ہیں کوا کب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
آسمان ایک ہوا کرے مگر ستارے رنگ رنگ کے ہیں اور سو باتوں کی ایک بات کہ جیسے ہم ویسے ہمارے ستارے۔
ISLAMABAD:
باقی سب باتیں بعد میں۔ پہلے موسم کا رنگ تو دیکھو۔ اب کے تو سردی واقعی اس غضب کی پڑ رہی ہے کہ ہم اندر سے تھر تھر کانپ رہے ہیں۔ لو اس پر ایک شعر یاد آ گیا؎
سردی اب کے پڑی ہے اتنی شدید
صبح نکلے ہے کانپتا خورشید
ابھی جو فقرہ ہماری زبان سے نکلا، اس میں اور اس شعر میں ایک لفظ مشترک ہے۔ وہ لفظ ہے 'اب کے'۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس زمانے کا یہ شعر ہے، اس زمانے سے اب تک ہم ہر جاڑوں میں یہی شکایت کرتے چلے آ رہے ہیں کہ اب کے جاڑا بہت شدید ہے۔ مطلب یہ کہ پچھلے سال اتنی سردی نہیں پڑی تھی۔ اور پھر اس کا مطلب یہ نکلا کہ ہر برس سردی کی شدت سے ہمارے حافظے پر پتھر پڑ جاتے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ پچھلے سال سردی کس قیامت کی پڑی تھی۔
مگر ہر گرمی کے موسم میں ہم یہی کچھ کہتے ہیں۔ گرمی جب زور پکڑتی ہے تو کہتے ہیں کہ اب کے تو گرمی قیامت ڈھا رہی ہے۔ مطلب یہ کہ جاڑا کڑا کے کا پڑے یا گرمی تڑاکے کی پڑے، ہمارا ردعمل ایک ہی ہوتا ہے۔ ہم پچھلے برس کے موسم کے ستم کو بھول جاتے ہیں۔ ارے اس کا تو مطلب یہ نکلتا ہے کہ جنت سے نکلنے کے بعد آدم و حوا کی اولاد زمین کے موسموں سے مفاہمت نہیں کر سکی۔ سردی گرمی برسات ہر موسم ابن آدم پر بالآخر بھاری پڑتا ہے۔ موسموں سے ہماری دائمی مخاصمت چلی آتی ہے۔
موسم کی شدت اپنی جگہ وہ تو عناصر فطرت کی کارستانیوں کا ثمر ہے۔ مگر اس مصیبت میں اضافہ کچھ ہماری کارستانیوں نے بھی کیا ہے ع
اے باد صبا' ایں ہمہ آوردۂ تست
غلط' غلط۔ سارا قصور باد صبا کا نہیں۔ کچھ ہم اپنے کیے کی بھی تو سزا کاٹ رہے ہیں۔ ارے یہ جو بجلی اور گیس گھنٹوں کے حساب سے غائب رہتی ہے اور جس کی وجہ سے سردی کا موسم مزید ستم خیز بن گیا ہے، اس میں موسم کا کیا قصور ہے۔ یہ تو ہمارے محکموں کے کمالات ہیں۔ اب جو بجلی اور گیس کا غائب ہونا ہے تو اس نے تو ہمیں اس جاڑے پالے میں کہیں کا نہ رکھا۔ صبح کو پانی ٹھنڈا یخ ہوتا ہے، نہائیں دھوئیں کیسے۔ نہانے دھونے کی بات تو بعد کی بات ہے۔ ہاتھ منہ دھونے کے لیے پانی چلو میں لو تو لگتا ہے کہ برف کی سل میں ہاتھ اتار دیا۔
ایک گھر کی گرہستن صبح ہی صبح باورچی خانے میں داخل ہوئی اور گیس کے چولہے کو ماچس دکھائی تو پتہ چلا کہ گیس کی آمد بند ہے۔ بجلی کا بٹن دبایا تو پتہ چلا کہ بجلی بھی غائب ہے۔ کب اس کے منہ سے بد دعا نکلی کہ خدا کی مار پڑے ان بجلی والوں پر اور ان گیس والوں پر کہ چولہا ٹھنڈا پڑا ہے' بچے سردی میں ٹھٹھر رہے ہیں۔ ارے کمبختو' تم نے ہماری بجلی بند کی ہے' تم پہ آسمان سے بجلی گرے گی۔ اوپر والا سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ ادھر دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔
ایک بزرگ کہہ رہے تھے کہ ابھی تو سال شروع ہوا ہے۔ یہ نئے سال کے لیے اچھا شگن نہیں ہے۔ اب یہ لیل و نہار ہیں تو آیندہ کیا کیا گل کھلے گا۔ ارے کسی منجم کو بلائو اور اس سے پوچھو کہ یہ سال جو اب لگا ہے کیسا گزرے گا۔
یہ سن کر ہم نے انھیں ٹوکا اور کہا کہ منجم سے مت پوچھنا۔ پھر تو مزید بدشگنی ہو جائے گی۔ انھوں نے پوچھا' وہ کیسے۔ تب ہم نے اپنا تجربہ ان کے سامنے بیان کیا۔ اصل میں ہمیں اپنے پچھلے برس کا نئے سال والا اپنا کالم یاد آ گیا۔ اس میں ہم نے نئے سال کے بارے میں ایک منجم کی پیشگوئی نقل کی تھی۔ اس نے اخبار میں اپنی پیشگوئی چھپوائی تھی۔ ستاروں کا حساب کر کے بتایا تھا کہ یہ سال اچھا گزرے گا۔ ہم نے حیرت سے اس خبر کو دوبارہ پڑھا۔ پھر بجلی کی طرف دیکھا جو بند تھی اور چولہے کی طرف نظر دوڑائی جو ٹھنڈا پڑا تھا۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ۔ اس پر مستزاد گیس کی قلت۔ پھر ہم نے سوچا کہ شاید ستاروں نے صحیح بتایا ہو۔ اچھا سال چڑھا ہے تو کیا عجب ہے کہ جلدی ہی لوڈ شیڈنگ سے بھی نجات مل جائے اور سوئی گیس کی قلت پر بھی قابو پا لیا جائے۔ اور ہمارے شاعر نے بھی تو یہی کہا ہے کہ ع
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
تو ہم نے انتظار کھینچنا شروع کر دیا کہ اب لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی نوید آتی ہے اور اب سوئی گیس کے محکمے کی طرف سے اعلان ہوتا ہے کہ گیس کی قلت پر قابو پا لیا گیا ہے۔ مگر توبہ کیجیے۔ ہمارا انتظار تو لمبا ہی کھینچتا چلا گیا۔ اور اب آپ دیکھ رہے ہیں کہ سوئی گیس میں اس وقت جو تھوڑی قلت تھی اور اس سے جو گھروں میں پریشانی پیدا ہو رہی تھی اس نے بڑھ کر اب یہ گل کھلایا ہے کہ ہنڈیا تو وقت بے وقت سوئی گیس کے آ جانے پر چولہے پر چڑھا دی جاتی ہے اور جلدی جلدی پکالی جاتی ہے مگر کھانے کے اوقات میں گیس غائب ہوتی ہے۔ تندور سے روٹیاں منگاتے ہیں اور اس طرح کھانا کھاتے ہیں یا اس طرح نگلتے ہیں کہ روٹی گرم گرم' سالن ٹھنڈا۔ اور ہم یہ سوچ کر کھانا زہر مار کرتے ہیں کہ ہم نے جو منجم کی پیشگوئی پر اعتبار کیا تھا یہ اس کا ثمر ہے۔
ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔ غالب کو بھی نجومی کی بات پر اعتبار کر کے ایسے ہی دن دیکھنے پڑے تھے۔ سال کے آغاز پر کسی ایسے ہی ستاروں کے حساب میں پکے نجومی کے حساب پر اعتبار کر کے کس قدر خوش ہو کر کہا تھا کہ ع
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
بس اس کے بعد ہی شاعر کی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور پنشن کے معاملے میں تو ایسا پیچ پڑا کہ غالب نے کلکتہ تک کا سفر کر کے دیکھ لیا مگر پنشن کا مسئلہ حل نہیں ہوا۔ غالب کچھ ایسے ہی تجربوں سے گزرا ہو گا کہ پھر بخوبی کیا ستاروں پر سے بھی اس کا ایمان اٹھ گیا۔ کچھ ایسے ہی عالم میں یہ شعر لکھا ہو گا ؎
ہیں کوا کب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
ارے ایسے ہی ستاروں سے تو ہمارا پالا پڑا ہے۔
ہمارے ایک دوست اس شعر پر چونکے۔ بولے یہ تو پاکستان کے آسمان پر نمودار ہونے والے ستارے معلوم ہوتے ہیں۔
یہ سن کر ہم سوچ میں پڑ گئے۔ ہر چند کہ ہم نے ان کے بیان کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ کہا کہ برادر' آسمان ایک ہے۔ جیسا ایران تو ران کا آسمان ویسا پاکستان کا آسمان۔
وہ تڑ سے بولا کہ آسمان ایک ہوا کرے مگر ستارے رنگ رنگ کے ہیں۔ غالب نے ہمارے آسمان پر جھلملاتے ستاروں کی خاصیت بتائی ہے۔ اور سو باتوں کی ایک بات کہ جیسے ہم ویسے ہمارے ستارے۔
ہم پھر سوچ میں پڑ گئے