دو کہانی کاروں کی ملتی جلتی کہانیاں تیسرا اور آخری حصہ
ایک دن ساری حقیقت جب کھل کر سامنے عیاں ہوگئی تو سید نور کو صائمہ سے اپنی شادی کا اعلان کرنا پڑا
جس طرح جاویداخترکی زندگی میں دوسری بیوی بن کے شبانہ اعظمی داخل ہوگئی تھی۔ اسی طرح سید نور کی زندگی میں اداکارہ صائمہ چپکے چپکے آ دھمکی تھی جب اس کا علم رخسانہ نورکو ہوا تھا تو سید نور نے صاف انکار کردیا تھا کہ یہ تعلقات ایک اداکارہ اور ایک ہدایت کارکے درمیان ہیں اور اس قربت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ مگر وہ جو کہتے ہیں کہ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتا۔
ایک دن ساری حقیقت جب کھل کر سامنے عیاں ہوگئی تو سید نور کو صائمہ سے اپنی شادی کا اعلان کرنا پڑا۔میرے خیال میں صائمہ ایک اچھی اداکارہ ہونے کے باوجود کبھی انجمن، آسیہ، شمیم آرا، بابرا شریف اورشبنم کے معیارکی ہیروئن نہیں رہی مگر ان دنوں اردو اورپنجابی فلموں میں خوب چمک رہی تھی۔اور یہ چمک ہی رخسانہ نورکے راستے کا اندھیرا بن گئی تھی، مگر جاوید اختر کی دوسری بیوی شبانہ اعظمی کی ایک جداگانہ شخصیت تھی اور یہ منفرد کردار نگاری میں اپنا جواب نہیں رکھتی تھی۔
یہ ایک عظیم فنکارہ کی بیٹی تھی اورایک نامور شاعرکی صاحبزادی تھی۔کیفی اعظمی اس کے والد اور والدہ شوکت اعظمی تھیں ۔ شوکت اعظمی اپنے دورکی نامور اسٹیج آرٹسٹ تھیں یہ ان دنوں کی بات ہے جب شوکت اعظمی پرتھوی تھیٹر میں کام کرتی تھیں اور ان کے شوہر کیفی اعظمی ایک نامور شاعر تو تھے مگر وہ ہندوستان میں ترقی پسند تحریک کے ہراول دستے میں شامل تھے اورکٹر قسم کے کمیونسٹ تھے اوران کے ڈانڈے سوویت یونین سے بھی ملتے تھے۔
ہندوستان میں ان دنوں اکثروبیشتر کمیونسٹ لوگوں کی پکڑدھکڑ لگی رہتی تھی اور کیفی اعظمی بطور شاعرآمدنی کے اعتبار سے بھی بڑے ہی کمزور تھے گھرکے اخراجات کا زیادہ تر بوجھ ان کی بیوی شوکت اعظمی کے کاندھوں پر ہوتا تھا اور شوکت اعظمی اسٹیج پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ آل انڈیا ریڈیو سے بھی پروگرام کیا کرتی تھیں اور اس طرح وہ اپنے گھر کے اخراجات پورے کرنے میں ہمہ وقت کچھ نہ کچھ کرتی رہتی تھیں۔
ان خستہ حالات کے باوجود بھی شبانہ اعظمی کو انھوں نے اس دورکے انگریزی اسکول میں تعلیم دلوائی، شبانہ کو اپنے گھرکے حالات دیکھ کر اور اپنے شاعر والدکی شخصیت سے کوئی زیادہ لگاؤ نہیں تھا، وہ ایک شاعرکو بے کار انسان سمجھتی تھی۔ مگر جب اس نے انگریزی شاعری پڑھی اور شیلے، کیٹس، ولیم ورڈزورتھ کو پڑھا تو اسے شدت کے ساتھ احساس ہوا کہ اس کے شاعر والد کی کیا اہمیت ہے اور اسے یہ پتا چلا کہ شاعر کی کیا شخصیت اور عظمت ہوتی ہے یہ الگ بات تھی کہ ان دنوں کیفی اعظمی نامساعد حالات کا شکار تھے اوراس کی وجہ ملک کے حالات اور والد کا کمیونسٹ پارٹی کی طرف جھکاؤ تھا۔
شبانہ کو جیسے جیسے شعور آتا گیا وہ فنون لطیفہ کی اہمیت سے بھی واقف ہوتی چلی گئی۔اس کو اپنی والدہ کی اداکاری بھی پسند آنے لگی تھی اور والد کی شاعری بھی۔ نوعمری ہی کے زمانے سے شبانہ کو بھی اداکاری سے شوق پیدا ہوگیا تھا۔ایک دن شبانہ نے اپنے والد سے کہا بابا اگر میں بطور اداکارہ اپنے کیریئرکا آغازکرنا چاہوں اور فلموں میں بھی کام کرنا چاہوں توآپ اعتراض تو نہیں کریں گے؟ تو بابا نے ہنس کرکہا تھا تم ایک فنکار والدین کی بیٹی ہو، فن تو تمہارے خون میں شامل ہے۔ تم جس طرح چاہے اپنی زندگی کے فیصلے کرسکتی ہو۔
اسٹیج تو فلم کی ماں ہے اور شبانہ اعظمی کو اپنے والدین کی طرف سے یہ کھلی چھٹی دے دی گئی تھی کہ وہ بااختیار ہے۔ سمجھدار ہے۔ اپنی زندگی کے فیصلے کرنے میں آزاد ہے۔کیا ٹھیک ہے کیا غلط اس کو اس بات کا شعور ہے باپ کا یہ جواب سنا تو شبانہ اعظمی نے اداکاری کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیا۔ابتدا میں شبانہ اعظمی نے اسٹیج آرٹسٹ فاروق شیخ کے ساتھ اسٹیج کیا، اداکاری میں مہارت حاصل کرنے کے لیے فلم انسٹی ٹیوٹ بھی جوائن کیا۔ اسی دوران شبانہ نے اداکارہ جیا بہادری کی فلم ''دشمن'' دیکھی جس میں جیا بہادری کی اداکاری نے اسے بڑا متاثرکیا تھا اور پھر وقت اس کے حق میں ہوتا چلا گیا۔
سب سے پہلے ہدایت کار خواجہ احمد عباس کی فلم ''فاصلہ'' میں اداکری کے جوہر دکھائے پھر آرٹ فلمیں بنانے والے ہدایت کاروں اپرناسین، شیام بینگل اور ستیہ جیت رائے کی فلموں میں کام کرکے اپنے کرداروں کو فلم بینوں سے منوایا ۔ان فلموں میں انتارناد، نشانت اور شیام بینگل کی ''انکور'' میں شبانہ اعظمی کی فنی صلاحیتوں کا سب ہی نے اعتراف کیا۔ پھر ایک فلم ''منڈی'' میں شبانہ اعظمی نے نصیر الدین شاہ اور سمیتا پاٹل کے ساتھ کام کیا اور فلم بینوں سے بڑی داد حاصل کی۔
بعض فلمی حلقوں میں شبانہ اعظمی پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ شبانہ اعظمی بڑے بولڈکردار ادا کرتی ہے مگر شبانہ نے کسی اعتراض کو کوئی اہمیت نہیں دی اور پھر کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ شبانہ اعظمی فلموں کے ساتھ اسٹیج اور ٹیلی ویژن کے لیے بھی کام کرتی رہیں۔ پھر شبانہ اعظمی سوشل ورک سے بھی کافی جڑگئیں، ہندوستان کے محروم طبقے کی آواز بن گئیں۔
اپنے اسی مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے سیاست میں بھی آگئی تھیں۔ ان کی صلاحیتوں اوران کی ذہانت کو سیاست کے میدان میں بھی سبقت حاصل ہوتی چلی گئی اور یہ راجیہ سبھا کی ممبر بھی بن گئیں، اس دوران شبانہ اعظمی کی شاعر و رائٹر جاوید سے ذہنی ہم آہنگی اتنی ہوچکی تھی کہ دونوں ایک دوسرے کی زندگی کا حصہ بن گئے۔ شبانہ اعظمی کا جادو اب اپنے وقت کے جادوگر شاعر جاوید اخترکے ساتھ سر چڑھ گیا تھا۔
شبانہ نے شرط رکھی کہ پہلے وہ دوسری بیوی سے علیحدگی اختیار کرے پھر وہ اس کی زندگی میں آئے گی۔ یہاں شبانہ اعظمی بطور دوسری بیوی جیت گئی اور ہنی ایرانی کا پہلا پیار ہارگیا تھا۔ یہی کہانی پاکستان کے مشہور رائٹر اورڈائریکٹر سید نورکی بھی تھی کہ اس کی پہلی محبت رخسانہ نورکا پیار گہنا گیا تھا اور ایک فلمی ہیروئن صائمہ کی چمک دمک محبت کی بساط پر اپنے نخروں غمزوں کی شہ دے کر سید نور کے دل کو جیت لیا تھا۔ جب کہ شبانہ اعظمی جو برسوں سے محروم طبقوں کی نمایندگی کو اپنا مشن بنائے ہوئے تھی۔
سیاست کے علاوہ وہ ایک سوشل ورکر بھی رہی تھی اس نے اپنی محبت سے ہنی ایرانی کی محبت کا گلہ گھونٹ دیا تھا اور جاوید اختر اداکارہ شبانہ اعظمی کی زلف کا اسیر ہوگیا تھا جب کہ ہنی ایرانی شہد بھری شخصیت جس کا وہ کبھی دیوانہ تھا اب اسے فراموش کرچکا تھا اور جاوید اختر اس اصول پر کاربند تھا کہ انسان کی زندگی میں صرف ایک بار ہی محبت داخل نہیں ہوتی بلکہ زندگی کے سفر میں کسی بھی موڑ پرکوئی دوسری محبت اپنا دامن پھیلا دیتی ہے اور انسان ہر عمر میں محبت کا بھوکا ہوتا ہے اور محبت کی بھوک انسان کی زندگی کے ساتھ ساتھ سفرکرتی رہتی ہے۔
جب اداکارہ صائمہ سے سید نور نے شادی کی اور اس کے دوستوں نے اس سے پوچھا تھا کہ یار! رخسانہ نور میں کیا کمی تھی؟ توسید نور نے یہی کہا تھا رخسانہ میری پہلی محبت تھی اور صائمہ میری دوسری محبت ہے، مگر رخسانہ نور کو سید نور پرکچھ زیادہ ہی بھروسہ تھا۔ مگر سید نور خالص فلمی دنیا کا تھا، وہ سید نور سے بے تحاشا محبت کرتی تھی اور اسے اس بات کی قطعی توقع نہیں تھی کہ سید نور زندگی کے اس موڑ پر اس سے علیحدگی کا راستہ چن لے گا جب اسے اس کی زیادہ ضرورت ہوگی۔
سید نور کی مجبوری کو رخسانہ نور نے بے وفائی کا نام دیا تھا مگر اس نے اپنی زبان پر کبھی حرف شکایت نہ آنے دیا تھا۔لیکن رخسانہ اندر ہی اندر گھلتی جا رہی تھی۔ آہستہ آہستہ شمع کی طرح پگھلتی جا رہی تھی رخسانہ نور کو دکھ اس بات کا تھا کہ جس نورکو اس نے اپنی زندگی سمجھا تھا اس نے ہی اسے اندھیرے کی طرف دھکیل دیا تھا۔ رخسانہ نورکے قریبی حلقوں نے بتایا تھا کہ اسے کینسرکا مرض لاحق ہوگیا ہے جب کہ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ کینسرکا مرض تو دوسرا مرض تھا اور اس کا پہلا مرض اس کے شوہر کی بے اعتنائی اور بے وفائی تھا اور رخسانہ ان دونوں امراض کے ساتھ ہی جلد ہی اس دنیا سے منہ موڑ گئی۔
اب میں آتا ہوں جاوید اختر کی پہلی بیوی ہنی ایرانی کی طرف جس نے جاوید اختر کی بے وفائی کا زہر ہنس کر پی لیا تھا اور اپنی زندگی کے راستے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ جدا کر لیے تھے۔ ہنی ایرانی بھی دوسری بیوی بن کر نہیں رہنا چاہتی تھی۔ وہ ایک بہت ہی حوصلہ مند عورت تھی اس نے زندگی سے کسی طرح بھی ہار نہیں مانی تھی۔ اس نے بوتیک کا بزنس اختیار کرلیا تھا اور اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے بنارسی ساڑھیوں کے بزنس کو بھی فروغ دیا۔ ہنی ایرانی اب بھی ہمت کا پیکر بن کر ایک خوشگوار زندگی گزار رہی ہے اسے نہ محبت کی محرومیوں کا گلہ ہے اور نہ جاوید اختر سے کوئی شکایت ہے۔