شہر کراچی
سمندروں کے عیال تھامے، مختلف زباں و نسل، فرقے و مذاہب، زباں و رنگ کے لوگ اس کے باسی ہیں۔
لگ بھگ بیس سال ہونے کو آئے مجھے کراچی میں، اس سے پہلے دس سال کے قریب اسلام آباد میں گزارے۔ شاہراہوں پر میری گاڑی اڑتی تھی۔ ترتیب تھی، سمت تھی، خواہ کتنا ہی اسلام آباد ہموار نہیں تھا۔ پہاڑ و میدان کا سنگم ہے یہ شہر۔ یوں تو اسلام آباد بھی وہ نہیں رہا جو کہ تھا، اب تو وہاں پر بھی راستوں پر لمبی لمبی قطاریں، ٹریفک جام کے مسائل رہتے ہیں۔ لیکن پاکستان کی تاریخ کا جتنا بدنصیب شہر کراچی ہے، شاید ہی کوئی ہو۔
سمندروں کے عیال تھامے، مختلف زباں و نسل، فرقے و مذاہب، زباں و رنگ کے لوگ اس کے باسی ہیں۔ جتنا وشال یہ شہر ہے جو آئے وہ پائے، یہاں روزگار، نہ کوئی اجنبیت کا احساس، نہ کبھی یہ شہر چھوڑنے کا گماں۔ شاید ہی کوئی ایسا شہر ہو اِس مملکت خداداد کا۔ وفاق کی تجوری میں سب سے زیادہ سکے بھی یہ ڈالے، سب سے زیادہ ہنرمند یہاں کے شہری ہیں، مگر پاکستان کی دو بڑی طاقتیں اسٹیبلشمنٹ اور جمہوریت کے نام پر بنی حکومتوں کو اس شہر کی پرواہ ہی نہیں۔ اسے کہتے ہیں Locus of power)) وہ بھی ایک ایسا ملک جہاں انصاف و عدل صرف کتابوں میں محفوظ ہے۔
جنرل مشرف یہاں کے تھے، لیاقت علی خان کے بعد دوسری مرتبہ تھا کہ کراچی کو اقتدار حد سے زیادہ ملا۔ ہوا کیا؟ سب اڑ گیا۔ اس سے کراچی کو کچھ حاصل نہ ہوا، سوائے ایک مخصوص طبقے کے۔ جس طرحNFC میں سندھ کو اب بھی اتنا نہیں میسر، لیکن ماضی کے مقابلے میں بہت کچھ۔ اس کے بعد بھی سندھ کے لوگوں کی تقدیر تبدیل نہ ہوئی، فقط ایک مخصوص ٹولے کی چاندی سنور گئی۔ اتنی گھمبیر ہے اس ملک کی سیاست کہ اس ملک کی شرح نمو جو کہ ہندوستان کی طرح 7 فیصد ہونی چاہیے تھی، وہ نہ ہوسکی۔
مجھے یاد ہے وہ زمانہ کہ کراچی میں، میں نے ٹرام چلتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھے اور ڈبل ڈیکر بسیں بھی، جو کہ اب تک لندن میں چلتی ہیں۔ خدا نہ کرے کہ اس شہر میں کوئی VIP آجائے گھنٹوں گھنٹوں، میلوں میلوں گاڑیوں کی طویل قطاریں، آدمی اگر پیدل چلے تو گھر پہلے پہنچ جائے، یا پھر اسکوٹر رکھے۔ جس طرح لاڑکانہ گدھا گاڑیوں کا شہر ہے، اسی طرح کراچی اب اسکوٹروں کا شہر ہے۔
پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی وجود ہی نہیں، اگر اکا دکا آپ کو مل ہی جائیں، اتنی بدحال وہ بسیں ہوتی ہیں کہ صرف ان میں بوریاں لاد دی جائیں تو بہتر ہیں۔ بہت ہی مفلس لوگوں کی سواری ہے یہ پبلک ٹرانسپورٹ، اور وہ بھی دن بدن سکڑتی جائے، جب کہ آبادی دن بدن بڑھتی جائے۔ اتنی بڑھتی جائے کہ شاید ہی کسی اور شہر میں ہو۔ جتنے زیادہ گھر ہوں گے اس شہر میں، اتنی ہی گاڑیاں ہوں گی اور اسکوٹروں، سائیکلوں کو بھی خاطر میں لیا جائے تو پھر یوں کہیے کہ ہر فرد کے پاس اپنی سواری ہے۔
دو کروڑ کی آبادی کے اس شہر میں، ایک کروڑ مختلف سواریاں۔ تو یہ آدمیوں کا شہر ہے یا اسکوٹروں، سائیکلوں، گاڑیوں کا؟ اور اس کے اوپر پھر اس شہر کے اندر ایک ٹرانسپورٹ مافیا بھی ہے جو راہ چلتے ہوئے کسی بھی فرد کے اوپر چڑھ سکتی ہے اور بیچارہ FIR کٹوانے سے بھی گیا۔ جتنے بھی اس شہر کے تھانے ہیں، چرس و گانجا بیچنے والوں کے علاوہ مستقل مزاجی سے اگر کوئی ان کو پیسے پہنچاتا ہے تو وہ ٹرانسپورٹ مافیا ہے۔
آپ اپنے گھروں میں رہیں یا دفاتر میں بیٹھیں، کھڑکی کھولیں کہ کوئی باہر کی ہوا آپ کو میسر ہو تو اس سے پہلے شور و ہنگامہ آپ کے کانوں میں چیرتا ہوا اترتا ہے۔ یہاں نہ کوئی اورنج بس ہے، نہ ٹرام، نہ سرکلر ریل، پانی کی فراہمی اتنی بدحال، کہ یہاں پر ٹریفک مافیا کے علاوہ ایک اور مافیا ہے اور وہ ہے ٹینکر مافیا۔
اور کچھ مافیائیں مر بھی گئیں، کلاشنکوفوں، بوری میں بند لاشوں، ٹیلیفونک خطابوں سے جان تو چھوٹی، مگر اب بھی اس شہر کی سیاسی سمت پر طرح طرح کے سوالیہ نشان ہیں۔ کوئی بیچے تو کیا بیچے، مہاجروں کو فلسفہ بیچے یا مذہبوں کا کاروبار کرے۔ یہاں پر لیاری بھی ہوتا ہے جہاں آدمی سے آدمی بھرا ہوا ہے۔ یہ اس شہر کی قدیم بستی ہے۔ اس علاقے کے باشندے بھٹو کے شیدائی تھے۔ وہ بھی اس نام پر لٹ گئے۔
اگر آپ 80 کی دہائی میں جائیں تو اس شہر سے بڑا پاکستان کا کوئی شہر نہ تھا، خواہ وہ انفرااسٹرکچر کے اس علاقے کے حوالے سے ہو، صنعتی پیداوار ہو یا تعلیم و ہنر کے حوالے سے۔ اور اگر 70 کی دہائی میں جائیں تو کمال تھا یہ شہر کہ جیسے کوئی جمال ہو۔ کھلا ہوا یہ شہر، آسمانوں سے باتیں کرتا ہوا یہ شہر۔ زلفوں اور گیسوؤں، چوڑی دار پاجامے، بڑے بڑے بالوں والے نوجوان، ڈرین پائپ پتلون اوڑھے، بش شرٹ پہنے، ویسپاؤں اور ففٹی اسکوٹروں پر رواں دواں، فقط کراچی یونیورسٹی ہی تو تھی اس وقت، جب الطاف بھائی بھی ففٹی اسکوٹر پر چل کر آتے تھے اور میرے دوست حاصل بزنجو بھی اور کئی اہلِ سخن، اہلِ ادب، انقلاب کے متوالے، سبط حسن جیسے دانشور بھی۔
کتنے سارے سارے خیالات و افکار تھے، اس زمانے میں قہوہ خانے تھے، چوراہے تھے، آدمیت پرستی تھی، ادارے تھے کہ ہمارے کراچی ایئرپورٹ کی وہ حیثیت تھی جو کہ اب دبئی ایئرپورٹ کی ہے۔ دنیا کے اْس اَور سے اِس اَور جانے کے لیے کئی سرائے تھے۔ ان دنوں نہ ٹینکر مافیا تھی، نہ ٹرانسپورٹ مافیا، نہ اتنے مدارس تھے، نہ اتنی نفرتیں بیچنے والے۔ سب خوش ہیں کہ کراچی اپنے اندر، اپنے آپ سے گتھم گتھا ہو، اسے یہ خبر بھی نہ ہو اس کا کتنا کچھ کوئی اور لوٹ کر چلا جاتا ہے۔ وہ جو وفاق کی تجوری میں کروڑوں اربوں دیتا ہے، اسے اس کے عیوض ملتی کوڑیاں ہیں۔
جمہوریت آئے تو وڈیروں کی حکومت، جِن کو اس شہر سے کوئی سروکار نہیں کہ یہ شہر ان کو ووٹ نہیں دیتا۔ جو انھیں ووٹ دیتے ہیں، ان کو اِن کی پرواہ نہیں۔ اور اگر آئے آمریت تو مخصوص یہ ٹولہ اپنے ووٹروں کو یہ باور کراتا ہے کہ وڈیروں کی جمہوریت سے لانگ بوٹوں کی غلامی بہتر ہے۔
حقیقت کیا ہے اس کے برعکس۔ کراچی کا بیانیہ یہ ہے کراچی کو اپنا یہ بیانیہ ڈس گیا ہے۔ میں جب کراچی شہر سے جامشورہ سے گزر کے سیہون جارہا تھا، راستے میں موٹر وے آیا، وہ بھی کسی ستم سے کم نہیں تھا۔ ابھی بن کر مکمل ہوا نہیں ہے کہ انھوں نے120/= روپیہ فی گاڑی لینا شروع کر دیا ہے۔ گھنٹوں گھنٹوں ٹریفک جام۔ کوئی متبادل راستہ نہیں۔ یہ کوئی لاہور اور پِنڈی کے درمیان چلتا ہوا موٹر وے نہیں جو بالکل نیا نیا بنایا گیا تھا، وفاق کی تجوریوں سے پیسے نکال کر۔ یہ تو صدر ایوب کے زمانے کا بنا ہوا اس ملک کی شاہکار ترین شاہراہ سپرہائی وے تھا، جس کو بہتر کرکے موٹر وے کا نام دیا گیا ہے۔
یوں کہیے کہ انفرااسٹرکچر ملے تو بھی مصیبت اور نہ ملے تو بھی مصیبت۔ ہماری مظلومیت اگر آپ نے دیکھنی ہے تو ذرا غالب سے رجوع کیجیے۔
ظلمت کدے میں میرے شب غم کا جوش ہے
اک شمع تھی دلیل سحر، سو وہ بھی خموش ہے