایک نے کشمیر میں پیلٹ گن کے استعمال کا تذکرہ کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ صورت حال مزید خوف ناک شکل اختیار نہیں کرے گی؟ کیا ہم کبھی کشمیر کا مسئلہ حل نہیں کر پائیں گے؟ کسی حل پر متفق ہونے سے ہمیں کیا چیز روکے ہوئے ہے؟ جب ان سوالوں کا جواب نہیں ملتا تو دل و دماغ میں ایک ہولناک خیال ضرور سر اٹھاتا ہے کہ سارک کہیں حالات کی تلخی میں تحلیل نہ ہو جائے۔
(سری لنکا میں ہونے والی کانفرنس کے ایک مذاکرے سے مقتبس۔ اس نشست میں راقم بطور مقرر مدعو تھا)