دو کہانی کاروں کی ملتی جلتی کہانیاںدوسرا حصہ
دوستوں کے ساتھ پروڈکشن آفس کا ہی کھانا کھاتے تھے
کبھی کبھی یوں بھی ہوتا تھا جب ساحرؔ لدھیانوی اسے سمجھاتے ہوئے کہتے کہ دیکھو جادو! تمہارے باپ تمہاری ہٹ دھرمی اور سرکشی کی وجہ سے بڑے پریشان رہتے ہیں اور تم اس طرح آئے دن اپنے باپ سے خفا ہوکر جو یہاں آجاتے ہو یہ بھی اچھی بات نہیں۔ کوئی باپ اپنے بیٹے کا برا نہیں چاہتا۔ تو یہ نصیحت سن کر جاوید اختر ساحر لدھیانوی کے گھر کا ٹھکانہ بھی چھوڑ دیا کرتے تھے اور پھر کسی بھی دوست کے ساتھ کسی بھی فلم پروڈکشن کے آفس میں اسٹوڈیو ہی میں راتیں گزارتے تھے۔
دوستوں کے ساتھ پروڈکشن آفس کا ہی کھانا کھاتے تھے اور کوئی کام تو ہوتا نہیں تھا بس سگریٹ پھونکنا، کھانا پینا اور دوستوں کے ساتھ تاش کھیل کر وقت گزارا کرتے۔ یہ اسی زمانے کی بات ہے اب یہ کچھ اور بڑے ہوگئے تھے اور اس بڑے پن کی وجہ سے مزید خودسر بھی۔ اسی دوران بمبئی میں ایک فلم ''سرحدی لٹیرا'' بن رہی تھی جبکہ کہانی سلیم خان نے لکھی تھی یہ وہی سلیم خان تھے جن کا ایک بیٹا سلمان خان آج کا نامور فلمی ہیرو ہے اور ان کے دو بیٹے فلمساز اور ڈائریکٹر بھی ہیں۔
سلیم خان سے جاوید اختر سے آپس میں دوستی کے ساتھ خوب گھٹنے لگی تھی ''سرحدی لٹیرا'' کے ہدایت کار ایس ایم ساگر تھے۔ سلیم خان کافی خوبصورت تھے ایس ایم ساگر کی یہ چھوٹے بجٹ کی فلم تھی، انھوں نے سلیم خان کو ہی فلم میں ہیرو لے لیا تھا۔ فلم جب ریلیز ہوئی تو بری طرح ناکام ہو گئی مگر اس فلم کے دوران لکھنے لکھانے کی وجہ سے سلیم خان اور جاوید اختر کی دوستی پکی ہوگئی اور ان دونوں نے ایک کامیاب سوچ کے ساتھ کئی کہانیوں کو فلم کے سکرپٹ کا روپ دینا شروع کردیا تھا۔ سلیم خان کو یہ احساس ہوگیا تھا کہ فلاپ فلم کے بعد بطور اداکار یا ہیرو اس کا کوئی مستقبل نہیں ہے اب یہ دونوں دوست کہانی کار بن چکے تھے۔ مل کر کہانیاں اور مکالمے لکھتے تھے۔ کئی فلمی سکرپٹ مکمل کرلیے تھے دونوں کی سوچ میں بڑی پختگی آگئی تھی۔
یہ 1972ء کی بات ہے۔ سلیم جاوید نے مشترکہ نام سے جو پہلا فلمی سکرپٹ لکھا وہ ''سیتا گیتا'' کا تھا۔ فلم ''سیتا گیتا'' ریلیز ہوئی وہ ایک کامیاب فلم ثابت ہوئی۔ ''سیتا گیتا'' کی کامیابی نے سلیم جاوید کو بڑا حوصلہ دیا۔ پھر ان دونوں رائٹرزکی لکھی ہوئی فلم ''زنجیر'' تھی جو 1973ء میں ریلیز ہوئی۔ یہ ''سیتا گیتا'' سے زیادہ سپر ہٹ ہوئی۔ پھر یکے بعد دیگرے فلم ''ترشول'' اور فلم ''دیوار'' کی کامیابی نے سارے ہندوستان میں سلیم جاوید کے جھنڈے گاڑھ دیے تھے اور فلمسازوں کو انھوں نے مجبورکردیا کہ فلم کے ہر اشتہار میں نامور ہیرو ہیروئن کے ساتھ ہمارا نام پہلے آنا چاہیے۔ اب یہ رائٹر ونر ہاؤس بن چکے تھے۔
ان کی ہر بات فلمساز مانتے چلے گئے انھوں نے پھر ہیرو سے زیادہ اپنا معاوضہ بھی کردیا یہ اس مقصد میں بھی کامیاب ہوگئے اب اس جوڑی کا نام شہرت کا آسمان چھونے لگا تھا۔اسی دوران ان کی فلم ''شعلے'' ریلیز ہوئی اس فلم کی بے مثال کامیابی نے فلمی دنیا میں ایک نئی تاریخ رقم کی اور ہندوستان کے ہر شہر میں اس فلم نے کامیابی کے نئے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ یہ وہ وقت تھا جب فلم انڈسٹری میں بحیثیت فلم سکرپٹ رائٹر صرف سلیم جاوید ہی کا نام جگمگا رہا تھا اور ساحر لدھیانوی کا نو عمر اور نکما جادو اب ایک ایسا رائٹر بن گیا تھا جس کے ایک ایک مکالمے پر فلم بیں جان چھڑکتے تھے۔
فلم ''شعلے'' نے ہر فلم کے ریکارڈ کو توڑ دیا تھا لیکن پھر اچانک ''شعلے'' کے بعد ایک ایسی آندھی چلی جس نے شعلے کے دونوں رائٹر سلیم اور جاوید کے درمیان ایک دراڑ ڈال دی۔ اندر کی کہانی کیا تھی یہ کسی کو آج تک نہیں پتا چلا مگر فلم ''شعلے'' کے بعد جاوید اختر اور سلیم خان کے راستے جدا جدا ہوگئے۔ اور پھر کوئی نئی فلم دونوں رائٹرز نے مل کر نہیں لکھی۔ جاوید اختر سے جب کوئی پوچھتا تھا کہ آپ دونوں کیوں علیحدہ ہوگئے تو جاوید اختر جواب دیتے تھے کہ بھئی دونوں نے مل کر بہت فلمیں لکھ لیں اب میں کچھ الگ ہوکر کرنا چاہتا ہوں اور جب سلیم خان سے کوئی پوچھتا کہ ایسی کون سی وجہ ہے کہ آپ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہوگئے تو سلیم خان ہنستے ہوئے جواب دیتے تھے ارے بھئی! ہر چیز کی ایک ایکسپائری ڈیٹ ہوتی ہے بس یوں سمجھ لیں کہ ہم دونوں کی جوڑی کی اب ایکسپائری ڈیٹ آگئی تھی۔
اور پھر رائٹر جاوید اختر اپنے والد جاں نثار اختر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے گیت نگاری کی طرف آگئے اور یہ بھی قسمت کی بات ہے کہ جاوید اختر نے جس فلم کے بھی گیت لکھے وہ فلم ہٹ ہوگئی ۔یہاں میں ان کے چند سپر ہٹ گیتوں کا تذکرہ بھی کروں گا جبکہ گیت تو اتنے ہیں کہ جن کا شمار کرنا مشکل ہے۔
ایک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا (فلم، لو اسٹوری 1942ء)
کچھ نہ کہو، کچھ بھی نہ کہو (فلم، لو اسٹوری 1942ء)
سندیسے آتے ہیں سندیسے جاتے ہیں (فلم بارڈر)
چاند تارے توڑ لاؤں ساری دنیا پہ چھا جاؤں میں (فلم یس باس)
یہ کہاں آگئے ہم یوں ہی ساتھ چلتے چلتے( فلم سلسلہ)
دیکھا ایک خواب تو یہ سلسلے ہوئے (فلم سلسلہ)
پنچھی ندیا پون کے جھونکے (فلم رفیوجی)
مجھے تم یاد کرنا اور مجھ کو یاد آنا تم (فلم مثال)
ہم نہ سمجھے تھے بات اتنی سی خواب شیشے کے دنیا پتھر کی
(فلم گردش)
تم کو پانا ہے تو جیسے کھویا ہوں (فلم اوم شانتی اوم)
حسن جاناں کی تعریف ممکن نہیں آفریں آفریں
اور فلم ''سنگم'' کے لیے یہ دلکش گیت استاد نصرت فتح علی خاں نے گایا تھا جبکہ اس گیت کی موسیقی بھی نصرت فتح علی خاں نے ہی مرتب کی تھی اور اس گیت کا arrangement موسیقار اتم سنگھ نے کیا تھا۔ فلمی گیتوں کے علاوہ ایک میوزک البم بھی گلوکارہ الکا یاگنک کی آواز میں ریلیز ہوا تھا۔ البم کا عنوان تھا ''جب'' ۔ اس البم میں جاوید اختر کے یوں تو سارے گیت ہی بڑے خوبصورت تھے مگر ایک گیت سب پر بھاری تھا جس کے بول تھے:
سارے سپنے کہیں کھو گئے' ہائے ہم کیا سے کیا ہوگئے
یہاں تک تو جاوید اختر کی شہرت کا تذکرہ ہے اب بات وہاں سے شروع ہوتی ہے جب جاوید اختر پر شہرت کے دروازے ابھی کھلے نہیں تھے۔ جاوید اختر کی زندگی میں پہلی بیوی کی حیثیت سے جو عورت آئی وہ ہنی ایرانی تھی جس نے بہت چھوٹی سی عمر میں فلم ''سنتان'' فلم ''طلاق'' فلم ''چراغ کہاں روشنی'' سے شہرت پائی تھی۔ پھر بہت سی فلموں میں کام کیا اور پھر جب یہ جوان ہوگئی تو اس نے فلم ''پورنیما'' میں شاندار کام کیا مگر یہ ہیروئن بننے کی اہل نہیں تھی یہی بات سوچ کر اس نے اداکاری کو خیرباد کہہ کر کہانی نویسی کے شعبے کو اپنایا اور ساتھ ہی ساتھ یہ ڈائریکشن کے شعبے میں آگئی اور کسی طرح ہدایت کار رمیش تلوار کی اسسٹنٹ ہدایت کار ہوگئی۔
اسی دوران رمیش سپی کی فلم ''سیتا گیتا'' میں بطور معاون کام کر رہی تھی۔ فلم کا سکرپٹ سلیم جاوید نے مشترکہ طور پر لکھا تھا۔ اور سلیم جاوید رائٹرز کی یہ پہلی فلم تھی۔ اس فلم کے سیٹ پر معاون ہدایت کار ہنی ایرانی تھی۔ اور فلم کی شوٹنگ کے دوران ہنی ایرانی اور جاوید اختر کی دوستی ہوگئی اور یہ دوستی پھر محبت میں بدل گئی اور پھر اس محبت نے شادی کا روپ دھار لیا۔ اب ایک دلچسپ سچویشن یہاں پیدا ہوتی ہے۔ دونوں کی شادی کی تیاریاں آخری مراحل میں تھیں مگر جاوید اختر کے پاس رہنے کا کوئی اپنا ٹھکانہ نہیں تھا اور جاوید اختر کی مالی حالت بھی ایسی نہیں تھی کہ وہ کوئی گھر کرائے پر لے۔ یہاں دوستوں کے کہنے سننے پر آج کی مشہور ڈانس ڈائریکٹر فرح خان کے والد کامران خان کے گھر میں جاوید اختر کے لیے سٹور کے ایک کمرے کو خالی کرایا گیا اور جاوید اخترکی دلہن کو لانے کے انتظامات کیے گئے اور سٹور کے ایک چھوٹے سے کمرے کو حجلہ عروسی بنایا تھا۔
جب ''سیتا گیتا'' ریلیز ہوئی تو قسمت ایسی مہربان ہوئی کہ فلم بہت پسند کی گئی ہٹ ہوئی اور سلیم جاوید کی جوڑی کو بڑی پذیرائی ملی اور پھر یکے بعد دیگرے اس رائٹر جوڑی نے جتنی بھی فلمیں لکھیں وہ سپر ہٹ ہوتی چلی گئیں۔ اور اس وقت یہ رائٹر فلموں کے لیے ہاٹ کیک رائٹر قرار دیے گئے۔ شہرت، دولت اور ایوارڈ ہی ایوارڈ ان کی زندگی میں آتے چلے گئے مگر فلم ''شعلے'' کے بعد ان دونوں دوستوں کی زندگی میں ایک شعلہ بار آندھی آئی اور اس آندھی نے دونوں کی دوستی، دونوں کی محبت، دونوں کی یکجہتی کو بھسم کرکے رکھ دیا۔ پھر دونوں کے درمیان ایک ایسی دراڑ پڑ گئی جسے وقت بھی نہ پاٹ سکا۔
(جاری ہے)