ہم کیا چاہتے ہیں
فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کی حکومتی کوششوں میں آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے ہر ممکن معاونت فراہم کی
فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کی حکومتی کوششوں میں آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے ہر ممکن معاونت فراہم کی۔ فوج کی آئینی حدود کے ادراک کے ساتھ بارہا ان کی جانب سے یہ بات واضح کی جاچکی کہ حکومتی معاملات چلانا فوج کا کام نہیں، وہ صرف قومی دفاع کے لیے جاری کاوشوں میں اپنا کردار ادا کررہی ہے۔ وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ سول اور فوجی قیادت کے مابین مسابقت کا کوئی بھی تاثر، ہرگز ملکی مفاد میں نہیں۔
عزیز دوست سلمان مسعود13فروری کو شایع ہونے والے اپنے مضمون "Coordination, not competition, with civilians" میں لکھتے ہیں''سویلین قیاد ت مطمئن ہوسکتی ہے کہ اب فوج کی جانب سے، سیاسی نظام کو غیر مستحکم کرنے کے لیے کی جانے والی کسی کوشش کی پشت پناہی نہیں کی جائے گی، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کسی واہمے پر مبنی احساس تحفظ اور بے پروائی کا شکار ہو کر غفلت کی نیند سو رہیں۔'' فوج یا تو اس وقت مداخلت کرتی ہے جب اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہے یا خود حکمران اپنے معاملات سنبھالنے میں ناکام ہوجائیں اور بدعنوانی ناقابل برداشت ہوچکی ہو۔ ایسا اقدام محدود مدت کے لیے ہی مطلوب ہوتا ہے، لیکن طویل فوجی ادوار کو نہ ہی کوئی جواز فراہم کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی یہ ملکی مفاد میں ہیں۔ داخلی سلامتی کے امور میں فوج کے بڑھتے ہوئے کردار کی وجہ سے، اسے سیاسی معاملات میں بھی ملوث ہونا پڑا، جس کے نتیجے میں سول ملٹری تعلقات میں پائی جانے والی خلیج میں اضافہ ہوا۔
اپنے پیشرو کی طرح جنرل باجوہ بھی پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں، جس سے ان کا قد مزید بلند ہوا ہے۔ دوراندیشی کے ساتھ وہ سول معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں بلکہ جمہوری نظام کے استحکام کے لیے اشتراک عمل اور معاونت ان کا لائحہ عمل ہے۔ سول حکومت کے اپنے ہی مسائل قوم اور قدم جماتی جمہوریت کے لیے مشکلات پیدا کررہے ہیں۔ جب بھی جمہوری قیادت برسراقتدار آئی کشیدگی کا آغاز کبھی فوج کی جانب سے نہیں ہوا۔ دوسری جانب بدعنوانی کا مرض قومی سلامتی کے لیے خطرہ ثابت ہوتا ہے۔
کرپشن، منظم جرائم اور دہشتگردی کے گٹھ جوڑ کی بدترین مثال ہم کراچی میں دیکھ چکے۔ یہی گٹھ جوڑ سول اور فوج کے تعلقات میں دراڑیں ڈالتا ہے۔ چاہے کتنے ہی دہشتگردوں کا خاتمہ کردیا جائے، جبتک انھیں معاشی معاونت کرنے والوں اور سہولت کاروں کا گھیرا تنگ نہیں کیا جاتا، انجام کو پہنچنے والے فسادیوں کے متبادل میدان میں اترتے رہیں گے۔
سیاسی قیادت کے مشیروں میں اکثر بدنیت ہیں (ان میں غالب تعداد چڑھتے سورج کے پجاری بیورو کریٹس کی ہے)۔ یہ فوجی و سیاسی حکمرانوں سے اپنی قربت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے شکوک کے بیج بوتے اور غیر ضروری خدشات کو ہوا دیتے ہیں۔ فوج اور حکومت کے مابین جب بھی تعلقات میں ہم آہنگی پیدا ہونے لگتی ہے، ان کا ہدف ماحول میں تلخی پیدا کرنا ہوتا ہے۔ یہ ''ابن الوقت'' عناصر ایسی افواہیں پھیلانے اور واقعات کو ایسا رنگ دینے کے لیے اوچھے حربے استعمال کرنے میں مصروف رہتے ہیں ، جس سے یہ تاثر مضبوط ہو کہ فوج حکومت کے مقابل آچکی ہے۔
ان میں سے اکثر کا تعلق حکومتی میڈیا مشینری سے ہے، یہ میڈیا پروفیشنلز نہیں بلکہ ان کا تعلق سیاسی حلقوں سے ہے۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے یہ وفادار چاپلوسی اور خوشامد میں طاق ہوتے ہیں اور اپنے اسی فن کے بل بوتے پر سول ہو یا فوجی، ہر حکومت میں ناگزیر سمجھے جانے لگتے ہیں۔ وزیراعظم متوازن اور پختہ رائے رکھتے ہیں، اسحاق ڈار اور چوہدری نثار علی خان جیسے ان کے پختہ کار قریبی سیاسی مشیروں کو بھی حالات کا اداراک ہے، لیکن مفاد پرست عناصر کا ایک ٹولہ مسلسل اخباروں، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا میں اپنے کارندوں کے ذریعے فوج پر ملامت اور الزام تراشی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ ماحول میں ''خود ساختہ'' کشیدگی پیدا کرنے میں کام یاب ہورہے ہیں، جس کی وجہ سے حالات کسی بھی وقت قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔
عام طور پر فوج اپنے خلاف ہونے والے پراپیگنڈے کو اس وقت تک برداشت کرتی ہے، جب تک کوئی سرخ لکیر عبور نہ کرے۔ جب ادارے کو بدنام کرنے کی کسی مہم کے حوالے سے ہرسطح کی فوجی قیادت میں چہ میگوئیاں جنم لینے لگیں تو سپہ سالار کے پاس، اپنی پوری نیک نیتی کے باوجود، اس خفگی کا ازالہ کرنے کے لیے کیا راستہ باقی رہتا ہے؟ گزشتہ برس اکتوبر میں جب نیوز لیک کا معاملہ سامنے آیا تو فوج اور سول قیادت کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی۔ راحیل شریف رخصت ہوئے اور یہ معاملہ اب بھی حل طلب ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کو تو قربانی کا بکرا بننا ہی تھا لیکن باقی کرداروں کا کیا ہوا۔انھی صفحات پر اپنے کالم ''عالمی اقتصادی فورم اور ہماری ترجیحات'' میں لکھ چکا ہوں کہ ''مسلم لیگ نون کی صفوں میں فوج کے خلاف سوچا سمجھا پروپیگنڈا کرنے والے عناصر موجود ہیں۔ اس ٹولے کی کارستانیاں، بدقسمتی سے، فوج اور حکومت کے مابین غلط فہمی بڑھانے کا باعث بن رہی ہیں، جن کے نتیجے میں مجموعی فضا خراب ہورہی ہے۔
جمہوریت کے استحکام کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن من گھڑت کہانیاں پھیلانے والوں ' پاک فوج کے خلاف مودی کے ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے حقائق مسخ کرنے والوں (اور انھیں مسلسل تحفظ دینے کے لیے کوشاں عناصر) کی جوابدہی لازم ہوچکی ہے۔ ہمارے سپاہیوں کے خلاف ان کی زہر اگلتی زبانیں مودی سرکار کے پاک فوج مخالف پراپیگنڈے سے ہم آواز ہوچکی ہیں۔ فوج (اور آئی ایس آئی) پر کیچڑ اچھالنے والوں نے میڈیا میں اپنے ہم نفسوں کی مدد سے افترا پردازی کا نیا پینترا اپنایا ہے اور اب وہ ''بداعتمادی'' پھیلنے کا واویلا کررہے ہیں۔ ان بدنہاد عناصر کو عبرت کا نشان بنا دینا چاہیے۔
حالیہ بم دھماکے نے پنجاب میں دہشتگردی کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کی قلعی کھول دی۔ اگر حکومت ملک سے واقعتاً دہشتگردی کا خاتمہ چاہتی ہے تو فوجی عدالتیں کیوں ختم کی گئیں؟ آرمی چیف نے پنجاب میں دہشتگردی کے خلاف کارروائی کا دائرہ پھیلانے کا عندیہ دیا ہے، ہم یہ بات جنرل راحیل شریف کے دور سے سنتے آ رہے ہیں۔
ایسے تمام ارادے ان صوبائی سیاسی قائدین کی ہٹ دھرمی کے آگے ڈھیر ہوتے آئے ہیں، جنھیں اپنے حلقوں میں سخت گیر جہادی عناصر کی ہمدردیاں حاصل ہیں۔ بیانات کو اب حقیقت کا جامہ پہنانا ہوگا۔ فوجی عدالتوں کی بحالی پر اتفاق رائے کے آثار پیدا ہوئے ہیں، دہشتگردوں کے مالی معاون اور سہولت کاروں کے خلاف مقدمات بھی فوجی عدالتوں میں چلنے چاہییں۔کمزور اور ناقص، جمہوریت جیسی بھی ہے، سادہ سی بات یہ ہے کہ فوج مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ جمہوری نظام یوں ہی چلتا رہے گا۔ اس جمہوریت کی بقا کے لیے فوج روزوشب خود بھی کوشاں ہے، اب یہ سول قیادت کی ذمے داری ہے کہ نظام کو وہ کس طرح چلاتے ہیں۔
جمہوریت کی مضبوطی کے لیے مقامی حکومتوں کے نظام کو مؤثر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ شہریوں کو اپنے مسائل حل کرنے کا اختیار حاصل ہو۔ پاکستان کی فوجی اور سیاسی حکومتیں یکساں طور پر اچھی طرز حکمرانی کی مثال قائم نہیں کرسکیں، اس ملک کو حقیقی معنوں میں ایک ترقی یافتہ اور مستحکم ریاست بنانے کے لیے سب کو یکسو ہو کر کام کرنا ہوگا یہی ہمارا مشترکہ قومی ہدف اور مقصد ہونا چاہیے۔