کچھ فرض ہمارا بھی ہے
تعلیم یافتہ ٹریفک وارڈنز کی بھرتی سے حالات میں کچھ نہ کچھ بہتری تو آئی ہے
ابھی ابھی فیس بک پر برادرم جاوید چوہدری کے ٹی وی پروگرام کا کچھ حصہ نظر سے گزرا جس میں وہ بتارہے تھے کہ کس طرح حاکمان وقت کی سواری کو ان کی مرضی کے مطابق صاف رستہ نہ ملنے پر ایس پی کی سطح کے دو افسران کو معطل کردیا گیا ہے جب کہ عوام سے متعلق ہزارہا واقعات کے باوجود آج تک کسی سینئر پولیس افسر کو معطل نہیں کیا گیا یعنی حاکم طبقے کے نزدیک پولیس کا محکمہ صرف ان کی خدمت گزاری کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ اسی سے منسلک یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ فی الوقت ہزاروں پولیس اہل کار تھانوں کے بجائے وی آئی پیز کی ڈیوٹیاں کررہے ہیں۔ بات کو آگے بڑھانے سے پیشتر انور مسعود کا ایک قطعہ بھی دیکھتے چلیے
مریض کتنے تڑپتے ہیں ایمبولینسوں میں
اور ان کا حال ہے ایسا کہ مرنے والے ہیں
مگر پولس نے ٹریفک کو روک رکھا ہے
یہاں سے قوم کے خادم گزرنے والے ہیں
مجھے ذاتی طور پر امریکا اور برطانیہ سمیت دنیا کے تقریباً 26 ملکوں کی ٹریفک پولیس کو دیکھنے کا موقع ملا ہے مگر کہیں بھی اسے نام نہاد وی آئی پیز کی اس طرح سے خدمت گزاری کرتے نہیں پایا جس کا مظاہرہ ہمارے یہاں ایک روزمرہ کی بات ہے۔
لندن کی بیشتر سڑکیں خاصی تنگ اور انتہائی مصروف ہیں لیکن ایک تو وہاں کے وی آئی پیز کی فہرست بہت مختصر ہے اور دوسرے ان کی آمدورفت کا انتظام ایسی خوش اسلوبی سے کیا جاتا ہے کہ اول تو انھیں چلتی ٹریفک میں سے گزارا جاتا ہے یا پھر ٹریفک کو اتنے کم عرصے کے لیے روکا جاتا ہے کہ اکثر اوقات رکنے والوں کو پتہ بھی نہیں چلتا اور رستہ پھر سے صاف ہوجاتا ہے۔
نسبتاً کم ترقی یافتہ یا پسماندہ ممالک میں ایک تو یوں بھی ٹریفک کا دباؤ سڑکوں کی استطاعت سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس پر وی آئی پی موومنٹ کی آڑ میں آدھ آدھ گھنٹہ چاروں طرف کی ٹریفک روک دی جاتی ہے اور یوں وی آئی پیز کے ساتھ تو پندرہ بیس گاڑیاں ہی گزرتی ہیں لیکن ان کے پیچھے برا بھلا کہنے والوں کی اتنی بڑی تعداد چلتی ہے جس کا شمار بھی شائد ممکن نہ ہوسکے۔
میں نے کئی بار ٹریفک پولیس کے افسران سے شاہ سے زیادہ شاہ کی اس وفاداری کی وجہ پوچھی ہے وہ اس کا سبب سیکیورٹی پروسیجرز بتاتے ہیں جن پر عمل کرنا ان کی ملازمت کا حصہ ہے۔ کبھی کبھار یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ کسی وی وی آئی پی نے کوئی عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ اعلان کیا ہے کہ اس کے لیے اسی روایتی اور شرمناک پروٹوکول کا اہتمام نہ کیا جائے مگر واقفان حال کا بیان ہے کہ چندہی دنوں میں مختلف حوالوں سے اسے اپنے الفاظ واپس لینے پر یا تو مجبور کردیا جاتا ہے یا خود اسے اپنی کہی ہوئی بات یاد نہیں رہتی۔
دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہماری سڑکوں پر چلنے والی بیشتر گاڑیوں، ٹرالوں، بسوں اور موٹر سائیکلوں کے ڈرائیور ٹریفک سینس سے عاری اور قوانین سے نابلد ہوتے ہیں اور ان میں سے بیشتر کے پاس یا تو سرے سے ڈرائیونگ لائسنس ہوتا ہی نہیں یا پھر یہ کسی زور یا زر کی طاقت کے باعث کسی ڈرائیونگ ٹیسٹ کو پاس کیے بغیر ان تک پہنچ جاتا ہے۔ ایسی گاڑیوں کے بیشتر مالک یا تو خود پولیس کے محکمے سے تعلق رکھتے ہیں یا پھر اس قدر اثرورسوخ کے حامل ہوتے ہیں کہ اگر چالان کٹ بھی جائے تب بھی ان کے ایک فون سے معاملہ حل ہوجاتا ہے۔
خبر گرم لایا ہوں رومی
چور، چوروں کے ہاتھ کاٹیں گے
تعلیم یافتہ ٹریفک وارڈنز کی بھرتی سے حالات میں کچھ نہ کچھ بہتری تو آئی ہے مگر اس کا دائرہ صرف چند بڑے شہروں کی کچھ سڑکوں تک محدود ہے لیکن جہاں وی آئی پی کلچر کا تعلق ہے وہاں اب بھی قانون اور انسانیت ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
اب رہی شہریوں کے جان و مال کی حفاظت اور قانون کی پاسداری کے حوالے سے جرائم پیشہ، تخریب کار اور دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے والی پولیس فورس کی بات جس کا تعلق ''تھانہ کلچر'' سے ہے تو بلاشبہ اس محکمے میں سرکار کے زیر انتظام چلنے والے تمام شعبوں کی جملہ برائیاں موجود ہیں مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تمام تر خرابیوں کے باوجود اس شعبے میں بہادر، ایماندار اور فرض شناس لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اب بھی موجود ہے۔
ان کو دی گئی سہولیات اور ان کی ڈیوٹی کے اوقات، نوعیت اور خطرات کو سامنے رکھیے تو یہ دیکھ کر بہت خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح یہ لوگ انتہائی نامساعد حالات میں بھی نہ صرف ڈیوٹی دیتے ہیں بلکہ ہمہ وقت اپنی جان کو داؤ پر لگا کر رکھتے ہیں۔ نہ صرف یہ دہشت گردوں کے سامنے پہلی حفاظتی دیوار کا کام کرتے ہیں بلکہ ان کی نسبت بہت پرانے اور غیر معیاری ہتھیاروں سے ان کا مقابلہ بھی کرتے ہیں۔ حکومتی مشینری کا آلہ کار ہونے کے باعث انھیں عوامی نفرت کا تو سامنا کرنا ہی پڑتا ہے لیکن دوسری طرف حاکمان وقت بھی ان سے جانوروں جیسا سلوک کرتے ہیں۔
ان سے ذاتی ملازموں کی طرح کام تو لیتے ہیں مگر نہ تو ان کے حقیقی اور جائزمسائل کی طرف توجہ دی جاتی ہے اور نہ ہی نیک، اچھے اور فرض شناس لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جب کہ بحیثیت مجموعی ان کی Capacity Building کے بجائے انھیں اس قدر Frustrate کیا جاتا ہے کہ یہ اپنی طاقت کو غیر قانونی طور پر استعمال کرکے رشوت اور لوٹ کھسوٹ کے ذریعے عوام کی زندگی کو مزید مشکل بناتے چلے جائیں۔
سو ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی تربیت کو بہت بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ انھیں ایک بہتر معیار زندگی دیا جائے تاکہ ان کی توجہ ذاتی کے بجائے امن عامہ کے مسائل کی طرف رہے۔ انھیں ہر طرح کے خارجی اور سیاسی دباؤ سے آزاد ہوکر کام کرنے کا موقع دیا جائے اور ان کی فرض شناسی اور جانی قربانیوں کی اسی طرح سے عزت اور تعظیم کی جائے جیسی سیکیورٹی کے دیگر اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد کو حاصل ہے۔
ڈیوٹی کے دوران شہادت پانے یا معذور ہوجانے والوں یا ان کے لواحقین کو دی جانے والی مالی امداد اپنی جگہ مگر جیتے جی بھی ان کو وہ آسانیاں ملنی چاہئیں جو ان کا جائز حق ہیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ان سے صرف وہ کام لیا جائے جو قانون کے تحت ان کے فرائض میں شامل ہے۔ بصورت دیگر وہی ہوگا جو عام طورپر دیکھنے میں آتا ہے۔ پولیس کا فرض دس فیصد خواص کی تابعداری نہیں بلکہ 90% عوام کی مدد اور خدمت ہے۔ سو انھیں یہی کام کرنے دیجیے۔ یہ لوگ کوئی غیر نہیں، ہمارے ہی ہم وطن، ساتھی اور دست و بازو ہیں۔