مشرق وسطیٰ دہشت گردی اور پاکستان
ہم امریکا کے شکر گزار ہیں کہ اس نے امریکا کا حقیقی چہرہ دکھا کر ہماری زندگی کو آسان بنا دیا ہے
www.facebook.com/shah Naqvi
PESHAWAR/
ISLAMABAD:
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم امریکا کے شکر گزار ہیں کہ اس نے امریکا کا حقیقی چہرہ دکھا کر ہماری زندگی کو آسان بنا دیا ہے۔ خامنائی نے کہا کہ ٹرمپ نے اس بات کی تائید کر دی ہے جس کو ہم 30 سال سے دوہرا رہے تھے کہ امریکا کا حکمرانی کا نظام سیاسی، معاشی، اخلاقی اور سماجی طور پر کرپٹ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی کرپشن کا حقیقی چہرہ ہے۔
ادھر ہزاروںایرانیوںنے تہران میں انقلاب ایران کی سالگرہ کے موقعہ پر امریکی صدر ٹرمپ کی دھمکیوں کے خلاف احتجاج کیا۔ اس موقعہ پر ایران میں ایک درجن مظاہرے ہوئے۔ تہران میں مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا کہ اتنی بڑی تعداد میں ایرانیوں کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ امریکی صدر کی دھمکی سے خوفزدہ نہیں ہیں۔
وائئٹ ہاؤس کے نئے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ ایرانی عوام کو عزت سے مخاطب کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کو اپنے دھمکی آمیز بیان پر پچھتانا پڑے۔ جب کہ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ تہران جوہری ڈیل پر امریکا سے دوبارہ مذاکرات نہیں کرے گا۔ جیسا کہ ہمیں پتہ ہے کہ موجودہ ری پبلیکن قیادت اسرائیل نواز ہے۔
جوہری ڈیل کو منسوخ کرنا اتنا آسان نہیں کیونکہ اس کے پیچھے یورپی یونین، برطانیہ، روس اور چین ہیں۔ اب امریکی انتظامیہ کا پورا زور اس بات پر ہے کہ اس معاہدے میں ایسی ترامیم کی جائیں جس سے ایران بے دست و پا ہو جائے۔ اس مقصد کے لیے اسرائیلی وزیراعظم امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کر چکے ہیں جو پہلے ہی ان کے ہم خیال ہیں لیکن اصل مسئلہ یورپین یونین اور برطانیہ کی حمایت ہے۔ جس کے لیے اسرائیلی وزیراعظم 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ پر حاضری دے چکے ہیں لیکن برطانیہ نے اس حوالے سے ان کی کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی۔
اس حوالے سے ایک امریکی جریدے نے کہا ہے کہ یمن کی سرزمین امریکا اور ایران کے درمیان جنگ کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو صدر ٹرمپ کا ایران کے خلاف جنگ کا آغاز یمن سے ہو گا ۔ یہ جنگ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی حاکمیت قائم کرنے کے لیے لڑی جائے گی۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل مخالف قوتوں کا خاتمہ کر دیا جائے۔ یوں مشرق وسطیٰ کے وسائل پر سامراجی کنٹرول مکمل ہو جائے گا۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ داعش افغانستان میں اکٹھی ہو رہی ہے۔ اب اس کا رخ پاکستان کی طرف ہے۔دوسری طرف امریکی صدر ٹرمپ داعش کو نشانہ بنانے والے ہیں، اب ہو گا یہ کہ داعش جب پاکستان میں داخل ہو گی تو پیچھے پیچھے ٹرمپ کو آنے سے بھی کوئی نہیں روک سکے گا۔ ہمارے یہاں بڑے بڑے لوگ جن میں وزیر داخلہ بھی شامل ہیں کئی مرتبہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ داعش کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں۔ جب کہ باخبر لوگ کافی عرصے سے خبردار کر رہے تھے کہ داعش پاکستان میں منظم ہو رہی ہے۔
ہمارے وزیر داخلہ کا موقف ہے کہ داعش عربی تنظیم ہے اس کا پاکستان سے کیا تعلق۔ یہ تو عراق اور شام تک محدود ہے۔ اب سیہون شریف خود کش دھماکے نے ثابت کر دیا ہے کہ داعش نہ صرف پاکستان میں وجود رکھتی ہے بلکہ اس کا وسیع پیمانے پر پاکستان میں نیٹ ورک ہے۔ جب تحریک طالبان پاکستان کو پاکستانی فوج نے شکست دینا شروع کی تو اس وقت سے ہی طالبان اور اہم طالبان لیڈروں نے داعش میں شمولیت اختیار کرنا شروع کر دی۔ یعنی طالبان کا ڈھانچہ اور نیٹ ورک راتوں رات اپنا لیبل تبدیل کرتے ہوئے داعش میں بدل گیا۔
داعش ہو یا القاعدہ یا طالبان یہ کسی اور کے نہیں اصل میں امریکا کے اسٹرٹیجک اثاثے ہیں جن کے ذریعے سوویت یونین کو شکست دی گئی۔ کسی کی جرات نہیں کہ وہ ان اسٹرٹیجک اثاثوں کو مکمل طور پر ختم کر سکے۔ وقتی طور پر دہشتگردی کم ہو گی لیکن دوبارہ سے پھر پوری قوت سے سامنے آئے گی۔
وزیراعظم نواز شریف نے حالیہ5 دنوں میں 8دہشتگرد حملوں پر جب یہ کہا کہ دہشتگردوں کے خلاف بے رحم آپریشن کیا جائے گا تو اس پر بعض حضرات تڑپ اٹھے۔ یہ لوگ اب بھی دہشتگردوں کی مذمت نہیں کرتے۔ حالیہ دہشتگرد حملوں میں جماعت الاحرار، داعش اور تحریک طالبان پاکستان ملوث ہیں۔ لیکن مجال ہے کہ ان دہشتگرد گروہوں کی انھوں نے مذمت کی ہو۔
ماضی میں دہشتگردوں کے جانے پہچانے حمایتی پھر سے میدان میں آ چکے ہیں۔ ان کا وہی پرانا موقف ہے کہ دہشتگردی یہ نہیں بلکہ یہود و ہنود کر رہے ہیں۔ یہ ان کے حمایتی ہی تھے جنہوں نے کئی سال ان کے خلاف آپریشن نہیں ہونے دیا۔
پاکستان کو عراق ایران کی طرح کے حالات سے دوچار کرنے کی سازش ہورہی ہے۔ اس وقت صرف ایک ہی قوت ہے جو پاکستان کو اس صورت حال سے بچا سکتی ہے، وہ ہے صرف اور صرف عوام کی قوت۔ عوام اگر ان دہشتگرد گروہوں پر اپنی گلی محلہ ہمسایہ اور شہروں میں کڑی نظر رکھیں گے تو پھر پاکستان یقینی طور پر بچ سکتا ہے۔
40 برس پہلے مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک جس سازش کا آغاز ہوا۔ 2017ء میں وہ اپنے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو جائے گی۔
سیل فون:۔0346-4527997