جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے

جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے


Ayaz Khan February 13, 2017
[email protected]

جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے ۔ یہ محاورہ شاید صدیوں پرانا ہے مگر دورحاضر میں اس پر جس طرح سے عمل کیا جاتا ہے ایسا ماضی میں کبھی نہیں ہوا۔ مسابقت کے اس دور میں پراڈکٹس بیچنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ ابلاغ کے ذرایع بڑھ چکے ہیں اس لیے کوشش کی جاتی ہے کہ ہر ذریعہ استعمال کرتے ہوئے اپنا پیغام صارف تک پہنچایا جائے۔

اس کمپنی کا مال زیادہ بکتا ہے جو زیادہ اچھا اشتہار بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ اس ٹرینڈ یا رحجان سے جہاں مختلف پراڈکٹس بنانے والی کمپنیاں متاثر ہوئیں وہیں سیاسی جماعتوں، حتیٰ کہ حکومتوں نے بھی اپنا سودا بیچنے کے لیے پراپیگنڈا مشینری کا زیادہ سے زیادہ استعمال شروع کر دیا۔

نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بنے تو انھوں نے وزیراعظم ہاؤس کا نام تبدیل کر کے اسے وزیراعظم آفس کا نام دے دیا۔ شروع میں اس فیصلے کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی مگر جیسے ہی ایک آفس کے اندر ایک اور آفس متحرک ہوا تو لوگوں کو لگ پتہ گیا۔ اس آفس میں ایک میڈیا سیل کا قیام عمل میں لایا گیا۔

حکومت کی نیک نامی اور مخالفین کے الزامات کا جواب دینے کاسارا اہتمام یہیںسے ہونے لگا۔ کبھی سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے نوجوانوں کا قبضہ ہوتا تھا مگر اس میڈیا سیل نے کافی عرصے سے ان کو برابر کی ٹکر دینے کا آغاز کر دیا ہے۔ نواز شریف کی صحت کا معاملہ ہو یا عمران خان پر طنز مقصود ہو تو ٹویٹس یہیں سے آتے ہیں۔

وزیراعظم آفس کا یہ میڈیا سیل انتہائی متحرک ہے۔ مخالفین، خاص طور پر تحریک انصاف کو، جواب دینے کے لیے فور ی طور پر کسی نہ کسی کی ڈیوٹی لگائی جاتی ہے۔ جس کی ڈیوٹی لگتی ہے وہ حساب برابر ہی نہیں کرتا بلکہ بات کو دو چار ہاتھ آگے بڑھا دیتا ہے۔ مخالفین سوچتے رہ جاتے ہیں اور یہ اپنا کام کر کے آرام سے نکل جاتے ہیں۔

میڈیا کے حوالے سے پوری حکومتی پالیسی اسی میڈیا سیل میں مرتب ہوتی ہے۔ کس ٹاک شو میں (ن) لیگ کے کس نمایندے نے شرکت کرنی ہے اور کیا موقف اختیار کرنا ہے اس کا فیصلہ اور اہتمام یہیں سے کیا جاتا ہے۔ ہدایات کا سلسلہ ٹاک شوز کے درمیان بھی جاری رہتا ہے۔ یعنی (ن) لیگ کا سپاہی جب مقابلے کے لیے میدان میں اترتا ہے تو ہتھیاروں سے پوری طرح لیس ہوتا ہے اور جب محسوس ہو اس کے ہتھیار کم پڑ رہے ہیں تو اسے نئی کمک ساتھ ساتھ پہنچائی جاتی ہے۔

روزانہ کی بنیاد پر منصوبہ بندی اجلاس کا حصہ بننے والے طارق فضل چوہدری، محمد زبیر (گورنر سندھ)، ماروی میمن، اور مصدق ملک اپنی وفاؤں کا صلہ پا چکے ہیں۔ حکومت کا مقدمہ پوری شدت سے لڑنے والے طلال چوہدری اور دانیال عزیز ابھی تک حکومت کی نظر کرم سے کیوں محروم ہیں اس کی سمجھ نہیں آ سکی۔ حکومت شاید ان کو بھی اس نظر سے دیکھ رہی ہے جس کا شکار وزارت اطلاعات کے سینئر افسران ہیں۔

چند روز قبل وزیراعظم کی صدارت میں تقرریوں اور ترقیوں کے حوالے سے اعلیٰ اختیاراتی خصوصی بورڈ کا اجلاس ہوا جس میں 20 کے قریب گریڈ21 کے افسروں کو گریڈ 22 میں ترقی دی گئی۔ ترقی پانے والوں میں ڈی ایم جی گروپ کے 8، سیکریٹریٹ گروپ کے 3، کسٹمز 2، ان لینڈ ریونیو سروس 4، پولیس سروس 1، آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس 2 اور فارن سروس کا ایک افسر شامل ہے۔ حسب توقع ترقی حاصل کرنے والے افسروں کی اکثریت کا تعلق وزیراعظم کے اپنے صوبے پنجاب سے ہے۔

پروموشن بورڈ نے انفارمیشن گروپ کے افسروں کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جو حکومت ابھی تک دانیال اور طلال کے ساتھ کر رہی ہے۔ بورڈ کے اجلاس سے چند دن پہلے ایڈیشن سیکریٹری اطلاعات صبا محسن کو ریڈیو پاکستان میں ڈائریکٹر جنرل تعینات کر دیا گیا۔ بورڈ کا اجلاس ہوا تو وزارت اطلاعات اپنے سربراہ یعنی سیکریٹری سے محروم تھی اس لیے کسی افسر کی ترقی کا سوال ہی ختم ہو گیا۔

پرویز رشید کے دور وزارت میں گریڈ 21 کے سینئر ترین افسر کو ترقی دے کر سیکریٹری اطلاعات بنا دیا جاتا تھا جیسا کہ صبا محسن کے کیس میں ہوا۔ انفارمیشن گروپ میں سینئر ترین افسرراؤ تحسین ہیں۔ ان کے بعد سنیارٹی میں شیراز لطیف اور شفقت جلیل کا نمبر آتا ہے۔ راؤ تحسین کے خلاف سیکیورٹی لیکس کے حوالے سے خبریں چلوائی گئیں۔ ان خبروں کے بعد یہ جواز موجود تھا کہ انھیں ترقی دینے سے فوج ناراض ہو سکتی تھی۔

شیراز لطیف شاید مطلوبہ معیار پر پورے نہیں اترتے اور شفقت جلیل حفظ ما تقدم کا خیال رکھنے کے قائل نہیں ہیں۔ وہ جو ٹھیک سمجھتے ہیں کہہ دیتے ہیں۔ فی زمانہ یہ طرز عمل قابل قبول نہیں چونکہ انفارمیشن گروپ کے کسی افسر کی ترقی نہیں ملی اس لیے پی اے ایس ڈاکٹر عامر احمد ایڈیشنل سیکریٹری اطلاعات لگانے کا کہا گیا۔

معلوم ہوا ہے کہ ڈاکٹر عامر سے یہ کہا گیا تھا کہ وہ سیکریٹری انچارج ہوں گے مگر انھیں ایڈیشنل سیکریٹری بنایا جا رہا ہے اس لیے وہ وزارت جانے کے بجائے لاہور چلے گئے ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ جوائن کر لیں مگر تادم تحریر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔

انفارمیشن گروپ اور سی بی آر کے افسران میں مایوسی اور ناراضی پائی جاتی ہے کہ ان کی ترقیوں کی رفتار دوسرے گروپس کے مقابلے میں سست روی کا شکار ہے اس سے افسران کی کارکردگی متاثر ہو سکتی۔ حکومت کے لیے یہ دونوں ادارے انتہائی اہم ہیں اگر ان کو نظر انداز کر دیا گیا تو حکومتی کارکردگی متاثر تو ہو گی۔ سارے معاملات ایک جگہ سے نہیں چلائے جا سکتے عملدرآمد تو ان اداروں نے ہی کروانا ہے۔

انفارمیشن گروپ کے افسروں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس سے لگتا ہے کہ پالیسی میکرز پر عملدرآمد کرانے والوں کو سزا دے رہے ہیں۔ سب سے زیادہ ترقیاں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز کے افسروں کی ہوئیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اس وقت عدالتوں میں جو کیسز چل رہے ہیں میں سے اکثریت ان منصوبوں کے حوالے سے کیسز کی ہے جو اسی گروپ کے افسران کی زیر نگرانی مکمل ہو رہے ہیں۔ ان کا کام شاید زیادہ دکھتا ہے اس لیے بکتا بھی زیادہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں