ایدھی مرحوم کو تنگ نہ کرو
واقعات کے اعتبار سے پاکستان ایک زرخیز ترین ملک ہے
پاکستان میں بہت سے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ واقعات کے اعتبار سے پاکستان ایک زرخیز ترین ملک ہے۔ ہمارے ریڈیو، ٹی وی چینلز (سرکاری کو چھوڑ کر) بھی جتنا کچھ ڈھونڈ ڈھانڈ کر نشر کرتے ہیں وہ وقوع ہونے والے واقعات کا کچھ فیصد ہی ہوتا ہے۔ نہ جانے کتنی عزتیں لٹ جاتی ہیں جو رپورٹ نہیں ہوتیں، کتنے قتل ہوجاتے ہیں جن کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا، کتنے لوگ لٹ جاتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں کہ قانون کی مدد حاصل کرنے کی صورت میں مزید لٹنے کا وہ خرچہ برداشت نہیں کرسکتے۔
عوامی سیاست اور عوامی لیڈری کے دعویداروں نے عوام کو کس طرح کنگال کیا ہے اس کا نام بھی عوام زبان پر نہیں لاسکتے، عوام کی طاقت کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے یہ عوام کے نمایندے لوگوں کی زیر تعمیر عمارتوں تک میں حصہ وصول کیے بغیر تعمیر مکمل نہیں ہونے دیتے اور پراجیکٹ لٹک جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ جس نے یہ پراجیکٹ شروع کیا ہے وہ کاروبار کرنا چاہتا ہے اور اس کا مقصد خود کا بھلا بھی ہے تو وہ اپنے منافع کا ایک حصہ اس عوامی لیڈر کو دے کر پراجیکٹ بچاتا اور مکمل کرتا ہے اور عوام کے ہمدرد کی جائیداد، بینک بیلنس میں عوامی انداز میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
یہ سارے ملک کی پریکٹس ہے اور اس میں میرے صوبے اور شہر کے نمایندے بھی کسی استثنیٰ کے حقدار نہیں ہیں، چاہے ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہو، اور سیاسی جماعت عوامی ہونے کی دعویدار ہے اور اس میں ترقی پسند اور ترقی ناپسند کا مکمل بھائی چارہ ہے، کیونکہ سارا چکر ہی چارے کا ہے۔
سرکاری ادارے اور دیگر کارکن ادارے سب اس بہتی گنگا میں مصروف اشنان ہیں اور کوئی بھی دین، ایمان، مذہب وغیرہ کے نام کو درمیان میں نہیں آنے دیتا، کیونکہ یہ ایک رکاوٹ نہیں بلکہ تمام رکاوٹیں ہیں جو ترقی کو پنپنے نہیں دیتیں، جو معاشرے اور افراد کے لیے بہت ضروری ہے اور افراد اور معاشرے کی تعریف یہ لوگ صرف اپنے مفادات کے تحت کرتے ہیں ان کا عام افراد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ان لوگوں نے دو طرح کے عوام بنا رکھے ہیں۔ ایک وہ عوام جو ان کے بیانات میں پائے جاتے ہیں اور ایک وہ عوام جو حقیقتاً پائے جاتے ہیں۔ ان کا تعلق صرف پہلے عوام سے ہے جو بیانات میں پائے جاتے ہیں اور دوسرے عوام ووٹ دینے کے کام آتے ہیں، اب آپ اپنا تجزیہ خود کرلیجیے۔ پیمانہ ہم نے بیان کردیا ہے اور اس سے آپ اس غلط فہمی کا شکار بھی نہ ہوجائیے کہ آپ ووٹ نہیں دیں گے آیندہ۔ آپ نہیں دیں گے تو وہ خود اپنے آپ کو آپ کی طرف سے ووٹ دے لیں گے، اس کا خاطرخواہ بندوسبت تمام جماعتیں کرکے رکھتی ہیں۔
ان اندھیروں میں کچھ چراغ تھے کہ روشن تھے اور کچھ چراغ ہیں کہ روشن ہیں، اندھیرے کتنے بھی چراغ بجھائیں قدرت نئے چراغ روشن کردیتی ہے۔ یہ قدرت کا ایک طے شدہ امر ہے کہ اندھیرا بڑھے گا تو روشنی بالآخر ہوگی۔ پاکستان کے قیام کے بعد اندھیرے اور روشنی کا یہ کھیل جاری ہے اور شاید جاری رہنا ہے۔ ان اندھیروں میں ایک چراغ وہ آواز تھی جس نے ''الٰہی میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں'' کہا تھا اور خدا نے دعا قبول کرلی اسے ''شہید'' اور چند مردوں کو جہنم کا ایندھن بنادیا۔
دوسری آواز وہ تھی جو بے حد نحیف اور بے انتہا طاقتور تھی عمل کے میدان میں، جس نے ساٹھ سال سے زیادہ عرصے تک اس ملک کے عوام کے دلوں پر حکمرانی کی۔ وہ کمزور نظر آتا تھا مگر بے حد طاقتور تھا برائیوں کے خلاف اور اس کی طاقت تھی ''خدمت الناس''۔ اس نے سربراہی کا مقابلہ خدمت سے کیا، ظلم بھی برداشت کیا، مار بھی کھائی، بھیک بھی مانگی، مگر خدمت سے منہ نہیں موڑا، ایک میسج مجھے ملا جس پر میری آنکھیں مسلسل رو رہی ہیں کہ ''لاشیں گرانے والو اب بس کردو، لاشیں اٹھانے والا نہیں رہا''۔
حیدرآباد میں جھولی چندہ کی پہلی مہم کے سلسلے میں وہ آئے تو ریڈیو پاکستان حیدرآباد میں ان کا انٹرویو میں نے کیا۔ ملیشیا کے کپڑے، پیروں میں وہی جوتا جس کا ذکر آپ اخبارات میں پڑھ چکے ہیں، سر پر ٹوپی اور طبیعت میں انکسار اور عاجزی۔ سوالوں کے جواب تو بہت تھے مگر ایک کمال کا جواب تھا کہ اگر اس ملک کے لوگ ایک روپیہ روزانہ دے دیں تو اس ملک سے غربت ختم ہوجائے گی اور لوگ بھیک مانگنے والوں کو ڈھونڈیں گے۔ انھوں نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا تھا ''میں پڑھا لکھا نہیں ہوں مگر میں ایک بات جانتا ہوں کہ انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے اور خدمت سب سے بڑا کام اور میرا تعلق دونوں سے ہے کہ میں انسان کی خدمت کرتا ہوں چاہے وہ زندہ ہو یا مردہ۔''
اس بات کو بیان کرنے کا مقصد اپنی توصیف نہیں، اس عظیم انسان کے خیالات بتانا ہیں جو آج سے 25 سال پہلے تھے اور اس وقت نے جو چوتھائی صدی پر محیط ہے اس انسان کو کن کن تجربات سے گزارا ہوگا، وہ ایمان کے قائم رکھنے کو کس کس بھٹی سے گزرا ہوگا۔ اس کا ایمان ہے جو اس کے وارثوں میں منتقل ہوا ہے کہ انسان کو خدا نے خدمت کے لیے پیدا کیا ہے درد دل کے ساتھ خدمت اور احساس خدمت۔
لوگوں نے طرح طرح کے پروپیگنڈے کیے۔ کھالیں چھیننے کے لیے، چندہ چھیننے کے لیے۔ مگر لوگوں کے دلوں سے اس کی قدر نہ کم کرسکے۔ خود وہ مذمت کا نشانہ بنے، خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ ہے۔ جو گزر گیا سو گزر گیا وقت واپس نہیں آتا نہ عزت۔ ایک خبر پڑھی تھی، تعجب اور افسوس ہوا کہ حیدرآباد بلدیہ کے ملازمین اور افسران نے عبدالستار ایدھی کی قبر پر حاضری دی، فاتحہ خوانی کی، فائربریگیڈ نے سلامی پیش کی۔ آپ جب کہیں جاتے ہیں ملاقات کے لیے تو کچھ تحفے لے کر جاتے ہیں، جس سے ملنے جاتے ہیں۔
فاتحہ خوانی تو اس کا حق ہے کہ وہ اب صرف فاتحہ خوانی ہی حاصل کرسکتا ہے یا کارخیر جو اس کے حق میں کیے جائیں وہ اس کو کسی اور صورت پہنچتے ہیں، اس بازار کی کرنسی اور ہے۔ مگر جو کسی سے ملنے جاتا ہے اس کی اپنی بھی تو کچھ حیثیت ہوگی، اب فیشن کی طرح ایدھی صاحب کے مزار پر لوگ جا رہے تھے، تصویر کشی ہو رہی تھی۔ وہ پیغام اور اس پر عمل کا کیا ہوا جو ایدھی صاحب کا تھا اور ہے کہ کرکے دکھایا ہے، لوگ کیا ہوا نہیں بھولتے۔ امجد صابری یا عبدالستار ایدھی نے جو کیا وہ کیسے آپ بھول سکتے ہیں۔ ایدھی کا پیغام تھا خدمت الناس۔
آپ نے تو شہر کا ستیاناس کر رکھا ہے، سارے ادارے جن کے لوگ وہاں فاتحہ پڑھ کر تصویر بنوا رہے تھے اس کی تصویر ہیں، کہ شہر کا یا ملک کا ستیاناس کرکے رکھا ہوا ہے ان لوگوں نے، غریبوں پر ظلم و ستم کا بازار گرم کرنے والے غریبوں کے مزار پر فاتحہ پڑھ رہے تھے۔ ایدھی غربت اور غریبوں کا مزار ہے، اس میں عبدالستار سویا ہوا ہے۔ جب تمہارا کردار ایسا نہیں ہے کہ صاحب کردار سے مل سکو تو کیوں اس کے ابدی آرام میں خلل ڈالنے پہنچ جاتے ہو، جہاں ہو فاتحہ پڑھ لو، ایدھی پر بھی اور خود پر بھی کہ ایک دن یہ زمین تمہیں بھی نگل لے گی۔
ایدھی کے پاس لوگوں کی دعائیں، محبتیں، لوگوں کے سونے جیسے آنسو، ہیروں جیسی فریاد اور آہیں ہیں اور تمہارے پاس لوگوں کی گرم بددعائیں۔ جو بالآخر تمہیں جہنم رسید ہی کریں گی، چاہے تم کتنے ہی بڑے بن جاؤ اس دنیا میں۔ تمہارے ظلم و ستم تمہاری ماؤں کی دعاؤں کو بھی کارآمد نہیں رہنے دیں گے۔ خدا کے لیے ایدھی کو تنگ نہ کرو۔ بہت تنگ کرلیا اس دنیا میں۔ اب اسے آرام کرنے دو۔ وہ تو جاتے جاتے اس دنیا میں دیکھنے والی آنکھیں بھی واپس کرگئے۔ اب نہیں دیکھنا چاہتے وہ آپ کو۔