’’نان پٹھان‘‘ کی کہانی
پانچ سال انھوں نے خدمات انجام دیں اور ان کی کوشش رہی کہ کسی ’’نان پٹھان‘‘ پر کوئی حرف نہ آئے
MULTAN:
گذشتہ کالم جو پشاور کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے متعلق لکھا گیا تھا ان دلوں کی آواز تھا جو اس ہوائی اڈے سے محنت مزدوری کے لیے غیر ممالک کا رخ کرتے ہیں اور پھر اپنی دن رات کی کمائی وطن عزیز بھیج کر اس کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔
اس صوبے سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد دنیا بھر میں مقیم ہیں ایک بڑی تعداد خلیجی ممالک میں ہے اور ہر روز ہزاروں مسافر اپنے پیاروں سے ملنے کے لیے پشاور ائیر پورٹ استعمال کرتے ہیں۔بہت سے قارئین نے کالم کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا اور میری توجہ ائیر پورٹ کے اندر کی صورت حال کی جانب مبذول کروائی، دوحہ سے ابراہیم خان نے لکھا کہ رش تو اپنی جگہ وہ تمام تر مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے جب ڈیپارچر لاونج میں پہنچے تو انھیں حیرت ہوئی کہ چائے کا ڈسپوزایبل کپ ڈیڑھ سو روپے میں ملا،اسی طرح واش رومز کا برا حال تھا اور خواتین کے بیٹھنے کے لیے جگہ بھی مخصوص نہ تھی ایک اودھم مچا ہوا تھا، انتظامیہ کو قیمتوں پر نظر رکھنے اور واش رومز کی حالت بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے لیکن وہ کوئی ایسا شخص تلاش نہ کر سکے جس تک اپنی شکایت پہنچاتے۔
میڈرڈ سے محمد وقار نے لکھا کہ وہ پشاور پہنچنے کے بعد بہت مایوس ہوئے ۔پشاور ائیرپورٹ کی حالت ان کے وہم و گماں میں بھی نہ تھی، انھیں دو گھنٹے تک انتظار کرنا پڑِا اور پھر امیگریشن کے بعد ائیر پورٹ سے باہر نکلتے ہوئے مزید دو گھنٹے لگے اور پھر جس طرح رکشہ اور ٹیکسی والوں کی بڑی تعداد نے انھیں گھیر لیا وہ ناقابل بیان ہے، ائیر پورٹ پر ان کی گاڑی کے لیے توجگہ نہ تھی لیکن ٹیکسی گاڑیاں ائیر پورٹ کے اندر بھری پڑی تھیں اس جانب بھی انتظامیہ کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ریاض سے محمد شہباز نے لکھا ہے کہ اگر ہوائی اڈے میں توسیع کی جا رہی ہے تو کیا اس امر کا ادراک نہیں کیا جا رہا کہ مسافروںکا تو خیال رکھا جائے اور سب سے اہم بات یہ کہ ایک ہی وقت اگر تین جہاز لینڈ کر رہے ہیں تو ان کے اوقات پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے، اگر ایک ایک گھنٹے کے فرق سے بھی جہاز لینڈٖ کرے تو کم از کم مسافروں کو اذیت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
یہ تجویز خاصی معقول دکھائی دیتی ہے کہ خاص طور پر صبح کے اوقات میں اگر تین پروازیں بیک وقت لینڈ کرتی ہیں اور انھی تین پروازوں کو پھر اپنی منزل مقصود پر بھی روانہ ہونا پڑتا ہے تو بیک وقت بارہ سو مسافروں کو امیگریشن، بورڈنگ کارڈ کے حصول، کسٹمز، اے این ایف وغیرہ کے جھنجھٹ سے گذرنا محال ہو جاتا ہے تو کم از کم اس معاملہ کو ذرا سی کوشش سے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی کالم کے حوالے سے بڑے دلچسپ تبصرے ہوئے، سینیٹر محسن عزیز کو ائیر پورٹ کا مسئلہ سینیٹ میں اجاگر کرنے پر خراج تحسین پیش کیا گیا۔
ادھر چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے چار رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے جسے پشاور ائیر پورٹ کا دورہ کرنے کے بعد اپنی رپورٹ ایوان بالا میں پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔سینیٹ کمیٹی جو دیکھے گی وہ رپورٹ کرے گی لیکن سچ یہ ہے کہ پشاور سمیت خیبر پختون خوا کے لاکھوں مسافر اپنے ہوائی اڈے کی حالت پر ماتم کناں وزیر اعظم نواز شریف کی توجہ کے منتظر ہیں کہ اربوں کی موٹرز ویز بنانے کے ساتھ ساتھ پشاور کے ہوائی اڈے پر بھی ان کی نظر پڑ جائے تو شاید اس ہوائی اڈے کی قسمت بھی سنور جائے۔بہت سے کمنٹس اور بھی ہیں لیکن کالم طویل ہو جائے گا۔
ایک طرف مسئلے مسائل ہیں تو دوسری جانب سوشل میڈیا پر ایک براہ راست تقریر نے مجھے اپنی جانب متوجہ کر لیا اور پھر تقریر کے اختتام تک مقرر کے خوبصورت الفاظ کی گرفت میں رہا۔مقرر پاکستان کے جانے مانے بینکار بلال مصطفیٰ صدیقی تھے وہ کسی تقریب میں اپنی زندگی کا احوال سنا رہے تھے اور میں بغور ان کے چہرے پر نظریں جمائے سننے میں مشغول رہا ان کا یہ جملہ '' ایک نان پٹھان کے باوجود انھوں نے پٹھانوں کے صوبے میں پٹھانوں کے لیے جو کام کیا اس پر انھیں فخر رہے گا'' پہلے تو مجھے اچھا نہیں لگا لیکن جب انھوں نے اپنی ان خدمات کا تذکرہ کیا جو انھوں نے ایک بینکار کی حیثیت سے پشاور سمیت صوبے کے مختلف مقامات پر انجام دیں تو بلاشبہ وہ ایک عظیم شخصیت کے روپ میں دکھائی دیے۔
بلال مصطفیٰ صدیقی اپنی کامیابیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرما رہے تھے ان کا تعلق ایک لوئر مڈل گھرانے سے تھا ان کے والد اسکول ٹیچر تھے۔ہندوستان سے نقل مکانی کر کے وہ راول پنڈی پہنچے اور یہاں بھی ایک اسکول کا انتخاب کیا تاکہ نئی نسل کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر سکیں۔ایک محنتی باپ کے بیٹے نے بھی بہت محنت کی ،گریجویشن کی پھر معاشیات میں ماسٹرز کرنے کے بعد 1968 میں ایک نجی بینک جوائن کیا ، پانچ سال بعد دوسرا بینک جوائن کر لیا 34 برس تک مینجر،ریجنل مینجر، ریجنل چیف، وائس پریذیڈنٹ، سینئر وائس پریذیڈنٹ، ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ اور سینئر ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ کے مختلف عہدوں پر فائز رہے۔
ملازمت کا زیادہ تر عرصہ خیبر پختون خوا میں گزارا، جب ریٹائر ہوئے تو بینک آف خیبرکے ایم ڈی کے عہدے کا اشتہار اخبار میں دیکھنے کے بعد درخواست دی ،کوئی سفارش نہ تھی اور '' نان پٹھان'' بھی تھے، انھیں انٹرویو کے لیے بلایا گیا 35 امیدواروں میں وہ سب سے آخری تھے، جب ہال میں داخل ہوئے تو اتنی بڑی تعداد میں قابل اور تجربہ کار امیدواروں کو دیکھ کر سوچا کہ آج تو دال گلنے والی نہیں، صوبائی حکومت کا بینک ہے وہ اپنے ہی صوبے کے کسی امیدوار کو ترجیح دیں گے۔
سلیکشن بورڈ کی سربراہی چیف سیکریٹری کر رہے تھے انھوں نے انٹرویو دیا اور سلیکشن بورڈ نے غیر رسمی گفت گو میں انھیں بتادیا کہ آپ وہ واحد امیدوار ہیں جن کا نہ کوئی ریفرنس ہے اور نہ کوئی سفارش انھیں ملی ہے اور وہ انھیں ہی بینک کا ایم ڈی منتخب کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
ایم ڈی بننے کے بعد انھوں نے اس بینک کو جس کی 28 برانچیں تھیں حقیقی معنوں میں صوبے کا بینک بنا دیا ، ملازمین کو فوری طور پر ترقیاں دیں، سہولتیں دیں، تنخواہیں جو تین سال سے نہیں بڑھ رہی تھیں بڑھا دیں،برانچوں کی تعداد 100 تک پہنچا دی، بینک کا خسارہ صرف ایک سال میں نہ صرف ختم کر دیا بلکہ ایک سال کا بعد ازٹیکس منافع ایک ارب پانچ کروڑ روپے ہو گیا۔
پانچ سال انھوں نے خدمات انجام دیں اور ان کی کوشش رہی کہ کسی ''نان پٹھان'' پر کوئی حرف نہ آئے۔ یقینی طور پر انھوں نے ایک نان پٹھان کی حیثیت سے خود کو محب وطن پاکستانی کہلایا۔ بلال مصطفٰی کی یہ کہانی بلاشبہ '' پختونوں'' کے لیے سوالیہ نشان رہے گی اور اگر آپ کے ذہن میں اس کہانی کو پشاور کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے منسلک کرنے کا سوال اٹھے تو جواب اسی کالم میں موجود ہے۔