اب مرض رہے گا یا مریض
خدا نے ہر انسان کو مخصوص صلاحیت سے نوازا ہے
ویب سائٹ روم کے نئے سروے میں برطانیہ میں مختلف جامعات کے 1805 طلبا رائے لی گئی جن سے پتہ چلا کہ 18 فیصد طلبا اپنے شعبے کے انتخاب پر پچھتاتے ہیں۔ طلبا کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے انتخاب کے بارے میں مناسب تحقیق نہیں کی اور اگر انھیں دوسرا موقع دیا جائے تو وہ مختلف فیصلہ کریں گے اور کسی اور یونیورسٹی کا انتخاب کریں گے۔
اسٹوڈنٹ روم کی کمیونٹی منیجر حنا مورش جنھوں نے اس سروے کی نگرانی کی، نے کہا کہ یہ تشویش کی بات ہے کہ اتنے سارے طلبا اپنی زندگیوں کے اہم موڑ پر غلط فیصلے کررہے ہیں۔ برطانیہ اس معاملے میں بھی ہم سے زیادہ خوش نصیب نکلا ہے کہ اس کے تو صرف 18 فیصد طلبا ایسے ہیں جو اپنی زندگی کے اہم موڑ پر غلط فیصلہ کیے بیٹھے ہیں جب کہ ہمارے ملک میں 90 فیصد سے زائد لوگ اپنی زندگیوں میں غلط فیصلے کیے بیٹھے ہیں، جو سب کے سب اپنے اپنے شعبوں کے انتخاب پر پچھتا رہے ہیں، یعنی انھیں بننا کچھ اور چاہیے تھا اور بن کچھ اور گئے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ اپنی نہیں بلکہ دوسروں کی زندگیاں جی رہے وہ اپنا نہیں بلکہ دوسروں کا کام کیے جارہے ہیں، وہ سب اپنی نہیں دوسروں کی سوچ سوچ رہے ہیں۔ وہ سب اپنے آپ سے اجنبی ہیں، تن اور من تو خود ان کا اپنا ہے لیکن ان میں بستا کوئی اور ہے، رہتا کوئی اور ہے، جسے وہ نہ جانتے ہیں اور نہ ہی پہچانتے ہیں۔
ان میں سے بننا کسی کو ڈاکٹر تھا، بن وہ انجینئر گیا ہے، جسے اکاؤنٹنٹ بننا چاہیے تھا وہ صحافی بن گیا ہے اور جسے صحافی بننا چاہیے تھا وہ اکاؤنٹنٹ بن گیا ہے، جسے کیمسٹری کا ماہر ہونا چاہے تھا وہ فزکس کا ماہر بن چکا ہے، جسے سرکاری افسر بننا چاہیے تھا وہ استاد کا پیشہ اختیار کیے ہوئے ہے اور جسے استاد ہونا چاہیے تھا وہ مستری کا کام کررہا ہے، جسے سائنس دان بننا چاہیے تھا وہ بینکر بنا ہوا ہے اور جسے بینکر ہونا چاہیے تھا وہ بزنس مین بن گیا ہے اور جو کچھ بننے کے لائق ہی نہیں تھا وہ سیاست دان بن گیا ہے اور جسے سیاست دان بننا چاہیے تھا وہ ملا بن چکا ہے۔ اسی وجہ سے ملک کے تمام ادارے بدحال، تباہ حال اور ناکارہ بن گئے ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص غلط جگہ بیٹھا غلط کام سر انجام دے رہا ہے، کوئی بھی صحیح شخص کسی صحیح جگہ پر براجمان نہیں ہے۔
خدا نے ہر انسان کو مخصوص صلاحیت سے نوازا ہے، تمام صلاحیتوں سے نہیں، اس لیے اگر وہ اپنی صلاحیت کے عین مطابق کام کرے گا، تو وہ کام بہتر انداز میں سرانجام پائے گا لیکن اس کے برعکس اگر وہ اپنی صلاحیتوں کے برخلاف کام سر انجام دینے کی کوشش کرے گا تو اس کا انجام پھر وہی نکلے گا، جو پاکستان کا نکلا ہے۔ آپ ایسا کریں کسی روز اپنے قیمتی یا ناکارہ وقت میں سے کچھ وقت نکال کر اپنے شہر کے مینٹل اسپتال کا بہ نفس نفیس مشاہدہ کرلیں اور وہاں پر موجود مریضوں کا تفصیلی جائزہ لے لیں، جب آپ تفصیلی جائزہ لے رہے ہوں گے تو آپ کو بڑے ہی دلچسپ مناظر دیکھنے کو نصیب ہوں گے۔
وہاں ہر شخص کچھ نہ کچھ بنا ہوا ہوگا اور اس کردار کی ایکٹنگ میں مصروف ہوگا، یعنی کوئی ڈاکٹر بنا ہوا ہوگا، تو کوئی انجینئر، صحافی، پولیس والا، ملا، سرکاری افسر، بزنس مین، جاگیردار، سرمایہ دار، مل اونر، سیاست دان، وزیر، مشیر بنا ہوا نظر آئے گا۔ جب آپ اپنا مشاہداتی اور معلوماتی دورہ ختم کرچکیں تو پھر آپ اسپتال سے نکل کر کسی بھی آرام دہ جگہ پر بیٹھ کر ملک کے تمام اداروں میں بیٹھے لوگوں اور اسپتال میں موجود مریضوں کو اپنے ذہن میں لاکر موازنہ کرلیں اور جب آپ موازنہ کرچکے ہوں گے تو آپ ہنس ہنس کر پاگل ہوجائیں گے، کیونکہ دونوں جگہوں میں موجود لوگوں میں اس قدر مماثلت پائیں گے کہ آپ سے ہنسے بغیر رہا ہی نہیں جائے گا اور آپ اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ مریض صرف مینٹل اسپتال میں ہی موجود نہیں ہیں بلکہ ان کا وجود پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے اور وہ بغیر ڈھونڈے اور تلاش کیے بغیر ہر جگہ مل جائیں گے۔
دراصل ہم سب دوغلی، جھوٹی اور دوسروں کی زندگی جی جی کر مریض بن گئے ہیں، ایسے مریض جو ایک دوسرے کو نوچ رہے ہیں، کاٹ رہے ہیں۔ ملک ایک بڑے مینٹل اسپتال میں تبدیل ہوکر رہ گیا ہے، جہاں کوئی ڈاکٹر نہیں بستا، سب مریض بستے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ مریض ہی مریضوں کا علاج کررہے ہیں، ان کا مرض تشخیص کرنے میں مصروف ہیں۔ سب کے سب ایک دوسرے کو نصیحتیں بھی کرتے پھر رہے ہیں اور سب کے سب صحت مند اور تندرست نظر آنے کی ایکٹنگ میں مصروف ہیں۔ سب ایک دوسرے کو دھوکا دے رہے ہیں، سب کچھ جانتے، بوجھتے اور سمجھتے بھی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس بدترین صورتحال سے نکلیں گے کیسے؟ یہ ہی وہ اہم ترین سوال ہے جس کو کرنے کے بعد چاروں طرف بھیانک خاموشی طاری ہوجاتی ہے، کیونکہ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے اور جو کوئی ہمیں آئینہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے تو ہم اس سے لڑنا جھگڑنا شروع کردیتے ہیں۔ ہماری حالت ہندوستان کی اس عورت کی طرح ہوکر رہ گئی ہے جو بہت بدصورت تھی اس لیے وہ آئینوں کی دشمن ہوگئی، اسے جہاں بھی آئینہ نظر آتا وہ اسے توڑ ڈالتی۔ اس کی آئینے سے دشمنی پاگل پن کی صورت اختیار کرگئی اور آخرکار اسے ایک ماہر نفسیات کے پاس لایا گیا۔
اس عورت نے ماہر نفسیات کو بتایا کہ کچھ بھی ہوجائے وہ آئینے کو برداشت نہیں کرسکتی، کیونکہ آئینوں کی وجہ سے ہی وہ بدصورت ہوجاتی ہے، آئینہ نہیں ہوتا تو میں خوبصورت ہوں، آئینہ سامنے آتا ہے تو میں اچانک بدصورت ہوجاتی ہوں۔ جب آپ سچ نہیں سن سکتے تو پھر آپ آئینوں کے دشمن ہوجاتے ہو لیکن تم اپنے آپ کو کتنا ہی خوبصورت سمجھتے رہو جب بھی تمہاری نگاہ آئینے پر پڑے گی تو تم پھر سے بدصورت ہوجاؤ گے، کیونکہ سچ یہی ہوتا ہے۔
معروف مصنف جان گارڈنر نے کہا تھا ''بہت سے بیمار اداروں نے اپنی خامیوں کی وجہ سے کارکردگی کا ایک اندھا پن پیدا کر رکھا ہے، یہ اس لیے بیمار نہیں ہیں کہ اپنے مسائل حل نہیں کرسکتے بلکہ اس لیے متاثر ہیں کہ اپنے مسائل دیکھ ہی نہیں سکتے''۔ آئن اسٹائن نے کہا تھا ''سنگین مسائل جو ہمیں درپیش ہوتے ہیں اس سطح کی سوچ سے حل نہیں ہوسکتے جس سطح پر ہم انھیں پیدا کرتے ہیں''۔
یاد رکھیں مرض خودبخود ختم نہیں ہوتے اور نہ ہی مریض بغیر کچھ کیے بغیر تندرست ہوتے ہیں، مریض مرض کو ختم کرکے ہی تندرست ہوتے ہیں اور دوسری صورت میں مرض مریض کو ختم کرکے ہی زندہ رہتا ہے۔ دیکھتے ہیں ہمارے ملک میں کون زندہ رہتا ہے مرض یا مریض۔