ہم سب کی بانو آپا
اشفاق احمد سے شناسائی ہم سب کی تھی
FAISALABAD:
چار فروری 2017 کو وہ ہمیشہ کے لیے چلی گئیں۔ بانو قدسیہ اوراشفاق احمد ایک دور، ایک عہد، سکھانے کے ادارے، سمجھانے کے طریقے، شفقت کا احساس بہت کچھ تھا، جو ان دونوں ہستیوں سے منسوب تھا۔ اس مادہ پرست دور میں اس احساس کا فروغ بڑھتا جارہا ہے کہ یہاں کسی کو کسی کا خیال نہیں، سب ایک دوسرے کو لوٹ رہے ہیں، کھسوٹ رہے ہیں۔ الفاظ کے تیر سے دلوں کو قتل کررہے ہیں۔ وہیں ایسے پیارے لوگ بھی ہیں جو محبتیں کرنے اور بانٹنے کے طریقے سکھاتے ہیں۔
اشفاق احمد سے شناسائی ہم سب کی تھی، زاویہ ان کا ایک ایسا خوب صورت پروگرام تھا جس میں عام سی باتوں میں وہ بڑے کام کی باتیں کر جاتے تھے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ وہ پروگرام جس کا نام سنتے آئے تھے، کب آیا اور کب گیا، لیکن اب فیس بک پر ان کے اسی پروگراموں کی جھلکیاں ان کی خوبصورت بامعنی باتوں کی پوسٹ پڑھ کر بہت سی الجھنیں، گرہیں کھل جاتی ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ میں اشفاق احمد کے بابا جی سے نہیں بلکہ اشفاق بابا سے خاصی متاثر ہوں۔ دونوں میاں بیوی بڑے صاف ستھرے، پیارے لوگ تھے۔ بانو آپا کی زندگی کا آخری انٹرویو اتفاقاً دیکھا تو اس میں بھی بڑے پتے کی باتیں بتلائیں مرحومہ نے۔ یہ الگ بات ہے کہ سیکھنے والے سیکھنا چاہیں تو بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں ورنہ سکھانے والے لاکھ سر پھوڑ لیں اور سیکھنے کی طلب ہی نہ ہو تو سب بے سود۔
فیروز آباد میں اٹھائیس نومبر 1928 کو پیدا ہونے والی بانو قدسیہ کے ارد گرد ایسا خوب صورت ماحول تھا کہ جس نے اس دور میں بانو آپا کو کنیئرڈ کالج تک پہنچایا۔ آپ نے وہیں سے گریجویشن مکمل کی، اس کے بعد انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہورسے اردو میں ماسٹرز کیا۔ آپا کے انگریزی سے اردو کی جانب سفر کرنے کو اشفاق احمد مرحوم نے بڑے دلچسپ انداز میں بیان کیا تھا۔
''جب انھوں نے کنیئرڈ کالج سے گریجویشن کیا تو انھیں اس وقت اردو نہیں آتی تھی، انھیں پتا نہیں کیا خیال آیا کہ اردو میں ایم اے کرنا چاہیے تو یہ داخلہ لینے گورنمنٹ کالج آئیں، اس وقت اس ڈپارٹمنٹ میں تین چار لڑکیاں تھیں، بہرحال میں ان لوگوں سے ذرا سینئر تھا لیکن بعد میں ان کی اردو اتنی اچھی ہوگئی کہ انھوں نے ہم سب کو پیچھے چھوڑدیا''۔
بانو آپا مرحومہ نے پہلے پہل انگریزی میں لکھنا شروع کیا تھا، بقول خود ان کے (آخری انٹرویو میں) میں نے انگریزی میں لکھنا شروع کیا تو مجھے احساس ہوا کہ یہ میرے لیے مناسب نہیں، کیوںکہ میری انگریزی اتنی اچھی نہیں تھی، اسی لیے پھر میں نے اردو میں لکھنا شروع کردیا۔
انھوں نے انگریزی ادب کو پڑھا ضرور تھا لیکن پسند نہیں کیا تھا، کیونکہ ان کے خیال میں ان کی روایات اور ادب آداب میں وہ بات نہیں جو ہمارے یہاں ہے۔ ہمارے یہاں بچپن سے ہی سکھایا جاتا ہے کہ بڑوں سے کس طرح تمیز سے بات کرنی چاہیے اور کس طرح برتاؤ کرنا چاہیے، جب کہ مغرب میں ایسا نہیں ہے، میری پیاری آپا کو لوگوں کو متاثر کرنے کا شوق نہ تھا، ورنہ یہاں تو لوگ دو انگریزی کی کتابیں پڑھ کر فلسفہ بگھارنے لگتے ہیں، لیکن ان کا اعلیٰ ظرف دیکھیے کنیئرڈ جیسی قدیم درسگاہ سے پڑھنے کے باوجود نہایت سادگی سے کہہ گئیں کہ میری انگریزی زیادہ اچھی نہیں تھی۔
لوگ کہتے ہیں کہ اشفاق احمد کے ڈرامے زیادہ سمجھ رکھنے والے لوگوں کی ہی سمجھ میں آتے تھے، جب کہ بانو آپا کے ڈرامے اشفاق بابا کے مقابلے میں نسبتاً سہل ہوتے تھے، ان کا تحریر کردہ ڈرامہ 'امربیل' جس میں داکارہ ریشم اور عابد علی نے نہایت خوبصورت اداکاری کی تھی، حال ہی میں دیکھا اور بہت اچھا لگا، اس کے علاوہ ان کے مشہور ڈراموں میں فٹ پاتھ کی گھاس، چھوٹا شہر بڑے لوگ، آس پاس شامل ہیں۔
''راجا گدھ'' اپنے منفرد نام اور کہانی کے اعتبار سے خاصا مشہور ناول تھا۔ اسی کے نام کے مطابق بانو آپا کا کہنا تھا کہ ایک دن وہ ایسے ہی اپنے گھر کے نزدیک گراؤنڈ میں بیٹھی تھیں (جہاں وہ اکثر بیٹھتی تھیں) کہ اچانک کسی نے پیچھے سے آکر آہستگی سے کہا ''راجا گدھ'' اس آواز پر انھوں نے مڑ کر دیکھا، کوئی نہ تھا، پھر ادھر ادھر دیکھا، کوئی نہ تھا اور یوں راجا گدھ تخلیق میں آئے۔ یہ قدرت کے راز وہی جانے۔
بانو آپا اور اشفاق احمد ایسے خوش نصیب رائٹرز تھے کہ جن میں ان کے چاہنے والے آخری عمر تک چاہتے رہے، یقیناً ایسے پیارے لوگ اسی قابل ہوتے ہیں کہ انھیں چاہا جائے، اس چاہت کے پیچھے غرور، تکبر، بے مروتی نہ تھی۔ میں نے ان دونوں میاں بیوی کے بہت سے پرانے ٹی وی کے پروگراموں میں جھلکیاں دیکھی ہیں۔ دونوں خاصے پرکشش تھے، لیکن ہم نے تو بانو آپا اور اشفاق بابا کو جب بھی ٹی وی پر دیکھا بزرگی کی خوبصورتی میں دیکھا۔ مسکراتے چہرے، خوبصورت باتیں، گویا ان دونوں کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔
بانو آپا کا آخری ناول 2005 میں چھپا۔ بانو آپا کا کہنا تھا کہ میری اور اشفاق صاحب کی کتابیں شروع سے ہی ایک ہی پبلشر کے یہاں سے چھپتی رہیں، ہم نے بہت سے لوگوں کو نہیں پکڑ رکھا تھا۔ اشاعت کے لیے حکومت پاکستان نے 1983 میں بانو قدسیہ کو ستارۂ امتیاز سے نوازا۔ اس کے بعد 2010 میں ہلال امتیاز دیا گیا جب کہ انجمن ترقی اردو کی جانب سے 2012 میں کمال فنی ایوارڈ دیا گیا۔
مجھے یاد ہے جمیل الدین عالی مرحوم انجمن ترقی اردو کے ایڈوائزر تھے، اسی حوالے سے کوئی تقریب تھی، عالی صاحب نے مجھے بھی اس کا دعوت نامہ دیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ تم لکھتی ہو، ادب سے شوق رکھتی ہو تمہارے لیے ایسی تقریبات میں جانا اچھا ہے تو ضرور آنا، اچھے اچھے لوگوں کو سننے کا موقع ملے گا اس سے انسان بہت کچھ سیکھتا ہے۔
عالی جی کا کہنا تھا، پھر عظیم جمال انکل (فوٹو گرافر) نے بھی جانے کی خواہش ظاہر کی، یوں ہمیں بہت سے اچھے لوگوں کو دیکھنے اور سننے کا موقع ملا۔ بانو قدسیہ کو اسی تقریب میں بہت قریب سے دیکھا اور سنا بھی۔ عالی جی نے بہت عزت سے ان کا تعارف کروایا کہ بانو قدسیہ میری بہن ہیں اور ہمیشہ بہن ہی رہیں گی۔ گو اشفاق احمد (اس وقت حیات تھے) سے ہماری ذرا لڑائی رہتی ہے، یہ لڑائی تیر و تلوار والی نہیں ہے (مسکراتے ہوئے) بلکہ ادبی قسم کی ہے لیکن ہم دونوں کے درمیان میری بہن بانو قدسیہ ہیں جو میرے لیے بہت محترم ہیں۔
بانو آپا اور اشفاق صاحب کو خاص طور پر لاہور سے بلوایا گیا تھا۔ بانو آپا نے بھی بڑی محبت سے عالی جی کا ذکر کیا اور کہاکہ ان کا قبیلہ بھی وہی ہے جو عالی بھائی کا ہے۔ (قبیلہ سے مراد سوچ و فکر) بڑے لوگوں کی بڑی باتیں جو ہم جیسے لوگوں کے لیے کتابوں کا روپ دھار لیتی ہیں ایسی کتابیں جنھیں پڑھ کر ہمیں فائدہ ہی پہنچتا ہے، رب العزت سے دعا ہے کہ وہ میری قدسیہ آپا کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ (آمین)