اپنی فتح فریق کی شکست

جی ہاں موت بھی زندگی کی حقیقت ہے، جسے انسان بھول چکا ہے


جبار قریشی February 17, 2017
[email protected]

ایک مفکر سے کسی نے سوال کیا کہ بتائیے زندگی کی حقیقت کیا ہے؟ مفکر نے جواب دیا ''جب میں مرجاؤں یعنی میری موت واقع ہوجائے تب میرے کفن میں اپنا منہ ڈال کر یہ سوال مجھ سے پوچھنا تمہیں اپنے اس سوال کا جواب مل جائے گا۔''

جی ہاں یہ بھی زندگی کی حقیقت ہے، جسے انسان بھول چکا ہے۔انسان یہ بھول چکا ہے کہ اسے ایک دن اس دنیا سے چلے جانا ہے اور ایک دن خدا کے روبرو ہوکر اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ اس وقت معاشرے میں خود غرضی، ناانصافی، ظلم واستحصال، بے سکونی، عدم مساوات جیسے سماجی و معاشی اورسیاسی امراض پیدا ہوچکے ہیں جو اسی بھول کا نتیجہ ہیں۔ انسان نے ان خرابیوں کو دورکرنے کے لیے قوانین بنائے اور ان قوانین پرعملدرآمد کرنے کے لیے ادارے وجود میں لائے گئے لیکن قوانین پر عملدرآمد کرنے والے خود ہی برائیوں میں مبتلا ہوگئے۔ پھر ان اداروں کوکنٹرول کرنے کے لیے ادارے وجود میں لائے گئے لیکن اس کا نتیجہ بھی صفر رہا۔

سوال یہ ہے کہ ان خرابیوں کا خاتمہ کس طرح ممکن ہے سماج کو بہتراورمنظم کرنے کے اصول کہاں سے لیے جائیں۔ معاشرے میں موجودہ خرابیوں کوکس طرح خوبیوں میں بدلا جائے۔اس کی ایک ہی صورت ہے کہ معاشرے سے مادہ پرستانہ سوچ کا خاتمہ کیا جائے، اس وقت معاشرے پر مادہ پرستانہ سوچ کا غلبہ ہے۔ مادہ پرستانہ سوچ میں انسان کا ذہن کچھ اس طرح کا بن جاتا ہے کہ انسان اس میں صرف اپنے مفادات کے تحت ہی سوچتا ہے اوراسی سوچ کے تحت زندہ رہتا ہے جس کے نتیجے میں برائیاں اورخرابیاں معاشرے میں جنم لیتی ہیں۔ جب تک معاشرے سے مادہ پرستانہ سوچ کا خاتمہ نہیں کیا جائے گا معاشرہ خرابیوں سے پاک نہیں ہوسکے گا۔

مادہ پرستانہ سوچ کا خاتمہ اس صورت میں ممکن ہے کہ انسان کا اس کے مذہب سے تعلق کو جوڑا جائے اور اسے مضبوط بنایا جائے۔ مذہب انسان کواس کے مقصد حیات سے روشناس کرکے اسے فکری انتشار سے محفوظ رکھتا ہے۔ مذہب ہی وہ واحدکنٹرولنگ فورس ہے جو انسان کے اندرخود احتسابی کا نظام واضح کرتا ہے جس سے انسان برائیوں سے محفوظ ہوجاتا ہے۔اس لیے معاشرتی برائیوں اورخرابیوں کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں اسلامی تعلیمات کو عام کیا جائے۔

معاشرے پر مادیت پرستی کا غلبہ اتنا زیادہ ہے کہ معیشت، سیاست، تہذیب وتمدن غرض زندگی کا ہر شعبہ ہرچیزاس کے تابع ہوکر رہ گئے ہیں۔آدمی اس سے اوپراٹھ کرسوچنے کے لیے تیار نہیں اسے حالات میں دعوت وتبلیغ کا کام ناممکن نظر آتا ہے، لیکن اس دور میں ایک بات خوش آیند ہے۔

موجودہ دور میں سائنسی انداز فکر نے جہاں مادی علوم کے دائروں میں انسان نے اپنی دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہاں ایک خصوصی پہلو مذہب بالخصوص اسلام کے بارے میں واقفیت حاصل کرنے کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔اس طرح انسان کے اس تجسس نے اس کو اسلامی دعوت کا بہترین مخاطب بنادیا ہے۔ ضرورت اس کو مخاطب کرنے اور دعوت دینے کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ دعوت وتبلیغ کا کام کس طرح انجام دیا جانا چاہیے۔

اس ضمن میں ہم اپنے آخری نبی کریمؐ کی حیات طیبہ اورسیرت مبارکہ کی روشنی میں دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ دعوت وتبلیغ کا کام حکمت کے ساتھ انجام دیا گیا۔ بدقسمتی سے ہم نے حکمت کے اصول کو چھوڑکر بحث ومباحثہ اور مناظرے کے اصول کو اپنالیا ہے۔ اس طریقہ کار میں فریق ثانی کے لیے داعی کا دل خیرخواہی کے جذبے سے عاری ہوتا ہے۔ اس میں دعوت سے زیادہ اپنی فتح اورفریق ثانی کی شکست سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔ ہمیں اس طریقے سے گریزکرتے ہوئے داعی کو فریق ثانی کے لیے خیرخواہی کے جذبات رکھتے ہوئے مکالمہ (تبادلہ خیال) کے ذریعے دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دینا چاہیے۔ موجودہ دور میں یہ طریقہ زیادہ موثر ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ دعوت وتبلیغ کیا کی جائے یعنی دعوت وتبلیغ کس چیزکی دی جائے؟ میرا علم بہت محدود ہے۔اس لیے اس پر اپنی علمی رائے دینے سے قاصر ہوں۔اس پر بہتر علمی رائے کا اظہار اہل علم ودانش بالخصوص علما زیادہ بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں۔اس ضمن میں ایک بات احتراماً ضرورعرض کروں گا۔ یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ دعوت کے میدان میں ایک طرف دین کا سیاسی تصور رکھنے والی جماعتیں ہیں جن کی سرگرمیوں کا محورمسائل عالم اسلام ہے۔

دوسری طرف تبلیغی جماعتیں ہیں جن کا زیادہ تر زورفضائل اسلام پر ہے۔ میری ناقص رائے میں اصل مسئلہ دینی سیاسی جماعتوں اور تبلیغی جماعتوں کے باہمی اختلاف کا نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ ان کی جانب سے متعین کی گئی ترجیحات کا ہے۔ موجودہ دور میں ہمیں معاشرے میں جوخرابیاں اوربرائیاں نظر آتی ہیں ان کو مدنظر رکھ کر اسلام کی تعلیمات کو عام کرنا ہوگا۔اسلام نے انسان دوستی، رواداری، اخلاص محبت، بھائی چارگی کے جو رہنما اصول عطا کیے ہیں۔ عوام الناس کے درمیان انھیں پیش کرنا ہوگا اور انھیں عمل کے لیے آمادہ کرنا ہوگا۔اس صورت میں ہم دنیا اورآخرت میں کامیابی سے ہمکنارہوسکتے ہیں ۔

نوٹ: ای میل ایڈریس غلط درج ہونے کی وجہ سے مجھے پڑھنے والوں کی ای میلز موصول نہ ہوسکی۔ پڑھنے والوں سے گزارش ہے، درست ای میل ایڈریس نوٹ فرمالیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں