ہم بہت خوش ہیں لیکن
بھارت اپنے نفسیاتی اور مسابقت کی جنگ میں اپنا آپ چھپا نہیں سکتا۔
داتا دربار میں دہشتگردی کی واردات نے انتظامیہ کو اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ دہشتگرد کسی بھی مقام کے تقدس کو پامال کرنے میں بالکل عار محسوس نہیں کرتے، چاہے وہ مسجد ہو یا مزار اور ایسا ہمارے یہاں ہو رہا ہے۔
سابقہ فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف کی سخت گیر کارروائیوں سے ملک بھر میں دہشتگردی کی وارداتوں کا سلسلہ رکا تھا۔ کراچی سے کاروباری حضرات کی لاہور اور پنجاب کے دیگر علاقوں میں نقل مکانی کے سلسلے میں بھی فرق پڑا تھا اور دوبارہ کراچی میں امن لوٹنے کا عمل شروع ہو چکا تھا، لوگ اس پرسکون ماحول میں اپنے کاروبار زندگی کو بخوبی انجام دے رہے تھے کہ 'تو نہ مانے اور میں نہ مانوں' شروع ہو گیا۔ اس طویل سیاسی 'تو تو، میں میں' سے اب عوام بور ہو چکے ہیں۔ بہرحال جن کے کھیل ہیں وہ کھیلتے رہے۔ اس بوریت بھرے ماحول میں اچانک ملک کے مختلف حصوں میں وقتاً فوقتاً دہشتگردی کی وارداتیں ابھرتی ہیں، کراچی سے لے کر کے پی کے تک ہی ان وارداتوں میں معصوم لوگ زخمی اور مارے جاتے ہیں، ان وارداتوں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟
آپ چند روز کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں۔ ان تمام دھماکوں کی سازشوں کے پیچھے بھارت کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے کیونکہ اس سے پہلے بھی ملکی حدود میں بھارتی جاسوس اہلکاروں کو مختلف مقامات سے جاسوسی کے الزام میں پکڑا جاچکا ہے اور اس پکڑے جانے کے عمل میں اعترافات کا سلسلہ بھی اس شبے کو تقویت دے رہا ہے کہ ماضی کی طرح حال میں بھی اسی طرح کی کارروائیوں کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔
بھارت اپنے نفسیاتی اور مسابقت کی جنگ میں اپنا آپ چھپا نہیں سکتا، کیونکہ روزاول سے ہی پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد ان کی نظروں میں نئی ابھرنے والی مسلمانوں کے نام پر قائم ہونے والی ریاست چند روز کی مہمان ہے، ان کا یہ خواب تو انشا اللہ کبھی پورا نہ ہوسکے گا، لیکن اس بھارتی دشمنی کے علاوہ بھی ہمیں دیگر نکات کی جانب دیکھنا ضروری ہے، جس کا اثر نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر اسلامی ریاستوں پر بھی پڑ رہا ہے، جس کی وجہ سے بہت سے اسلامی ممالک میں تغیرات رونما ہو رہے ہیں۔
مسلمان دوسرے مسلمان کو مار رہا ہے، ملک بدر کرنے پر مجبور کر رہا ہے، لیکن جس جنگ کا شکار ہم ہیں اسے ہماری ہی صفوں میں بڑی آسانی سے گھس کر کاٹنے پر عمل پیرا ہیں، لیکن ہمیں کھلے دل سے اعتراف کرلینا چاہیے کہ پنجاب حکومت نے جس برق رفتاری سے دہشتگردی کی کارروائی کے سہولت کار کو پکڑا، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو سہولتیں اور آلات حکومت کی جانب سے متعلقہ ادارے کو فراہم کیے گئے اس سے مستفید ہوا گیا، نہ صرف یہ بلکہ اس میں شہباز شریف کی ذمے دارانہ سخت گیری بھی کام آئی۔ بہت سے ذہین لوگوں کے گروپ کو جو خود اپنی جگہ پر خاصے ذمے دار بھی ہوں، کنٹرول کرنے کے لیے یقیناً ایسے ہی شخص کی ضرورت ہوتی ہے جو ان ذہین ذہنوں سے درست انداز سے کام کروا سکے اور یہ اہلیت وزیراعلیٰ میں نظر آتی ہے۔ اس برق رفتاری سے گرفتاری کے عمل کے بعد پولیس کے ادارے کے ان تمام افسران کو جو اس دہشتگردی کی وارداتوں میں شہید ہوئے۔
جس طرح ان کے خاندانوں کو نوازا گیا اس پر دل خوش ہوا اور وہیں ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ اگر دہشتگردی کی وارداتوں پر کنٹرول حاصل نہ کیا گیا اور خدانخواستہ ماضی کی طرح کچھ ہوا تو ہماری قوم کے وہ مظلوم لوگ کس کھاتے میں جائیں گے جو دو وقت کی روٹی کے لیے سوشل میڈیا پر اپنے آپ کو پیش کردیتے ہیں کہ خدارا! ہماری مدد فرمائیے۔ کوئی نوکری کے لیے رو رہا ہے، کوئی علاج کے لیے، کسی مظلوم پولیس والے کو مہینوں تنخواہ نہیں ملی، تو کسی بے گناہ کا آخری سہارا لٹ گیا۔ یہ سب خادم اعلیٰ اور خادم سندھ کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ یہ مجبور لوگ ہیں، زندہ ہیں، لیکن خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔ کوئی کسی ایوان کے سامنے اپنے آپ پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا لیتا ہے، تو کوئی پریس کلب کے سامنے بیٹھ جاتا ہے۔ یہ سب بھی اسی پاکستانی قوم میں شامل ہیں، یہ بھی اپنے ملک سے بہت محبت کرتے ہیں۔
پنجاب حکومت کے علاوہ آصف علی زرداری نے بھی ایک کروڑ روپے اسی مد میں دیے۔ ہم سب اپنے سیاسی لیڈران کے اس جذبے پر ان کے مشکور ہیں اور تہہ دل سے ان تمام حضرات کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان تمام مراعات کو دیکھ کر کچھ دلوں سے دعا نکلی ہو کہ ...خیر جانے بھی دیں، عملی طور پر کام کرنے والے خدا کی اس زمین پر بے آسرا نہیں رہتے۔
بات شروع ہوئی تھی داتا دربار سے جہاں ہمہ وقت سیکیورٹی کا عملہ چاق و چوبند رہتا ہے، خواتین سے لے کر مردوں تک کے اندر داخل ہونے کے مراحل میں عملہ مہارت سے اپنی ذمے داری انجام دیتا ہے، صرف یہی نہیں مزار سے فاصلے تک حفاظتی باڑھ لگا رکھی ہے، لوگوں کو بڑے بیگز وغیرہ اندر لے جانے کی اجازت نہیں۔ پولیس والے آس پاس گزرنے والوں پر بھی کڑی نظر رکھتے ہیں۔
سیہون شریف میں دہشتگردی کی اتنی بڑی کارروائی کے بعد حکومت سندھ کس طرح سندھ کے مختلف مزارات پر سیکیورٹی کے عملے کی تعیناتی کرتی ہے، اس سلسلے میں انھیں اب کسی پس و پیش کے بغیر ہی اپنے ہی ملک کے دیگر مقامات پر سیکیورٹی کے عمل پر غور کرنا چاہیے اور مزارات کے اردگرد کے ماحول کے علاوہ مزار کے اندرونی ماحول پر بھی نظر رکھے اور ایسی غیر ضروری فضول رسومات پر پابندی بھی لگائے جس کا تعلق ہمارے مذہب سے نہیں ہے۔ بزرگوں کی قبر کے تقدس کو فضول اور قبیح حرکتیں پامال کرتی ہیں، جو کچھ ماضی میں ہوچکا ہے ضروری نہیں کہ مستقبل میں بھی اسے جاری رکھا جائے، ہمارے لیے یہ سبق ہی کافی ہے، حکومت کی یہ کوششیں ان فوری کارروائیوں پر مبنی ہونی چاہئیں تاکہ پھر مظلوم عوام کا خون نہ بہے۔