پنجاب میں بڑے آپریشن کا مطالبہ
نیشنل ایکشن پروگرام کے تحت ہماری افواج کو جو ٹارگٹ دیا گیا تھا وہ اُس پر مکمل تندہی کے ساتھ عمل پیرا ہے۔
ISLAMABAD:
سول اور ملٹری اداروں کی کوششوں کے نتیجے میں دوسال قبل دہشتگردوں کے خلاف جو ملک گیرآپریشن شروع کیاگیا تھا اُس کے بہت حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے دہشتگردی کا جن بوتل میں بند ہوچکا ہے اور پاکستان ایک بار پھر محفوظ سرزمین بن گیا ہے۔ اکّا دکّا واقعات تو پھر بھی ہوتے رہے لیکن بحیثیت مجموعی امن وامان کی صورتحال بہتری کی جانب بڑھ رہی تھی۔ دہشتگردی کا سب سے بڑا نشانہ اِن دو برسوں میں بلوچستان اورخاص کر کوئٹہ ہی رہا، مگراب ایسا لگ رہا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گرفت کوکمزور پڑتا دیکھ کر یہ دہشتگرد پھر سے منظم ہونے لگے ہیں۔
گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران پشاور، مہمند ایجنسی، چارسدہ لاہور اور سیہون شریف میںہونے والے خود کش حملوں نے ہماری سابقہ دو سالوںکی کامیابیوں پر لمحے بھر میں پانی پھیردیا۔ دہشتگردی کی ایک نئی لہر نے پھر سے جنم لے لیا ہے۔ حکومت اور افواج پاکستان کے اعلیٰ افسروں نے فوراً اِس کے سدِباب کے لیے پھر سے نئی حکمتِ عملی ترتیب دے دی ہے اور یہ فیصلہ کیا ہے کہ دہشتگردی کے اِس ناسورکو مکمل ختم کرکے ہی دم لیا جائے گا اور نہ صرف پنجاب میں بلکہ سارے ملک میں اِس مقصد کے لیے پہلے سے جاری آپریشن کو مزید سخت کردیا جائے گا۔
لاہورکے اِس افسوسناک واقعے کو لے کر ہماری اپوزیشن نے بہت شورمچایا اور مختلف بیانوں سے حکمرانوں کی پالیسوں اورحکمتِ عملیوں پر زبردست تنقیدکے تیر چلائے۔خاص کر پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے جو ہر وقت حکمرانوں کے کمزوریوں اورغلطیوں کی تاک میں رہتے ہیں فوراً یہ مطالبہ کر بیٹھے کہ صوبہ پنجاب میں بھی رینجرزکے ذریعے سخت آپریشن کیاجائے کیونکہ جب کراچی میں آپریشن کیاجاسکتا ہے تو پنجاب میں کیوں نہیں۔ وہ دانستہ طور پر یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے تھے جیسے پنجاب میں کوئی آپریشن شروع ہی نہیں ہوا یاپھروہاں کی حکومت عسکری قوتوں کو اِس کی اجازت نہیں دے رہی۔
حالانکہ یہ بات اظہر من الشمس کے مانند روشن ہوجائے گی کہ پنجاب میں بھی یہ آپریشن گزشتہ کئی سال سے جاری و ساری ہے۔ یہاں کسی نے دہشتگردوں سے کوئی ہمدردی یا نرمی نہیں برتی۔ ہمیں یاد ہے کہ جب دہشتگردی کے خلاف پنجاب میں 2010ء میں نئے سرے سے کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ تشکیل دیا گیا تواُس کا سربراہ جس شخص کو مقررکیا گیا وہ ناصر خان درانی تھے جو آجکل خیبر پختون خوا میں آئی جی پولیس ہیں اور جوخود خان صاحب کے نزدیک بہت ہی ایماندار، جفاکش اورکمیٹڈ شخص ہیں۔اُن سے کسی قسم کی جانبداری یانرمی کا تصوربھی نہیں کیاجاسکتا ہے۔
اُنہوں نے اپنے اُس دور میں تمام دہشت گردوں کاسراغ لگاکرمکمل اعدادوشمار اکٹھا کیے تھے اور چھان بین کے بعد اُن کے خلاف آپریشن شروع کیاتھاجو کسی نہ کسی طرح ملک دشمنی جیسی کارروائیوں میں ملوث رہے تھے۔یہ وجہ ہے کہ پنجاب میں دہشتگردی کے واقعات میں دوسرے صوبوں کی نسبت بہت کمی واقع ہوئی ہے۔یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ پنجاب حکومت اِس اہم مشن کی انجام دہی میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
اگر ایسا ہوتا تووہاں 100سے زائد دہشتگرد اب تک مارے نہ جاچکے ہوتے اور 600سے زائد افراد جیلوں میں نہ ہوتے۔ 123 سہولت کار بھی اب تک پابند سلاسل کیے جاچکے ہیں۔فرقہ پرستی اورمذہبی انتہا پسندی جیسے واقعات میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔سارے پنجاب سے لشکر جھنگوی جیسی فرقہ وارانہ تنظیموں کا قلع قمع کردیا گیاہے۔جیوٹیگنگ کے تحت اب تک 13798مدارس ،61000 مساجد اور3000کے قریب اقلیتی عبادت گاہوں کے رجسٹریشن مکمل ہو چکی ہے۔کسی اور صوبے میں یہ کام اتنے بڑے پیمانے پر ابھی تک مکمل نہیں ہوپایاہے۔
رہ گیا خان صاحب کا یہ سوال کہ جب کراچی میں رینجرز کے ذریعے آپریشن ہوسکتا ہے تو پھر پنجاب میں کیوں نہیں۔خان صاحب یہ کہتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ کراچی کے حالات کا موازنہ کسی طور پنجاب سے نہیں ہوسکتا۔ کراچی میں دوسال پہلے تک کیا حالات تھے۔ وہاں سیاسی جماعتوں کے مسلح اور منظم گروہ اوراُن کے عسکری ونگزبلاروک ٹوک روزانہ دس سے پندرہ افرادکی ٹارگٹ کلنگ کررہے تھے۔ لوگوں کو اُن کاشناختی کارڈ اورڈومیسائل دیکھ کر قتل کیا جا رہا تھا۔بھتہ خوری اور اغوابرائے تاوان کے وارداتیں عروج پر تھیں۔ عوام کاجینا دوبھر ہوچکا تھا۔شہر بھر سے تاجروں اور بزنس مینوں نے اپنا کاروبار سمیٹنا شروع کردیا تھا۔
آئے دن کی ہڑتالوں اورپر تشدد احتجاج نے زندگی اجیرن کرکے رکھ دی تھی۔شہر کاکوئی پرسانِ حال نہیں تھا، جب کہ صوبہ پنجاب میں ایسے حالات کبھی تھے اور نہ ہیں۔وہاںکبھی کسی مخصوص سیاسی گروہ کی اجارہ داری نہیں رہی ہے۔ البتہ جہاں کہیں اور جب کہیں رینجرز اورہماری افواج کے مدد کی ضرورت ہوتی ہے اُنہیں طلب کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی ہے۔
جنوبی پنجاب میں بدنام زمانہ ڈاکو چھوٹوگینگ کی سرگرمیاں جب قابو سے باہر ہونے لگیں تو حکومتِ پنجاب نے فوراً اپنی عسکری اداروں سے مدد طلب کی، لیکن افسوس کہ اُس وقت بھی ہمارے اِن نادان اورکم سمجھ سیاستدانوں نے بھی یہ کہہ کر حکومت وقت پرتنقید کے نشتر چلائے کہ سول حکومت اور اُس کی پولیس ایک ڈاکو سے نمٹنے میں ناکام ہوچکی ہے۔علاوہ ازیں ہمیں یہ بات بھی پیشِ نظر رکھنا ہوگی کہ کراچی میں گرینڈ آپریشن کس کے ایماء پرکیا گیا تھا۔یہ ہماری افواج پاکستان ہی ہے جس نے فاٹا اور وزیرستان کے بعدکراچی میں بھی امن وامان کے قیام کی ضرورتوں کو سب سے زیادہ اہمیت دی۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے لوگ کراچی میں امن قائم کرنے کا کریڈٹ وہاں کی حکومت سے زیادہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور سندھ رینجرز کو دیتے ہیں۔وہ آج بھی اپنی افواج کے ممنوں اور احسان مند ہیں کہ اُنہی کی کاوشوں سے کراچی والوں کو سکون کا سانس لینے کا موقعہ ملا۔ ورنہ حالات جس نہج پر جا رہے تھے کہ وہاں کسی کی جان محفوظ نہیں رہی تھی اورسارا شہرخانہ جنگی جیسی خوفناک صورتحال کی جانب تیزی سے بڑھ رہاتھا، جب کہ پنجاب میں نہ ایسے حالات ہیں اور نہ کسی سیکیورٹی ادارے کی جانب سے ایسے کسی بڑے آپریشن کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
نیشنل ایکشن پروگرام کے تحت ہماری افواج کو جو ٹارگٹ دیا گیا تھا وہ اُس پر مکمل تندہی کے ساتھ عمل پیرا ہے۔رہ گیا سوال فرقہ واریت پر اُکسانے والے تحریری مواد یا لٹریچرکی اشاعت پر پابندی کا اورایسی تعلیم یا آئیڈیولوجی کے سدِباب کا جو معصوم ذہنوں کو پراگندہ کرکے اُنہیں خود کش حملوں پر اُکساتی ہیں تو یہ ہماری افواج کے دائرہ اختیار میں شامل ہی نہیں ہے۔یہ کام صرف اور صرف ہماری سول حکومت کے دائرہ اختیار میں ہے۔ اور یہ صرف ایک صوبے یعنی پنجاب تک بھی محدود نہیں ہے۔
نیشنل ایکشن پروگرام کی تمام شقوںپرمکمل نیک نیتی سے عمل درآمد سارے صوبوں کی مشترکہ ذمے داری ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ ایک صوبہ تو اپنے علاقے میں اُس کی تمام شقوں پر عمل درآمد کرے اور باقی صوبے اُسے کوئی اہمیت ہی نہ دیں۔ہماری افواج نے تو اپنے حصے کاکام تقریباً 80 فیصد تک مکمل کر لیا ہے لیکن سول حکومت کے ذمے جوکام لگایا گیا تھا وہ ابھی تک پورا نہیں ہو پایا ہے۔پنجاب سمیت ہر صوبے کی حکومت نے اِس ضمن میں کوتاہی اورغفلت کی مرتکب ہوئی ہے۔
ہمیں اگر واقعی اپنے ملک سے دہشتگردی کے خاتمے کو یقینی بنانا ہے توہر ایک کو انتہائی نیک نیتی،زبردست محنت اور جانفشانی سے یہ کام سرانجام دینا ہوگابصورتِ دیگر گزشتہ دوسالوں کی تمام کامیابیوں اور کامرانیوں کو ضایع کرکے ہم ایک بار پھر دہشتگردی کی تباہ کاریوں کے چنگل میں پھنس جائیں گے اور پھ'' سی پیک'' جیسے عظیم منصوبے کے ثمرات سمیٹنے اور بیرونی سرمایہ کاری کا ہماراخواب ایک بار پھر ادھورا رہ ہی رہ جائے گا۔