دو کہانی کاروں کی ملتی جلتی کہانیاں پہلا حصہ
سنگیتا کے والد نے اسے سمجھانے کی لاکھ کوشش کی مگر وہ ناکام رہے
میں کبھی کبھی ایک آدھ نظم یا غزل ''سیپ'' اور ''تخلیق'' کے ایڈیٹرزکو بھیج دیا کرتا تھا جب وہ شایع ہوجاتی تھی تو پڑھ کر بڑی خوشی ہوتی تھی کہ اب ہمارا نام بھی چھپنے لگا ہے۔ انھی دنوں میرا کچھ ادبی تعارف لاہور کی شاعرہ رخسانہ آرزوؔ سے ہوا تھا جو زیادہ تر پنجابی کی نظمیں اور اردو میں کچھ گیت وغیرہ ایڈیٹراظہر جاوید کے رسالے تخلیق میں لکھتی رہتی تھی۔ رخسانہ آرزو اس زمانے میں نئی نسل کے لکھنے والوں میں ایک ابھرتا ہوا نام تھا پھر جب میں کراچی کی چند فلموں میں بطور فلمی نغمہ نگار متعارف ہونے کے بعد لاہور کی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوا تو پہلی بار لاہور کی فلموں کے مشہور مصنف آغا حسن امتثال کے سیٹ پر ایک دبلے پتلے نوجوان کو ان کے اسسٹنٹ کے طور پر دیکھا اس کا نام سید نور تھا۔
سید نور،آغا حسن امتثال کا ایک ہونہار شاگرد تھا پھر جب میں سنگیتا پروڈکشن سے گیت نگارکی حیثیت سے وابستہ ہوا تو میری سنگیتا پروڈکشن کے آفس میں سید نورسے اکثر ملاقاتیں ہوجاتی تھیں۔ سنگیتا کے والد طیب رضوی نے بتایا کہ سید نور نے ہمیں ایک کہانی دی ہے۔ کچھ دنوں بعد سید نور کی کہانی فائنل کردی گئی اور فلم کا نام ''سوسائٹی گرل'' تجویزکیا گیا۔ دو تین ہفتوں کے بعد فلم کو سیٹ پر آنا تھا۔ ہیرو کے لیے اداکار محمدعلی کوکچھ بیعانہ دے کر کاسٹ کرلیا گیا۔
سنگیتا نے جب علی بھائی کو یہ بتایا کہ وہ اس فلم کی ڈائریکشن خود دے گی تو پھر محمد علی نے دوسرے دن بیعانہ کی رقم واپس بھجوا کر فلم میں کام کرنے سے انکارکردیا۔ محمد علی نہیں چاہتا تھا کہ سنگیتا کی ڈائریکشن میں وہ کام کرے اس نئے موڑ کے بعد سنگیتا نے اپنے فیصلے میں کوئی تبدیلی نہیں کی اور وہ اس بات پر اڑی رہی کہ ڈائریکشن تو وہی دے گی۔
سنگیتا کے والد نے اسے سمجھانے کی لاکھ کوشش کی مگر وہ ناکام رہے لیکن سنگیتا کی والدہ نے اس کا ساتھ دیتے ہوئے فلم انڈسٹری میں نئے آئے اداکار غلام محی الدین کو ''سوسائٹی گرل'' میں ہیرو کاسٹ کرلیا۔ سنگیتا کی فلم ''تیرے میرے سپنے'' سپرہٹ ہوچکی تھی۔اس پروڈکشن کا نام ہو چکا تھا اور پھر غلام محی الدین کو بھی فلموں کی ضرورت تھی۔ لہٰذا وہ مرضی کے مطابق شوٹنگ کی تاریخیں دینے کے لیے بھی تیار ہوگیا۔ سنگیتا نے بڑی محنت اور لگن کے ساتھ فلم ''سوسائٹی گرل'' کی ڈائریکشن دی۔
سنگیتا اورکویتا دونوں کے کردار فلم میں بڑے اچھے اورجاندار تھے۔ فلم مکمل ہونے کے بعد جب نمائش کے لیے پیش ہوئی تو فلمی دنیا کے خلیفہ لوگوں کی امیدوں کے برعکس ''سوسائٹی گرل'' باکس آفس پر سپرہٹ فلم ثابت ہوئی اور اس فلم کی بے مثال کامیابی کے بعد سنگیتا بطور ہدایت کارہ بھی تسلیم کرلی گئی۔
سید نور کو بھی اپنی پہلی فلم ''کہانی'' سے بڑی شہرت ملی اور اس شہرت کے ساتھ ساتھ اسے ایک اچھی بیوی رخسانہ آرزو بھی مل گئی جو پھر رخسانہ نور کے نام کے ساتھ اور زیادہ لائم لاٹ میں آ گئی اب یہاں سے لالی ووڈ اور بالی ووڈ کے دو مشہورکہانی کاروں کی فنی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ سید نور لاہورکی فلموں کا کہانی کار اور جاوید اختر ممبئی کی فلم انڈسٹری کا کہانی کار رہا ہے۔
اتفاق سے سید نور کی بیوی رخسانہ بھی افسانہ نگار اور کہانی کار تھی کئی پنجابی فلموں کی کہانیاں بھی لکھیں اور انڈین فلم انڈسٹری کے کہانی کارکی بیوی ہنی ایرانی بھی بہت اچھی کہانی نویس رہی ہے۔ جس طرح سید نور سے پہلے رخسانہ آرزو کے نام سے رخسانہ نور اپنی پہچان اور شناخت رکھتی تھی اور اس کی اپنی ایک ادبی حیثیت بھی تھی۔اسی طرح جاوید اخترکی پہلی بیوی ہنی ایرانی، جس نے ڈھائی تین سال کی عمر میں بطور چائلڈ آرٹسٹ اپنے کیریئرکا آغاز کیا تھا جوان ہوتے ہوتے وہ ایک ذہین کہانی نویس ہو چکی تھی۔
اصل قصہ اب شروع ہوتا ہے کہ سید نور اورجاوید اختر کی پہلی بیویاں اپنے اپنے شوہروں کی شہرت سے پہلے شہرت یافتہ تھیں اورکافی خوشحال تھیں مگر شادی کے کچھ سال بعد جب سید نور اور جاوید اختر دونوں کی محنت رنگ لائی اور خوشحالی ان کی زندگی کا حصہ بن گئی اور شہرت کے ساتھ دولت بھی ان دونوں کے دروازوں پر دستک دینے لگی اور جب دونوں ہی شہرت کے نشے سے سرشار ہوگئے تو پھر ان دونوں ہی کہانی کاروں نے اپنی اپنی پہلی بیویوں کو داغ مفارقت دے کر اپنے دور کی فلمی ہیروئنوں سے شادیاں کرلیں اور ان بیویوں کو جو ان کی پہلی پہلی محبت تھیں ان بیویوں کو جنھوں نے انھیں اس وقت سہارا دیا تھا جب وہ بے نام بھی تھے اور بے دام بھی تھے۔
سید نور سے تو میری لاہور میں دس بارہ سال کے دوران بے شمار ملاقاتیں رہی تھیں اورکئی فلموں میں ایک ساتھ کام بھی کیا تھا۔ سید نورکی کہانیاں ہوتی تھیں اور میرے نغمات۔ ہم دونوں کی بڑی بے تکلفی بھی تھی، مگر کہانی کارجاوید اخترکا تعلق انڈین فلم انڈسٹری سے ہے۔ اس لیے میں ان سے کبھی نہیں ملا۔ ہاں ان کے بارے میں سنا تھا اور ان کے بارے میں پڑھا بھی۔ بلکہ ان کے والد نامور شاعر اور نغمہ نگار جاں نثاراختر کا میں شیدائی رہا ہوں اور جب جب ان کے لازوال گیت فلموں میں سنتا تھا تو میں بحیثیت ایک پرستار ان کے اور بھی قریب محسوس کرتا تھا پھر میں نے اپنے صحافتی سفر کے دوران جاں نثاراخترکی شاعری اور شخصیت پر مضامین بھی لکھے ہیں۔ جب جاں نثار اکثر فلم ''رضیہ سلطان'' کے لیے گیت لکھ رہے تھے اسی دوران بمبئی میں دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہو گیا تھا۔
اس سے پہلے کہ میں سید نورکی شخصیت کے بارے میں لکھوں میں جاوید اختر کی زندگی اور ان کے فنی سفر اور ان کی نوعمری کے زمانے سے کچھ باتیں شیئرکرتے ہوئے اپنے کالم کو آگے بڑھاتا ہوں۔ جب شہرت جاں نثار اختر کے گلے کا ہار تھی اور جاوید اختر ایک نو عمر لڑکا تھا تو وہ رات گئے تک باہر رہتا تھا اور اپنے باپ کی نصیحتوں کو ایک کان سے سنتا تھا اور دوسرے کان سے اڑا دیا کرتا تھا۔
باپ کی خواہش تھی کہ جاوید رات رات بھر گھر سے باہر نہ رہا کرے۔ سگریٹ اور شراب کو اپنی نوجوانی کا حصہ نہ بنائے مگر جاوید اختر لاڈلہ بیٹا تھا اسی لیے کچھ خودسر ہوتا جا رہا تھا۔ جب بھی جاں نثار اختر بیٹے کو سرزنش کرتے تو وہ ہر بات کا برا مان جاتا تھا اورکبھی کبھی تو اتنا زیادہ برا مانتا تھا کہ کئی کئی دن گھر نہیں آتا تھا اور پھر یہ انوکھا لاڈلہ اپنے چچا سمان نامور شاعر ساحر لدھیانوی کے گھر چلا جاتا تھا اور انھی کے گھر میں کسی کمرے میں سوجایا کرتا تھا۔
ساحر لدھیانوی اور جاں نثار اختر ترقی پسند تحریک کے زمانے کے گہرے دوست تھے۔ ساحر لدھیانوی جاں نثار اختر کی سخت گیر طبیعت اور جاوید اختر کی سرکشی کی عادت سے واقف تھے۔ اسی لیے اس کو اپنے گھر میں رکھ لیتے تھے اورکبھی کبھی کچھ نوٹ بھی اس کی جیب میں یہ کہہ کر ڈال دیا کرتے تھے یہ رکھ لو جادو بیٹا۔ جب کماؤ پوت بن جاؤگے تو یاد کرکے لوٹا دینا۔
(جاری ہے)