قاتل سڑکیں مقتول طالبات

کراچی کے باسیوں کو پیار کی ضرورت ہے، خدارا اُن کو ہر دکھ سے آزاد کریں کیوںکہ کراچی خوش ہوگا تو پاکستان خوشحال ہوگا۔


کراچی کے شہری بھی عجیب ہیں حکمرانوں کی جانب سے بہائے جانے والے مگرمچھ کے آنسو سے وہ بہل جاتے ہیں۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ چند لمحے پہلے اُن کے ساتھ کیا بیتی ہے۔

اخبارات اور ٹی وی چینلز پر بدلتے کراچی کے خواب سجائے شہرِ قائد میں قدم رکھے لیکن شہر میں پہلی خبر ہی ٹریفک حادثہ سے متعلق سنی جس میں جامعہ اردو کی طالبہ، ایک ٹریفک حادثے کا شکار ہو کر بے ہوش تھی۔ چند دن اِس شہر میں رہنے کے بعد اندازہ ہوا کہ کمرے سے باہر جانا محال ہورہا ہے، جگہ جگہ سے کُھدا ہوا، دھول، مٹی اور گرد سے اٹا ہوا شہر، یہاں کے باسیوں کی مسکراہٹ گویا اِس شہر کی کُھدی ہوئی سڑکوں میں کہیں کھو سی گئی تھی۔

یونیورسٹی روڈ پر رہائش رکھنے کی وجہ سے روزانہ اِس سڑک پر چلتی ہوئی منی بسوں کو دیکھتا ہوں جن کو چلانے والے، آگ لاری، بم ڈرائیور کی خصوصی عبارت اپنی بسوں پر تحریر کرائے، ڈرائیونگ کے اصولوں سے نابلد، ٹریفک قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے، دھول و گرد کے بادل اُڑاتے تیز رفتاری سے رواں ہیں۔ جامعہ کراچی دو دفعہ جانے کا موقع ملا وہاں پر بھی منی بسوں کی بدتمیز رفتار کا سامنا کرنا پڑا۔ ابھی میں جامعہ اردو کی طالبہ ہنزہ کی بے ہوشی کے صدمے سے باہر نہیں آیا تھا کہ خبر ملی کہ یونیورسٹی کی مزید تین طالبات اسی قاتل سڑک پر بے رحم منی بسوں کا نشانہ بنیں اور دارالعلم کے بجائے دارالبقاء کے سفر پر روانہ ہوگئیں۔

اِن طالبات کی تدفین کے انتظامات بھی نہیں ہو پائے تھے کہ ہنزہ کی وفات کی خبر ملی، دو معصوم بیٹوں کی ماں، دلکش زندگی کے سپنے سجائے گھر سے نکلی ہوگی۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد کے کتنے منصوبے ہوں گے، جی ہاں گزشتہ گیارہ روز میں سات سے زائد طالب علموں کے سپنوں کا قتل ہوا۔

واضح رہے کہ دس اہم تعلیمی ادارے نیشنل کالج سے یونیورسٹی روڈ پر موجود ہیں۔ اہلِ کراچی کے خوابوں کی تعمیر اِس شاہراہ پر ہو رہی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہ شاہراہ، شہریوں سے اپنا خِراج وصول کر رہی ہے۔ کل ہونے والے حادثے کے بعد وفاقی جامعہ اردو کے طلبہ سڑک پر نکل آئے، اور وزیرِ ٹرانسپورٹ وہاں تشریف لانے پر مجبور ہوگئے۔ کچھ روئے، بے بسی کا اظہار کیا اور پھر طلبہ کو تسلیاں دیں۔ فرمانے لگے کہ ناتجربہ کار ڈرائیور حضرات اور انہیں گاڑیاں دینے والے مالکان کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔ کراچی کے مختلف علاقوں میں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے ہی ترقیاتی کام کئے جا رہے ہیں لیکن اگر کچھ افراد کی غلطی کی وجہ سے ایسے حادثات رونما ہوجاتے ہیں تو اُن کے خلاف ٹریفک پولیس اور دیگر ادارے ایکشن لے رہے ہیں۔ اِس کے بعد موصوف نے پانچ پانچ لاکھ روپے جاں بحق ہونے والے طلبہ و طالبات کے لواحقین کو دینے کا اعلان کیا اور یوں یہ احتجاج ختم ہوگیا۔

میں 8 سالوں سے لاہور میں مقیم ہوں۔ پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز تک تعلیم حاصل کی اور پھر نجی یونیورسٹی میں ایم فل کے لئے داخلہ لے لیا۔ لاہور کے گلی محلے سے لے کر سب سے بڑی یونیورسٹی جامعہ پنجاب تک، ہر تعلیمی ادارے کی اپنی بسیں ہیں۔ مجال ہے کہ کسی بھی تعلیمی ادارے کے طلبہ وطالبات کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ درپیش ہوا ہو۔

تعلیمی اداروں کی اپنی بسوں کے علاوہ پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے بھی پنجاب حکومت کی جانب سے طلبہ وطالبات کو خصوصی پاس جاری کئے گئے ہیں جن کے ذریعے صرف دس روپے میں شہر لاہور میں کسی بھی جگہ پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرسکتے ہیں۔ ہاں جی! اسی صوبے سے جہاں مسلم لیگ ن، 9 برس سے اقتدار پر براجمان ہے۔ وہاں حکومت کی کرپشن، لوٹ مار اور دیگر چیزوں سے مجھے اختلاف ہے، مگر جناب، سندھ کے تخت پر بھی تو پیپلز پارٹی 9 برس سے قابض ہے۔ اِس صوبے کے سب سے بڑے شہر کو یہاں کے حکمرانوں نے کیا دیا؟ محرومیاں، احساس کمتری، صفائی، صحت اور تعلیم کے ان گنت مسائل یہاں کے شہریوں کی تقدیر میں لکھ دئیے گئے ہیں۔

یہاں کی بے رحم، چیختی چنگاڑتی گاڑیاں بے گناہ افراد کی جان لے رہی ہیں، مجال ہے کسی نے اِن بسوں کے ٹائروں تلے روندنے والے بس ڈرائیورز کے خلاف کوئی ٹھوس قدم اٹھایا ہو۔ فٹنس سرٹیفیکٹ کی جگہ گاڑیوں کے ڈرائیورز 50 روپے کے نوٹ دکھا کر موت بانٹ رہے ہیں۔ گزشتہ روز یونیورسٹی روڈ پر دس سے زائد چکر لگائے۔ اتنے چکر لگانے کے بعد یہ بات بہت ہی وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جس ناقص منصوبہ بندی کے تحت اِس سڑک کی تعمیر کی جارہی ہے اِس سے مزید جانیں ضائع ہوسکتی ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق جب کراچی کی آبادی صرف 50 لاکھ تھی اُس وقت جامعہ کراچی کے طلبہ وطالبات کے لئے 102 یونیورسٹی پوائنٹس تھے۔ اب جب کہ شہر کی آبادی دو کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے تو جامعہ کراچی کے پاس صرف 25 بسیں ہیں۔ یہی صورت حال جامعہ اردو کی ہے، یہاں کے حکمرانوں نے نوجوانوں کو بے رحم اور ناتجربہ کار ڈرائیورز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، جو جب چاہیں معصوم پھولوں کو اپنی گاڑیوں کے نیچے روند کر چلتے بنیں۔

یہاں کے شہری بھی عجیب ہیں بس تسلیوں سے بہل جاتے ہیں۔ حکمرانوں کی جانب سے بہائے جانے والے مگرمچھ کے آنسو انہیں زیر کردیتے ہیں۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ چند لمحے پہلے اُن کے ساتھ کیا بیتی ہے۔ خیر یہ سب باتیں ایک جانب مگر حکومتِ سندھ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ شہر کراچی میں موت بانٹنے والی منی بسوں کے خلاف سختی سے نپٹا جائے۔ فٹنس سرٹیفیکٹ نہ رکھنے والی بسوں کے مالکان کے کیخلاف کارروائی کی جائے، ناتجربہ کار اور ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر سڑک پر آنے والے ڈرائیورز کو قرار واقعی سزائیں دی جائیں۔ تعلیمی اداروں میں ٹرانسپورٹ کی سہولیات دی جائیں، موت کی سوداگری کی جگہ زندگی کا بیوپار کیا جائے۔ بوڑھے والدین کو معصوم بچوں کی لاشوں کے تحفے دینے کے بجائے، بڑھاپے کے سہارے دئیے جائیں۔

اہلِ کراچی کے دل تو سمندر سے بھی وسیع ہیں، اُن کی وسعتوں میں محبت کی جوت جگائیں، زندگی کے نغمے سنائیں۔ خوشیوں کے دیپ جلا کر اُن کے چہروں پر تازگی کا احساس لائیں، یہاں کے باسیوں کو پیار کی ضرورت ہے، خوشیوں اور رونقوں کی جستجو ہے۔ اُن کو ہر دکھ سے آزاد کریں کیوںکہ کراچی خوش ہوگا تو پاکستان خوشحال ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں