قائداعظم یونیورسٹی جہاں پائلٹ نہیں جہاز بنتے ہیں

شہراقتدار کے بااختیار اگر پانامہ نااہلی، تیرا چور میرا چورکے جھگڑوں سے نکل گئے ہوں تو قوم کے مستقبل کیجانب نظر دوڑالیں


تحقیقی اور تخلیقی صلاحیتوں میں ابھی بھی اس جامعہ کے مقابلے میں کوئی دوسری جامعہ نہیں آسکی، مگر یہ یونیورسٹی ایک مقابلہ ہار گئی ہے اور وہ ہے اپنے طلبہ وطالبات کی ملی یکجہتی اور اخلاقیات کا مقابلہ۔

''جس کو حکمت ملی اُسے درحقیقت بڑی دولت مل گئی''

قرآن پاک کی اس آیتِ مبارکہ کے تحت اِس یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یہ تاریخی یونیورسٹی 1969ء کو قائم کی گئی۔ اِس یونیورسٹی میں حکمت کی تلاش میں جانے کا جی چاہا تو میں داخل ہوگیا، مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہی تنومند، ہٹے کٹے جسم کے مالک ایک کڑیل نوجوان سے مُڈبھیڑ ہوئی، بعد میں معلوم ہوا کہ موصوف یہاں پر سیکیورٹی کی ذمہ داریاں سر انجام دے رہے ہیں۔

خوبصورت سبزے نے یونیورسٹی کو گھیرا ہوا تھا، یوں محسوس ہورہا تھا جیسے اس جامعہ سے خزاں کا گزر نہیں ہوا۔ چند قدم چلنے کے بعد اسلام آباد کے ٹھنڈے موسم میں سورج کی تپش سے حرارت کا کچھ انتظام کرنے کا ارادہ کیا۔ ابھی گھاس پر نیم دراز ہوا ہی تھا کہ سگریٹ کے چند بچے ہوئے ٹکڑوں پر نظر پڑی، ایک وقت کو خیال آیا کہ تعلیمی اداروں میں سگریٹ نوشی تو ممنوع ہے تو پھر یہاں سگریٹ کا کیا کام؟ انہی سوچوں میں مگن تھا کہ تین خُوبرو طالبات ہاتھوں میں سگریٹ پکڑے بالوں کو جھٹکے دیتے ہوئے لان کی طرف آتی دکھائی دیں۔ پہلے تو آنکھوں پر یقین نہیں آیا لیکن دو چار دفعہ دونوں ہاتھوں سے آنکھیں مل کر دیکھا تو واقعی وہ سگریٹ کے دھویں کو ہوا میں اڑاتے ہوئے آرہیں تھیں۔ خیر خواتین کو میں کم و بیش ہی غور سے دیکھتا ہوں، حیرت کے سمندر میں غلطاں میں کیفے ٹیریا کی جانب چل پڑا۔

 

مجھے اِس یونیورسٹی کے بارے میں جاننا تھا، شہرِ اقتدار میں اعلیٰ تعلیمی ادارہ کچھ عرصے سے میڈیا کی خبروں میں تھا۔ سوچا کچھ معلومات حاصل کرلوں۔ 19 تدریسی عمارتوں اور 1700 ایکڑ پر پھیلی ہوئی اِس یونیورسٹی میں چار فیکلیٹیز ہیں۔ فکلیٹی آف نیچرل سائنس، فیکلٹی آف بیالوجیکل سائنس، فیکلٹی آف سوشل سائنس اور فیکلٹی آف میڈیسن جبکہ دیگر نو انسٹیوٹس اور کالجز سینٹر فار جینڈر اسٹڈیز، نیشنل انسٹیٹوٹ فار پاکستان اسٹڈیز، نیشنل انسٹیٹوٹ آف سائیکالوجی، نیشنل انسٹیٹوٹ آف ہسٹریکل اینڈ کلچر ریسرچ، نیشنل انسٹیٹویٹ آف ایشین سویلائزیشنز اور کمپیوٹر سینٹر قائم ہیں۔ اِس کے علاوہ 15 سے زائد کالجز کا اِس یونیورسٹی سے الحاق ہے۔ طلبہ کے لئے سات جبکہ طالبات کے لئے تین ہاسٹلز بھی موجود ہیں۔ اِس یونیورسٹی کے ریگولر طلبہ وطالبات کی تعداد 5500 ہے۔

ویسے تو اس عظیم یونیورسٹی کو عالمی اور قومی سطح پر تدریسی معیار کی وجہ سے ایک ممتاز مقام حاصل ہے مگر گزشتہ چند ماہ سے منشیات فروشی، طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کئے جانے اور طلبہ کے درمیان لسانی بنیادوں پر ہونے والے جھگڑوں نے اِس دانش گاہِ حکمت پر وہ بدنما دھبے لگائے ہیں، جس کو بھلانا مشکل ہے۔ اِس جامعہ کی چیخیں اسمبلی میں بھی سنائی دی گئیں مگر پانامہ کے ہنگاموں اور نااہلی کی رسہ کشی میں اِس کی چیخیں سسکیوں میں بدلتے بدلتے کہیں گُم سی ہوگئیں۔ کیفے ٹیریا میں سگریٹ کے بادل اُڑاتے طلبہ وطالبات سے جب میں نے گفتگو کا آغاز کیا تو اُن کا کہنا تھا کہ قائداعظم یونیورسٹی کو لسانی بنیادوں پر بننے والی کونسلز نے جنگ کا میدان بنا رکھا ہے۔ آئے دِن لسانی تنظیموں کی طرف سے یونیورسٹی پر قبضے کی سوچ نے تعلیمی ماحول کو تباہ کر رکھا ہے۔

یونیورسٹی میں لسانی تنظیمیں عرصہِ دراز سے عام طلبہ کو زد و کوب کررہی ہیں جن کی متعدد بار شکایت درج کروانے کے باوجود تاحال کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ منشیات کی سپلائی انہی تنظیموں کی جانب سے اپنے اخراجات چلانے کے لئے کی جارہی ہے۔ روکنا ہے تو یونیورسٹی میں قبضہ کی سوچ کو روکنے کی کوشش کی جانی چاہیئے۔ سندھی طلبہ جنوری کی سرد راتوں میں یونیورسٹی کے باہر فُٹ پاتھ پر دس دن تک سوئے رہے۔ یونیورسٹی لسانی بنیادوں پر جھگڑوں کے باعث ایک ہفتے تک بند رہی، طلبہ وطالبات نے الزام عائد کیا کہ لسانی تنظیمیں یونیورسٹی میں منشیات کے اڈے چلا رہی ہیں جس کی وجہ سے تعلیمی ادارے میں طلبہ کی بہت بڑی تعداد نشے کی لت میں مبتلا ہوچکی ہے۔ قائداعظم یونیورسٹی میں لسانی تنظیمیں منشیات فروشوں کے زیرِ سایہ پاکستان مخالف سوچ کو تقویت دے رہی ہیں۔ ہم حکومتی اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اِس بات کا سختی سے نوٹس لے کر اِن کونسلز کے خلاف کارروائی کی جائے۔

یونیورسٹی میں پُرامن ماحول کے لئے ضروری ہے کہ لسانی تنظیموں پر پابندی عائد کی جائے۔ اِن دنیا و مافیا سے بے خبر طلبہ و طالبات کی گفتگو مجھے ایک ماہ پیچھے لے گئی۔ قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے فیڈرل ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ٹریننگ کا اجلاس ڈاکٹر امیر اللہ مروت کی زیر صدارت یونیورسٹی میں ہوا جس میں بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ممنوعہ اشیاء کی خرید و فروخت کے علاوہ کیمپس میں جوئے کی لت بھی بڑھتی جارہی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ کمروں میں بیہودہ تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے، جہاں پر منشیات اور شراب نوشی آزادی کے ساتھ کی جاتی ہے اور اِس حوالے سے کئی بار پولیس کو اطلاع دی اور کارروائی بھی عمل میں لائی گئی، مگر اگلی ہی صبح تمام افراد رہا ہوجاتے ہیں۔

یونیورسٹی کے ایک اہم ذمہ دار نے بتایا کہ یونیورسٹی کے ملازمین بھی اِس مکروہ کاروبار میں ملوث ہیں، 200 گارڈز کی موجودگی کے باوجود انتظامیہ اِسے روکنے میں ناکام ہے۔ انہوں نے دبے الفاظ میں کہا کہ ممکنہ طور پر ایسے عناصر کی پشت پناہی کچھ بااثر افراد کررہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اِن سب کے علاوہ کچھ غیر متعلقہ لوگ بھی ہاسٹلز کے کمروں میں رہائش اختیار کئے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر صاحب نے بھی منشیات فروشوں اور طلبہ و طالبات میں منشیات کی لت کے سامنے بے بسی کا اظہار کردیا ہے، جبکہ یونیورسٹی کے ڈین وسیم احمد نے انکشاف کیا کہ یونیورسٹی میں نشہ آور اشیاء ہاسٹلز میں براہِ راست پہنچادی جاتی ہیں، یعنی پیزا ڈیلیوری کی طرح نشہ آور اشیاء کی بھی فری ڈیلیوری کی سہولت موجود ہے۔ قائداعظم یونیورسٹی کی عمارات، ہاسٹلز، پُر فضا لان مجھے بار بار رکنے کا کہہ رہے تھے مگر مجھے چلتے چلتے یہ خبر بھی ملی کہ یونیورسٹی کی 2 سو ایکڑ سے زائد اراضی پر قبضہ مافیا کا راج ہے، جس کو سی ڈی اے انتظامیہ چھڑوا سکی ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ میں اِس کی گونج سنائی دی، تاہم عدالتِ عالیہ نے نوٹس بھیج کر متعلقہ حکام اور اداروں سے جواب طلب کیا ہے جس کے ردِعمل میں تاحال دونوں جانب سے ایک طویل خاموشی ہے۔

نشے میں دُھت طلبہ وطالبات کو دیکھ کر میں دُکھی تو ہوا ہوں لیکن اُمید ابھی باقی ہے۔ تحقیقی اور تخلیقی صلاحیتوں میں ابھی بھی اس جامعہ کے مقابلے میں کوئی دوسری جامعہ نہیں آسکی، مگر یہ یونیورسٹی ایک مقابلہ ہار گئی ہے اور وہ ہے اپنے طلبہ وطالبات کی ملی یکجہتی اور اخلاقیات کا مقابلہ۔ شہرِ اقتدار کے بااختیار اگر پانامہ نااہلی، تیرا چور میرا چور کے جھگڑوں سے نکل گئے ہوں تو قوم کے مستقبل کی جانب نظر دوڑا لیں، ورنہ ہمیں تعلیمی اداروں سے پائلٹ نہیں جہاز ملیں گے۔

یونیورسٹی سے نکلتے ہی میرے سامنے فیصل مسجد، پارلیمنٹ ہاوس اور سپریم کورٹ کی عمارتیں تھیں۔ میں اِن قلعہ بند عمارتوں کے مکینوں سے کچھ کہنا چاہتا تھا مگر شاید جلے ہوئے سگریٹ کے دھویں کی طرح میرے خیالات بھی منتشر ہوگئے تھے۔ مین روڈ سے ٹیکسی لی اور فیض آباد کے بس اسٹینڈ پر آگیا کیوںکہ اب میرا اِس شہر میں رہنے کو جی نہیں کر رہا تھا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں