ایک خطے کی تین نسلیں
ہمارے پڑوسی بھارت کے اندر ایک خوف ایسا بیٹھ گیا ہے کہ کسی پاکستانی کے ہاتھ میں غلیل بھی دیکھ کر وہ گھبرا جاتا ہے
ہمارے پڑوسی بھارت کے اندر ایک خوف ایسا بیٹھ گیا ہے کہ کسی پاکستانی کے ہاتھ میں غلیل بھی دیکھ کر وہ گھبرا جاتا ہے بلکہ بعض اوقات تو پاکستان کا نام سن کر بھی وہ مار پیٹ پر اتر آتا ہے جب کہ پاکستان اپنے سے کئی گنا بڑے بھارت کے ساتھ امن سے رہنا چاہتا ہے۔
یہ امن اس کی کمزوری ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں لیکن بھارت پاکستان کی کمزوریوں سے واقف ہونے کے باوجود اسے معاف نہیں کرتا چونکہ وہ اندر سے ایک کمزور قوم کا ملک ہے اس لیے پاکستان کے خلاف دشمنی کے محفوظ طریقے اختیار کرتا رہتا ہے، ان میں سب سے محفوظ اور بوقت ضرورت اس سے انکار کرنے والا ایک طریقہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی ہے۔
ایک ساتھ ملے ہوئے دونوں ملک بڑی آسانی کے ساتھ دوسرے کے خلاف کوئی کارروائی کر لیتے ہیں جس سے پاکستان کے عوام پریشان ہو سکتے ہیں، یوں تو پاکستانی بھارتی فوجوں تک سے بھی پریشان نہیں ہوتے لیکن امن ایک ایسا نازک مسئلہ ہے جو کسی ذرا سی خلاف معمول حرکت سے بھی پیدا ہو جاتا ہے اور بعض اوقات دونوں ملکوں اور عوام کے لیے مشکلات پیدا کر دیتا ہے۔ پاکستان کے خلاف دہشت گردی سے بھارت کے سوا کسی دوسرے ملک کو کچھ نہیں ملتا۔
ہمارا طاقت ور پڑوسی چین ہے جو شروع دن سے ہی ہمارا دوست ہے اور دونوں ملکوں کی تاریخ میں اب تک کوئی ایسا تنازعہ پیدا نہیں ہوا ہے جو کسی تخریب کاری وغیرہ کا سبب بن سکے۔ صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کو بھارت کے خلاف کوئی بدامن تنازعہ پیدا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
پاکستان پہلے ہی اپنے ملک کا ایک حصہ بھارت کی سازشوں سے گنوا چکا ہے اور بھارت سے بہت چھوٹا ملک ہونے کی وجہ سے اس میں مزید کسی نقصان کی گنجائش نہیں ہے اس لیے پاکستان دن رات اس کوشش میں رہتا ہے کہ وہ اپنے طاقت ور پڑوسیوں سے بچ کر وقت گزار لے۔
ان سے چھیڑ چھاڑ کی خواہش کسی پاکستانی کے دل و دماغ میں پیدا ہی نہیں ہوتی بلکہ جیسا کہ عرض کیا ہے پاکستان اگر بچ کر رہ جائے تو بڑی بات ہے اور پاکستان کی یہ ایک بڑی کامیابی ہے اس لیے جب پاکستان کے اندر کوئی دہشت گردی ہوتی ہے اور اس کمزور ملک کے کسی مفاد پر زد پڑتی ہے تو پاکستان اس کے خلاف چیخ و پکار کرتا ہے اور وہ اپنے بڑے پڑوسی سے بچ کر رہنے کی کوشش کرتا ہے اگرچہ یہ پاکستان کی کمزوری نہیں بلکہ اس کی امن پسندی ہے کیونکہ اگر کسی کمزور پر بھی زد پڑتی ہے تو وہ اس کے خلاف جو کچھ کرسکتا ہے ضرور کرتا ہے کیونکہ کسی طاقت ور پڑوسی سے بچ کر رہنا ضروری ہے یا یوں کہیں کہ اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے۔
دونوں ملکوں کا ماضی پرامن اور دوستانہ نہیں رہا ہے، پاکستان کا قیام ہی بھارت کے لیے ایک جارحانہ عمل تھا جو بھارت کے مخالفوں نے سرانجام دیا۔ اس میں جو پڑوسی ملک اور عناصر شریک تھے وہ خفیہ نہیں ہیں اور اب تک ان کی دہشت گردی کسی نہ کسی صورت میں جاری رہتی ہے۔ ایک کمزور پاکستان جو کسی بھی طاقت ور کی دہشت گردی کا شکار ہو سکتا ہے کوشش کرتا ہے کہ وہ بچ کر زندگی گزار لے اور اس کے دست و بازو میں اتنی طاقت ہونی چاہیے کہ وہ اپنے تحفظ کا بندوبست کر سکے اور اپنے پیدائشی دشمن سے بچ سکے۔
پاکستان اور ہندوستان کا پڑوس تاریخ کا ایک نامناسب فیصلہ ہے جو کبھی امن کا سبب نہیں بن سکتا۔ یہاں تو حالت یہ ہے کہ افغانستان بھی اپنے آپ کو ایک فریق سمجھتا ہے اور پاک و ہند میں اپنی مداخلت سے باز نہیں آتا۔ افغانستان اگرچہ پاک دشمنوں کی شہ پر کبھی کوئی احمقانہ حرکت کر جاتا ہے لیکن اسے خوب معلوم ہے کہ اس کی اکثر آبادی پاکستان پر چلتی ہے اور وہ مزدوری کے نام پر زیادہ وقت پاکستان میں گزارتی ہے لیکن بھارت پاکستان اور افغانستان تینوں ملک ایک ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور ان کے درمیان اگر امن نہ ہو تو یہ فرض کرنا تو دور کی بات ہے یہ زندہ بھی نہیں رہ سکتے۔
ان تینوں کے مفادات مشترک نہیں ہیں بلکہ بعض اوقات تو ان مفادات میں کشمکش کی کیفیت بھی پیدا ہو جاتی ہے جو ایک خطرناک صورت اختیار کر سکتی ہے۔ ان دنوں پاکستان کے اندر تخریب کاری کا سلسلہ شروع ہے یہ کہنا تو مشکل ہے کہ اس میں بھارت کا کتنا حصہ ہے اور کس حد تک افغانستان کا۔ پاکستان اور بھارت دونوں کا محتاج یہ ملک خود بھی ایک فریق بننے کی کوشش کر رہا ہے جو ممکن نہیں ہے لیکن اس کی یہ کوشش اس خطے میں پرابلم پیدا کرتی رہتی ہے۔
افغانستان دونوں ملکوںکا پڑوسی ہی نہیں ان کا شریک زندگی بھی ہے اور پاکستانی حد تک افغانستان اس کی آبادی کا ایک حصہ ہے، آبادی کا حصہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ افغانستان کی محتاج اور مزدور پیشہ آبادی کا زیادہ تر وقت پاکستان میں گزرتا ہے وہ یہاں مزدوری کرتے ہیں اور کسی نہ کسی صورت میں دو وقت کی روٹی بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ افغانستان کے حکمرانوں نے ہمیشہ بھارت اور پاکستان کا سہارا لیا ہے اور ان کی معیشت ان دو ملکوں کے ذریعہ چلتی ہے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے جس پر بحث کی گنجائش نہیں ہے۔
افغانستان کے محنت کش عوام یہاں مزدوری کرتے ہیں اور اکثر صورتوں میں اپنے بال بچوں اور اہل و عیال سمیت یہاں زندگی بسر کرتے ہیں یعنی وہ پاکستان میں قیام کرتے ہیں۔ مسلمان بھائی ہونے کی وجہ سے پاکستانی ان کو قبول کرتے ہیں اور افغان عوام پاکستانیوں کے لیے کوئی مشکل پیدا نہیں کرتے۔ وہ دکھ سکھ میں افغانستان چلے جاتے ہیں اور زندگی کا نارمل وقت پاکستان میں گزارتے ہیں یہاں ان کو مزدوری ہی نہیں روٹی بھی ملتی ہے۔ اس طرح اس خطے میں گویا تین قومیں آباد ہیں۔
بھارتی' پاکستانی اور افغانی، البتہ افغانی یہاں قیام نہیں کرتے، وہ اپنے گاؤں چلے جاتے ہیں اور زیادہ تر گرمیوں کا موسم پاکستان کے گرم علاقوں میں گزارتے ہیں۔ ان قوموں نے آپس میں مختلف ہونے کے باوجود کہ زبان تک بھی مختلف اور کھانے پینے کے آداب بھی جدا جدا ہیں آپس میں مل جل کر رہنے کا ایک طریق کار وضع کر لیا ہے اور ان کی زندگی ایسے ہی بسر ہو رہی ہے۔