’’قبائل ہوں ملت کی وحدت میں گُم‘‘ انضمام یا صوبہ۔۔۔ کیا ہوگا فاٹا کے لیے منصوبہ

مسائل کا شکار اور کالے قوانین میں جکڑے قبائلی علاقے کب رہائی پائیں گے


Naveed Jaan/Rokhan Yousufzai February 26, 2017
 فاٹاکی قسمت کا فیصلہ سوچ سمجھ کر مقامی باشندوں کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے۔ فوٹو : فائل

خیبرپختون خوا سے ملحقہ قبائلی ایجنسیوں کی تعداد سات ہے، جنہیں فاٹا یعنی فیڈرلی ایڈمنسٹریٹڈ ٹرائبل ایریاز'' کہا جاتا ہے، جب کہ کچھ علاقے پراونشلی ایڈمنسٹریڈ ٹرائبل ایریاز ''پاٹا'' کہلاتے ہیں۔

فاٹا کے علاقے 28773 مربع میل پر پھیلے ہوئے ہیں، فاٹا باجوڑ ایجنسی، مومند ایجنسی، خیبرایجنسی، اورکزئی ایجنسی، کرم ایجنسی، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان پر مشتمل ہے۔ ان قبائلی علاقوں میں ملک کے دیگر علاقوں اور صوبوں کی طرح حکومتی قوانین نہیں چلتے، قبائلی علاقے دراصل صدر مملکت یعنی وفاق کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں لیکن صوبے میں یہ اختیارات گورنر کے پاس ہوتے ہیں۔ ایجنسی کا منتظم جو، ضلع کے ڈی سی او کے برابر ہوتا ہے، پولیٹیکل ایجنٹ کہلاتا ہے۔

ماضی میں حکومت برطانیہ نے صوبہ خیبرپختون خوا کے لیے فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کے نام سے قوانین وضع کیے جو عرف عام میں ''ایف سی آر'' کہلاتے ہیں، جس کے تحت فاٹا کی تمام ایجنسیوں اور ایف آر میں دیوانی اور فوجداری مقدمات اور دیگر معاملات کے فیصلے ہوتے ہیں۔ 1893 ء میں ڈیونڈر لائن معاہدے کے بعد ہندوستان پر قابض انگریزحکم رانوں کو صوبہ خیبرپختون خوا اور بلوچستان کے پختون اور بلوچ اقوام پر حکم رانی کے لیے ایک ایسے قانون کی ضرورت تھی جس میں زیادہ سے زیادہ اختیارات انگریز افسران (پولیٹیکل ایجنٹس) کے پاس ہوں۔ اس مقصد کے لیے انگریزوں نے1901ء میں ایف سی آر کے نام سے ایک قانون نافذ کردیا، جس کے چھ ابواب اور 64 سیکشن ہیں۔

مختلف مکاتب فکر کی جانب سے ایف سی آر پر زیادہ تر تنقید اس لیے کی جاتی ہے کہ ایجنسیوں میں تعینات پولیٹیکل ایجنٹس اکثر اوقات ایف سی آر کا غلط استعمال کرتے ہیں اور اس کے ذریعے بے گناہ لوگوں کو تنگ کرتے ہیں۔ انگریز حکمرانوں نے قبائلی علاقوں میں جو انتظامی ڈھانچا مرتب کیا تھا اس نظام کی بدولت برطانوی سام راج کے لیے اپنے گماشتوں کے ذریعے یہاں حکم رانی کرنا ممکن ہوا اور قبائلی عوام کو خودمختاری کے نام پر مغالطے میں رکھ کر فرنگیوں نے دراصل اپنے سام راجی مفادات کو فروغ دیا اور یوں عام قبائلی ایک طویل عرصے تک ایک طاقت ور مفاد پرست گروہ کے یرغمال بنے رہے۔



برطانوی سام راج سے چھٹکارا پانے کے لیے قبائلی عوام نے بے شمار قربانیاں دیں تاکہ ایک آزاد اور خودمختار ملک پاکستان میں ان کے ساتھ بھی دیگر علاقوں کے باشندوں کی طرح سلوک کیا جاسکے۔ قیام پاکستان کے وقت افغانستان سے تاریخی، خونیں، اسلامی اور ثقافتی رشتہ ہونے کے باوجود قبائل نے خود کو پاکستان کا حصہ بنایا، لیکن آزادی ملنے اور پاکستان کے قیام کے بعد بھی ان قربانیوں کے ثمرات قبائلی عوام کو نہ مل سکے اور مختلف ادوار میں کسی نہ کسی وجہ کو بہانہ بنا کر ان علاقوں میں اسی نظام کو برقرار رکھا گیا۔ اتنی طویل مدت گزرنے کے بعد بھی قبائلی عوام ملک کی اقتصادی اور سیاسی ترقی کے فوائد سے مستفید نہ ہوسکے، وجہ اس کی یہ ہے کہ سیاسی عوامل سے انہیں الگ رکھا گیا اور یوں سیاسی عمل میں شرکت سے جو اقتصادی اور معاشرتی فوائد جنم لیتے ہیں ان سے قبائلی محروم رہے۔

امریکا، سعودی عرب اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے مل کر دنیا بھر سے جنگ جوؤں کو فاٹا میں لابسانے اور قبائلی علاقوں کو بیس کیمپ بنانے کا فیصلہ کیا تو بھی قبائل نے ملکی مفاد میں ان لوگوں کو اپنے گھروں میں کیا اپنے دلوں میں بسایا، یہی قبائل ہیں جو گذشتہ 68 سال سے پاکستان کی مغربی سرحد کی حفاظت کررہے ہیں اور مشرقی سرحد کے برعکس کبھی وہاں ایک لاکھ فوج تعینات کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ جب نائن الیون کے بعد پرویز مشرف نے وہاں فوج بجھوانا چاہی تو قبائلی عوام نے فوج کے جوانوں کو ہار اور گل دستے پیش کیے، مگر بقول شاعر

جب پڑا وقت گلستاں پہ تو خون ہم نے دیا
اب بہار آئی تو کہتے ہیں ترا کام نہیں

جب کبھی مادر وطن کی حفاظت یا جہاد کشمیر کے لیے ضرورت پڑتی ہے تو انہیں قبائل کی جنگی صلاحیتوں کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے، لیکن جب انہیں اپنے جائز سماجی اور سیاسی حقوق دینے کا وقت آتا ہے تو پھر انہیں دیگر پاکستانیوں کے برابر نہیں سمجھا جاتا۔ ان علاقوں کے محل وقوع کی دفاعی نوعیت کی بدولت سرد جنگ کے زمانے میں بھی جب سوویت یونین اور مغرب کے مابین مخاصمت عروج پر تھی، ان کا مختلف اور شاید مہذب طریقوں سے استحصال کیا گیا، لیکن اب سرد جنگ کا خاتمہ ہو چکا ہے، دنیا میں گلوبلائزیشن اور علاقائی تعاون کے نظریات فروغ پا رہے ہیں تو ان حالات کا اثر یقیناً قبائلی علاقوں میں موجود نظام پر بھی پڑرہا ہے۔

قبائل کے تعلیم یافتہ طبقے کا ایک بڑا حصہ سیاسی تبدیلی کے لیے متمنی رہا، لیکن ان کی بات نقار خانے میں طوطی کی آواز ہی ٹھہری۔ اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ہمارے حکم رانوں نے قبائل کو ریاست کے وجود کا قانونی، آئینی اور انتظامی حصہ بنانا گوارا نہیں کیا۔ وہ ایک ایسے ظالمانہ قانون کے تحت زندگی گزار رہے ہیں، جس کی مثال آج پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ قبائل اپنے انسانی حقوق کے لیے نہ ہائی کورٹ جاسکتے ہیں اور نہ سپریم کورٹ۔



پاکستان کے موجودہ وزیراعظم میاں نوازشریف نے قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی، جس نے ایک سال میں اپنی سفارشات مرتب کیں، کمیٹی کی سفارشات میں سرفہرست نکتہ فاٹا کو خیبرپختون خوا میں ضم کرنا تھا۔ کمیٹی نے گورنر خیبر پختون خوا سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز سے صلاح مشورے کیے اور فاٹا کو خیبرپختون خوا میں ضم کرنے کے حق میں فیصلہ دیا اور پانچ سال کے عرصے میں اسے مکمل کرنے کے لیے ایک لائحہ عمل بھی ترتیب دیا۔ اس کے علاوہ فاٹا کے منتخب اراکین قومی اسمبلی کا بھی یہی ایک مطالبہ ہے کہ فاٹا کو خیبرپختون خوا میں ضم کیا جائے۔

ان کا یہ مطالبہ ہر لحاظ سے جائز اس لیے ہے کہ قبائلی عوام کی زندگی کا سارا دارومدار کل بھی خیبر پختون خوا پر تھا اور آج بھی ہے۔ چاہے تعلیم ہو، صحت ہو، روزگار اور کاروبار ہو، قبائلی عوام کا انحصار خیبرپختون خوا ہی پر ہے، جب کہ ساتھ ہی صوبے کے بنے بنائے انتظامی ڈھانچے کو قبائلی علاقوں تک بہ آسانی وسعت دی جاسکتی ہے۔ مطلب یہ مذکورہ شعبوں میں فاٹا کا سارا بوجھ ویسے بھی خیبرپختون خوا اٹھاتا ہے اگر اسے صوبے کا حصہ بنایا جائے تو کون سی قیامت آجائے گی؟ لہٰذا قبائلی علاقے کے ڈھانچے کی درستی کے سلسلے میں اگر موجودہ وفاقی حکومت کچھ اقدامات کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو یہ بات ذہن میں ضرور رکھنی چاہیے کہ ان علاقوں میں تبدیلی لانے کے لیے پالیسی سازی میں یہاں کے عوام کی اکثریت کی آواز نہ سنی گئی تو پھر تمام اقدامات بے فائدہ اور بے نتیجہ ہی رہیں گے۔

قانونی لحاظ سے قبائل ایف سی آر کے قانون کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔ اگرچہ اکثر علاقوں کے قبائل خصوصاً نوجوان اب اس قانون کی موجودگی کو ایک آزاد ملک میں اپنے لیے باعث شرم سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ فاٹا کو خیبرپختون خوا میں ضم کیا جائے۔ قبائل کی اکثریت پولیٹیکل ایجنٹ کے مظالم اور اپنے اختیارات سے تجاوز کا رونا روتی ہے۔ ان کی رائے میں اس قسم کا انتظامی ڈھانچا چند افراد کی آمریت کی راہ ہموار کرتا ہے اور یہاں موجود افسر شاہی کے ایک گروہ کے مالی مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔

پولیٹیکل انتظامیہ کے بے تحاشا اختیارات، سول سوسائٹی کے گروپوں کی عدم موجودگی، تعلیم کی کمی اور حالات میں بہتری لانے کے لیے وفاقی حکومت میں حساسیت کا فقدان، وہ اسباب ہیں، جو قبائلی علاقوں کے انتظامی ڈھانچے کو مزید مضبوط کرنے کا سبب بنے رہے ہیں۔ قبائلی علاقے ملک کے پس ماندہ ترین علاقوں میں سے ہیں جہاں فی کس جی ڈی پی باقی سارے ملک کے مقابل میں 50 فی صد سے بھی کم ہے، گذشتہ68 سال میں یہاں کے انفراسٹرکچر کو ترقی دینے اور ملازمت کے مواقع فراہم کرنے کے سلسلے میں بہت کم کوششیں کی گئی ہیں۔

ان علاقوں کی دفاعی لحاظ سے اہم جغرافیائی حیثیت اور ان میں حکومت کی جانب سے شروع کردہ انسداد دہشت گردی کی مہم کی بدولت سماجی و اقتصادی ترقی کے منصوبوں کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے، لیکن یہ سب کچھ تب ممکن ہوگا جب فاٹا کی قسمت کا فیصلہ جلدازجلد کیا جائے اور حکومت اپنی تشکیل کردہ کمیٹی کی سفارشات پر من وعن عمل کرکے دکھائے، کیوں کہ ملک کی اکثر سیاسی جماعتیں اس بات کے حق میں ہیں کہ فاٹا کو خیبرپختون خوا کا حصہ بنایاجائے، اگرچہ اس وقت صرف دو جماعتیں جمعیت علمائے اسلام (ف) اور محمودخان اچکزئی کی جماعت اس کی مخالفت کررہی ہے۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق مولانا فضل الرحمان کی خواہش ہے کہ فاٹا الگ صوبہ بنے تاکہ وہاں پھر ان کی جماعت اقتدار کے مزے لوٹے اور محمود خان اچکزئی اس وجہ سے مخالفت کررہے ہیں کہ فاٹا میں ان کی جماعت کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔ بہرحال اگر وفاقی حکومت اپنی ہی کمیٹی کے فیصلے پر عمل کرتی ہے، جو اخلاقاً اور قانوناً کرنا بھی چاہیے، تو فیصلے کے ساتھ ہی قبائلی علاقوں کے لیے ایک جامع ترقیاتی پروگرام اس امر کا متقاضی ہو گا کہ دیگر حصوں کی مانند اس کے لیے بھی فنڈز نئی مردم شماری کی روشنی میں پھر آبادی کی بنیاد پر مختص کیے جائیں۔

تعلیم کے شعبے میں بھی قبائلی عوام باقی سارے ملک کے مقابلے میں کافی پس ماندہ ہیں، وجہ اس کی یہ ہے کہ ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلباء اور طالبات کو اعلیٰ اور پیشہ ورانہ تعلیم کے اچھے اداروں میں داخلہ لینے میں انتہائی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کا معیار یہاں اس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتا جب تک لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ یونی ورسٹی قائم نہیں کی جاتی۔



قبائلی علاقوں میں صحت کے نظام کی ابتر صورت حال وہاں پر ہونے والی اکثر بے وقت اموات کی ذمے دار ہے۔ اس شعبے کے انفراسٹرکچر کی ابتری کی بدولت زچہ وبچہ کی اموات کی شرح باقی ملک کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔ اس لیے یہاں کے عوام کی ضروریات کے پیش نظر صحت کے شعبے کا ایک مضبوط ڈھانچا بھی تعمیر کرنا ہوگا، اگر اب بھی وزیراعظم میاں نوازشریف نے قبائلی علاقوں کو ملک کا حصہ نہیں بنایا تو انہیں نہ صرف پختونوں کی موجودہ نسل بل کہ آئندہ نسلیں بھی کبھی معاف نہیں کریں گی۔ اگر آج انفارمیشن ٹیکنالوجی اور عالم گیریت کے دور میں بھی قبائلی عوام دورِجاہیلت کے قانون اور انتظام کے شکنجے میں قید رکھے گئے تو اس کے منفی اثرات سے ملک کے دیگر حصے بھی بچ نہیں سکتے، جیسا کہ ہم نے دیکھ بھی لیا اور دیکھ بھی رہے ہیں۔

بہرحال اگر فاٹا اصلاحات کی بات کی جائے تو اس حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کی رائے ایک جیسی ہے، جو فوری اصلاحات کا مطالبہ کررہی ہیں۔ تاہم انضمام کے بارے میں اختلاف رائے موجود ہے اور اس نکتے پر بھی صرف وفاقی حکومت کی اتحادی دو جماعتیں جے یو آئی (ف) اور پختون خوا ملی عوامی پارٹی تاحال مخالفت کررہی ہیں، جب کہ ملک کی دیگر چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں فوری انضمام کے حق میں کھڑی ہوئی ہیں۔ اگر جمہوری تقاضوں کو مدنظر رکھا جائے تو اس وقت فاٹا کے خیبرپختون خوا میں انضمام کی حامی سیاسی و غیرسیاسی قوتوں کی تعداد زیادہ اور ان کا پلڑا بھاری ہے۔ مرکز میں برسراقتدار جماعت پاکستان مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی، پی پی پی، اے این پی، جماعت اسلامی، کیو ڈبلیو پی اور ایم کیو ایم انضمام کی بھرپور حمایت کررہی ہیں۔

جہاں تک جے یو آئی کی بات ہے تو وہ بھی انضمام کی مخالف نہیں بل کہ اسے طریقۂ کار پر اعتراض ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ انضمام کے بارے میں ریفرنڈم کرایا جائے، مگر قانونی اور آئینی ماہرین کے مطابق ریفرنڈم اس لیے ممکن نہیں کہ ملک کے آئین میں اس طرح کے ریفرنڈم کی گنجائش ہی نہیں، کیوں کہ ایسا کرنے سے پھر ایک نیا دروازہ کھل جائے گا۔ پھر ہزارہ، جنوبی پنجاب اور بہاول پور صوبے کے لیے بھی ریفرنڈم کے مطالبات سامنے آنا شروع ہوجائیں گے۔ ریفرنڈم ہی کو بنیاد بنانا ہے تو پھر سیاسی حلقوں کے مطابق 2013ء کے انتخابات میں اس حوالے سے ریفرنڈم ہو چکا ہے۔



جائزہ لیا جائے تو فاٹا کی تاریخ میں پہلی بار جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات میں ووٹوں کے حصول کی بنیاد پر پی ٹی آئی نشستوں کے لحاظ سے فاٹا کی سب سے بڑی جماعت ہے، جے یو آئی دوسرے اور مسلم لیگ (ن) تیسرے نمبر پر ہے۔ 2013ء کے عام انتخابات کے دوران فاٹا سے قومی اسمبلی کی کل بارہ میں سے گیارہ نشستوں پر مقابلہ ہوا، جس میں آزاد امیدواروں کا پلڑا بھاری رہا، جنہوں نے سات نشستیں حاصل کیں، ن لیگ نے دو، پی ٹی آئی اور جے یو آئی نے ایک ایک نشست اپنے نام کی، اے این پی، پی پی اور جماعت اسلامی کوئی نشست حاصل نہ کرسکی۔ ان انتخابات میں فاٹا کے ووٹروں کی تعداد 13 لاکھ سے زاید تھی جن میں سے 5 لاکھ 14 ہزار ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جن میں سے آزاد امیدواروں نے تین لاکھ بائیس ہزار ووٹ حاصل کیے۔

سیاسی جماعتوں کے امیدواروں نے ایک لاکھ 97 ہزار سے زاید ووٹ حاصل کیے۔ ووٹوں کے لحاظ سے تحریک انصاف سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی، جس نے 55376 ووٹ حاصل کیے، دوسرے نمبر پر جے یو آئی رہی، جس کے ووٹوں کی تعداد 49317 رہی، (ن) لیگ 37794 ووٹوں کے ساتھ تیسرے اور جماعت اسلامی 35279 ووٹ لے کر چوتھے نمبر پر رہی۔ اے این پی نے صرف چودہ ہزار اور پی پی پی نے ساڑھے تیرہ ہزار ووٹ لیے۔ فاٹا کے خیبر پختون خوا میں انضمام کی مخالفت کرنے والے محمود خان اچک زئی کی جماعت نے صرف ایک حلقے میں امیدوار کھڑا کیا تھا، جس نے محض 282 ووٹ حاصل کیے تھے۔

جے یو آئی کے علاوہ باقی تمام جماعتیں فاٹا کے خیبرپختون خوا میں انضمام کے حق میں ہیں، جن کے ووٹوں کی تعداد ایک لاکھ 56 ہزار بنتی ہے۔ اسی طرح جو آزاد حیثیت سے منتخب ہوئے ان میں سے جو اراکین اسمبلی اس وقت انضمام کی حمایت کر رہے ہیں ان کے ووٹوں کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ بنتی ہے۔ یوں انضمام کے حامیوں نے دو لاکھ چھپن ہزار اور مخالفین نے محض پچاس ہزار کے قریب ووٹ لیے ہوئے ہیں، جس کے بعد تجزیہ کاروں کے مطابق اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ فاٹا کے سیاسی کارکنوں کی اکثریت انضمام کے حق میں ہے۔

اس کے باوجود وفاقی حکومت نے انضمام کا معاملہ ملتوی کر کے شکوک و شبہات کو بڑھا دیا ہے، حالاں کہ یہ ایک ایسا ایشو ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور وزیراعظم نواز شریف اس کی منظوری دے کر تاریخ میں اپنا نام رقم کر سکتے ہی اور ایک ایسے مرحلے پر کہ جب تمام سیاسی و عسکری قوتیں اور فاٹا کے باشندوں کی اکثریت انضمام کی حامی ہے، اس معاملے سے راہ فرار اختیار کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔



یہی وجہ ہے کہ اب سیاسی جماعتوں اور خود فاٹا کے اراکین پارلیمنٹ نے لنگوٹ کسنے شروع کر دیے ہیں۔ قبائلی علاقوں کی ساخت اور حالات جوں کے توں رکھے گئے تو اس سے ملک کے دیگر صوبے بھی چین اور سکون کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ ہمیں اپنے شاعر مشرق حکیم الامت علامہ اقبال کے ان فارسی اشعار کے مفہوم کے پس منظر اور پیش منظر کو سمجھنا ہوگا جن میں کہا گیا ہے کہ ایشیا ایک جسم ہے اور اس جسم میں افغان ملت کی مثال دل کی ہے۔ اگر دل بے قرار ہو تو پورا وجود بے قرار رہتا ہے، اگر دل سکون سے ہو تو پھر پورا وجود سکون میں رہتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔