میں ’لائک‘ کروں کہ نہ کروں۔۔۔

’فیس بک سرگرمیوں‘ میں سرائیت کرنے والی نفسیات کا تذکرہ


Rizwan Tahir Mubeen February 12, 2017
کسی بات سے اختلاف کرنا ہے، شائستگی سے اس کا اظہار کردیں۔ فوٹو: نیٹ

PESHAWAR: سماجی ذرایع اِبلاغ (سوشل میڈیا) نے ہماری مصروفیات اور عام قدروں ہی کو ہی نہیں، بل کہ ہماری نفسیات اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں میں بھی بے پناہ تغیر برپا کیا ہے۔

اب ایسا لگتا ہے کہ لوگ حالات اور اپنے خیالات ہی فیس بک پر مشتہر نہیں کرتے، بل کہ اب وہ دراصل 'فیس بک' کے مطابق ہی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہر لمحے اور ہر وقت کی 'خبر' ان کی 'دیوار' پر ضرور دمکتی نظر آتی ہے۔ شاید وہ فیس بک کے 'اسٹیٹس' کے ڈبے پر لکھا ہوا What's on your mind? کو نہایت سنجیدگی سے محسوس کرتے ہیں، اور ہر بار اس کا جواب دینا ضروری خیال کرتے ہیں۔

ویسے تو فیس بک پر 'فرینڈز' کی حد پانچ ہزار ہے، جب کہ 'فالوونگ' کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ ایسے میں ہم بہت سے لوگوں کی 'پوسٹ' چاہنے کے باوجود نہیں دیکھ پاتے، کیوں کہ ہماری ٹائم لائن پر ایسے فیس بک دوستوں کی بہتات ہوتی ہے، جو صبح ہو گئی، شام ہوگئی، آج سردی ہے اور آج گرمی ہو گئی، سے زور کی بھوک لگی ہے، کھانا کھا رہا ہوں، ناشتا نہیں ملا اور سر میں بہت درد ہے، جیسی پوسٹوں کی بھرمار کیے رہتے ہیں۔ اس پر طرّہ یہ کہ ان پر لوگوں کی دل چسپی اور نہایت فارغ قسم کے تبصروں اور بات برائے بات عام ہوتی ہے اور ہر لمحے کی جانے والی ایسی 'فضول' سی پوسٹوں پر لاتعداد 'لائکس' بھی ہمیں حیران کیے دیتے ہیں۔

دوسری طرف ہمارے ذہن میں کوئی خیال بہت دنوں سے کلبلا رہا ہوتا ہے اور ہم نہایت سوچ بچار کے بعد اسے خوب نوک پلک سنوار کے اور سجا کے فیس بک کے سپرد کرتے ہیں، جس کے بعد ہمیں امید ہوتی ہے کہ شاید اسے لوگ پڑھیں گے۔ تعریف و پسندیدگی نہ سہی اس پر کوئی مثبت گفتگو ہو سکے گی یا کوئی سیرحاصل بحث ممکن ہوگی، مگر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہماری پوسٹ کسی ویرانے میں بنے ہوئے مکان کی طرح ہے، کہ کوئی بھولا بسرا بھی اس طرف نہیں آتا۔

کئی بار وسوسے تنگ کرتے ہیں کہ شاید ہماری پوسٹ 'ٹھیک سے' مشتہر نہیں ہوئی، ہم اس کی ترتیب میں جاکر اس کے عام (پبلک) ہونے کا یقین کرتے ہیں، کبھی اس کی کتربیونت کر کے اور کسی تصویر کا اضافہ کر کے اسے پُرکشش بناتے ہیں کہ 'کوئی آئے گا۔۔۔' مگر بات نہیں بنتی۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ بہت دیر ہوئی اور پوسٹ پر کوئی 'ہل چل' ہی نہ ہوئی تو تنک کر پوسٹ حذف کی اور ازسرنو وہی پوسٹ اپنی دیوار پر دے ماری۔۔۔ شاید اس طرح یہ ہمارے احباب کو 'دکھائی' دے جائے۔ پھر بھی بہت سی پوسٹوں پر ایسا ہوا کہ انہیں اپنے پہلے 'لائک' کے لیے گھنٹوں تک انتظار کرنا پڑا۔

ہم اپنے ذہن کی کوئی گتھی سلجھانے کے واسطے کوئی نکتہ لکھتے ہیں، مگر مجال ہے کہ کوئی 'صارف' ڈھنگ سے توجہ دے سکے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہمارے پاس 'فرینڈز' کی تعداد محدود ہو اور اس میں افلاطون سے لے کر سقراط اور بقراط جیسے 'دانش وَروں' کی کوئی کمی ہو، مگر سب بے سود، کیوں کہ ہم عام مقبولیت کے رائج کسی پیمانے پر بھی پورا نہیں اتر رہے ہوتے، ہم نہ تو مذہب کے زور دار تڑکے لگا رہے ہوتے ہیں، نہ ہی ہماری پوسٹ ریاست پرستی کا پُرکیف نشہ لیے ہوئی ہوتی ہے، جس میں کسی 'دشمن' کی سازش کے خلاف جھنجھوڑا گیا ہو۔

ہم تو اپنی پوسٹوں کو مان سمان دے کر بہت چاؤ سے ڈھونڈ، ڈھونڈ کے کچھ اہم ناموں کو 'ٹیگ' کرتے ہیں، مگر اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ الٹا ہماری ہی تضحیک ہوتی ہے کہ جتنے لوگوں کو اس پوسٹ سے نتھی کیا ہوتا ہے، 'لائکس' کی تعداد اُس ہندسے سے بھی بہت پرے رہ جاتی ہے۔ تب ہی ہم 'عدم ٹیگ' کے فلسفے کا دَم بھرنے لگتے ہیں اور یہ کہہ کر خود کو دلاسہ دیتے ہیں کہ ٹیگ تو ویسے بھی زبردستی گلے کا ہار معلوم ہوتا ہے کہ 'مان نہ مان، میں تیرا مہمان'!

اگر ہم یہ بھی فرض کر لیتے ہیں کہ فیس بک پر سب کے پاس 'بھیڑ' بہت ہوتی ہے، اس لیے کسی کو کبھی ہماری سنجیدہ پوسٹیں دکھائی ہی نہیں دیتی ہوں گی، یا ہمارے پاس شامل 'اہل علم و دانش' اپنی شدید پیشہ ورانہ اور نجی مصروفیات میں اس قدر محو رہتے ہوں گے، کہ انہیں خبر ہی نہیں ہوتی ہوگی کہ ہم نے کوئی بَڑھیا اور فلسفیانہ خیال داغا ہوا ہے، لیکن ہمیں اُس وقت شدید حیرت ہوتی ہے، جب ہم نہایت بے ضرر اور لایعنی قسم کی بہت سی پوسٹوں پر ان کے 'لائک' جگمگ کر تے ہوئے دیکھتے ہیں، کیوں کہ وہ پوسٹیں صنف نازک کی ہوتی ہیں یا پھر کسی مشہور زمانہ شخصیت کی، جس کو فقط 'فالوور' ہونے کی ہی مسرتوں پر وہ پھولے نہیں سماتے۔

'ہائے موسم' اور 'صبح کی سیلفی' سے لے کر 'فیلنگ اوسوم' تک کی پوسٹوں پر جب ہر خاص وعام کے ساتھ 'اہل علم' کا جمگھٹا دیکھتے ہیں، تو ہمارا بھی جی چاہتا ہے کہ کاش ہم بھی کوئی زنانہ نام اور تصویر کے ساتھ کچھ لکھیں۔ تو شاید ان وچاروں کی بھی کچھ پذیرائی ہو جائے۔

فیس بک پر دراصل ہماری صنف، حیثیت ومرتبہ، اور شکل وصورت ہماری پوسٹوں کی 'مقبولیت' میں خاصا اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ہم کسی بھی مقام ومرتبے پر ہوں، بہت سے ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں کہ ہم چاہے کچھ بھی پوسٹ کردیں، اُن کی وہاں آمد ضرور ہوتی ہے۔ اُن میں کچھ آپ سے بہت مرعوب ہوتے ہیں، کچھ آپ سے اپنائیت کا اظہار کرتے ہیں، کچھ بس روایت نبھاتے ہیں، جب کہ کچھ 'اَدلے بدلے' کے اصول کے تحت یہ 'کارروائی' فرما رہے ہوتے ہیں، کیوں کہ آپ نے ان کی پوسٹ جو 'لائک' کی ہوئی ہوتی ہے۔ اسی طرح کوئی تبصرہ اور شیئر بھی اسی اصول کے تحت آپ کے تبصرے کا 'بدلہ' ہو سکتا ہے۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم خود بھی بہت سی اچھی پوسٹوں سے صرف اس بنا پر گریز کرتے ہیں کہ ہم کیوں اِن کی پوسٹ پر اپنی رائے دیں، آخر انہوں نے کبھی ہماری کسی پوسٹ کو رونق بخشی، کبھی لائک، شیئر یا تبصرہ کیا۔۔۔؟ اگر نہیں، تو پھر چاہے کچھ بھی ہو جائے، ہم ایسے لوگوں کی پوسٹ سے کھنچے کھنچے ہی رہتے ہیں۔

کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ اچھی پوسٹ کرنے والا ہم سے بہت 'چھوٹا' آدمی ہوتا ہے، اور اس پر توجہ دینا ہماری شان کے خلاف ہوتا ہے، کہ اب ہم کوئی اتنے گرے پڑے ہو گئے ہیں کہ جو ایسے 'معمولی' لوگوں کی پوسٹ پر جائیں! صرف ہم ہی نہیں بہت سے دوسرے بھی دانستہ ہمارے لیے یہی طرزعمل اختیار کیے ہوئے ہوتے ہیں اور یوں ہماری عملی زندگی کی منافقت اور تضادات سماجی ذرایع اِبلاغ (سوشل میڈیا) پر بھی عیاں، بل کہ عُریاں ہوتے چلے جاتے ہیں، جو کہ ایک افسوس نا ک امر ہے۔

اگر آپ واقعی سماجی ذرایع اِبلاغ کا کارآمد استعمال چاہتے ہیں، تو کم سے کم اپنی جانب سے ایسے رویوں کو ترک کردیں، اَدلے بدلے کے تبصرے یا اپنے بلند عہدے کی بنا پر کسی پوسٹ سے گریز، شاید آپ کو چھوٹا تو کرے، مگر بڑا کبھی نہیں بننے دے گا۔ اس لیے فیس بک پر جو بھی چیز بھلی لگتی ہے، اسے سراہنے میں پس وپیش نہ کریں، کسی بات سے اختلاف کرنا ہے، شائستگی سے اس کا اظہار کردیں۔ یہی تو سوشل میڈیا کا اصل حسن ہے۔ امید ہے یہ تحریر پڑھنے کے بعد اب آپ آزادی سے سوشل میڈیا سے استفادہ کریں گے اور کبھی اس سوچ میں نہیں پڑیں گے کہ 'میں لائک کروں کہ نہ کروں!'

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں