وطن عزیز پر جاری حملے
ہمارے دشمنوں نے دہشت گردی کے نام سے وطن عزیز پر حملہ شروع کر رکھا ہے
ہمارے دشمنوں نے دہشت گردی کے نام سے وطن عزیز پر حملہ شروع کر رکھا ہے اور اسے مزاروں کے متبرک مقامات سے شروع کیا گیا ہے۔ کئی زندگیاں تلف ہو چکی ہیں اور نیک و پاک اور پرہیز گار لوگوں کے مزار ان کے عقیدت مندوں کے خون سے رنگین کر دیے گئے ہیں۔
اس سلسلہ وار سانحہ سے سب سے زیادہ دکھ ان معصوم روحوں کو ہو رہا ہو گا جن کے نام پر دہشت گرد سرگرم ہیں اور عقیدت مندوں کی لاشیںان کے مزاروں میں گرائی جا رہی ہیں جنہوں نے زندگی بھر محبت اور امن و سلامتی کی تلقین کی اور نہ صرف امن کی نصیحت کی خود اپنی تمام زندگی امن اور اللہ رسولؐ کی تعلیمات کے نام پر وقف کر دی، نہ صرف مسلمانوں کے درمیان محبت کے رشتے استوار کیے بلکہ غیر مسلموں میں بھی امن اور سلامتی کی زندگی قائم کرنے کی ایسی کوشش کی کہ اپنی زندگیاں اس امن پر نثار کر دیں۔
ان کے مزار جو ان کی یاد اور نشانی بن کر ہمارے سامنے موجود ہیں، امن و سلامتی کے مرکز ہیں جہاں مذہب نسل اور قبیلے کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا صرف انسانیت ہی ان صاحبان مزار کا مقصد ہے اور انھوں نے زندگی بھر اسی کی تبلیغ کی اور اپنی زندگیاں اس کا ایک نمونہ بنا کر خلق خدا کے سامنے پیش کیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس ایثار اور خلق خدا کے درمیان محبت کے اس غیرفانی جذبے کو قبول کیا اور ان کے بعد ان کے مزار ان کی زندہ یاد گاریں بن گئے جہاں خلق خدا اپنے گناہوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے حاضری دیا کرتی ہے۔
ذات باری تعالیٰ نے ان کی عمر بھر کی ریاضت کو قبول کیا اور ان کے مزار اس کی مثال بن گئے جہاں آج بھی ہر نسل ہر طبقے اور ہر عقیدے کے مسلمان عقیدت کا اظہار کرتے ہیں اور ان عقیدت مندوں میں صرف مسلمان ہی نہیں غیر مسلم بھی ہوتے ہیں جو ان صاحبان مزار سے مدد کے طلب گار ہوتے ہیں اور اپنی عقیدت کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔
یہ صاحبان وہ لوگ تھے ایسی نیک اور اخلاص کی بھری ہوئی زندگیوں والے لوگ جو جب تک زندہ رہے اپنا فیض عام کرتے رہے اور اب جب وہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہو چکے ہیں تو اپنی زندگی کی برکات سے خلق خدا کو مالا مال کر رہے ہیں، ان کو سہارا دے رہے ہیں ان کے مایوس دلوں کو نئی زندگی دے رہے ہیں اور ان کو ایک نئی دنیا سے آشنا کر رہے ہیں، ایک دوسری دنیا کی لذتیں عام کر رہے ہیں جو ان کے دلوں کو سکون عطا کرتی ہیں اور جو ان بزرگوں کی زندگیوں کا ثمر ہیں۔ ایسی زندگیاں جو انسانوں کی فلاح کی تلاش میں گزر گئیں۔
ان دنوں حضرت عثمانؒ مروندی کا ذکر ہو رہا ہے، اپنے عہد کا ایک شاعر اور قلندر جس نے پوری زندگی فقر و فاقہ میں بسر کر دی اور نیکی اور پرہیز گاری کی تلقین میں اپنی نجات تلاش کی۔ ہم اس دنیا کے لوگوں کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی یاد گاروں پر خلق خدا کا دن رات جو ہجوم موجود رہتا ہے وہ اس بات کا اعلان ہے کہ قدرت نے ان لوگوں کی عبادت قبول کر لی ہے ورنہ خلق خدا کا ان کی پتھر کی ان یادوں سے کیا لینا ہے سوائے ایک سکون جو ان مزاروں کی برکت سے ان کے عقیدت مندوں کو حاصل ہوتا ہے۔
ان دنوں سندھ کے ایک مزار اور مرکز پر عقیدت مند سندھی مخلوق خدا کا دن رات محبت کا جو نمونہ دکھائی دیتا ہے وہ لازماً اس ہستی کی زندگی کا ایک پر تو ہے جو ان کے بعد بھی زندہ ہے اور کون کہہ سکتا ہے کہ یہ کب تک زندہ رہے گا اور اس کا خیر و برکت کا سلسلہ جاری رہے گا۔
یہ لوگ جو یوں تو اپنے عظیم ناموں کے ساتھ گزر گئے مگر ان کی زندگی کی برکات اب تک سلامت ہیں اور ان کی زندگی ہماری رہبری کرتی رہے گی۔ ایسے بڑے لوگوں کا ماضی ہمارے سامنے ایک نمونہ بن کر زندہ ہے اور ہم ان کے ماضی سے بہت کچھ حاصل کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ ان دنوں ذکر ہو رہا ہے حضرت شہباز قلندرؒ کا جو ایک درویش اور صوفی شاعر تھے۔ ان کی عظیم شخصیت پر کوئی الزام سامنے نہیں آتا۔ یہ وہ لوگ تھے جو اس دنیا میں کسی مقصد کے تحت زندہ رہے اور اس مقصد کی خدمت میں اپنی زندگی بسر کر دی۔
اب ہم لوگ جو ان کو دیکھ نہ سکے ان کی زندگی کو ایک نمونہ بنا کر اس پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کی زندگی کی نیکیوں کی تلاش میں زندہ رہتے ہیں کہ ان پر عمل کرنے کی سعادت حاصل کر سکیں۔ ایسے فیاض صوفی زیادہ نہیں گزرے جو اپنے خیالات کو تحریری صورت میں آنے والوں کے لیے چھوڑ گئے۔ میں جس شہر میں بیٹھا یہ سطریں لکھ رہا ہوں اس شہر کے ایک کونے میں ایک ایسی ہستی مدفون ہے جس نے اپنی ایک ایسی تحریر چھوڑی ہے جو نہ صرف اس کی زندگی بلکہ علوم تصوف کی رہنما بھی ہے۔
تصنیف کا نام ہے کشف المحجوب' یعنی رازوں کو کھولنے والی کتاب۔ یہ ہماری ایک بدقسمتی ہے کہ ہم اس شخصیت کے دیوان اور منظوم کلام سے محروم رہے کیونکہ یہ مجموعہ چوری ہو گیا تھا۔ حیرت ہوتی ہے اس شخص پر جس نے حضرت داتا کا کلام چوری کیا تھا۔ بہرکیف اسے اس چوری کی سزا قدرت دے گی۔ حضرت داتا صاحب نے اپنی تحریر میں اس سانحہ کا بڑے دکھ کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ جو بھی ہونا تھا وہ ہو چکا اور ہم حضرت داتا کے منظوم کلام سے محروم رہے تاہم ان کی نثری کتاب ہمارے پاس موجود ہے اور یہی بڑی غنیمت اور نعمت ہے جو ہمیں حضرت داتا سے تحفہ میں ملی ہے اور داتاؒ کے ایک مرید کی بات کو سچ کرتی رہتی ہے کہ
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا