آراستن پیراستن پاک و درست کردن
آنکھوں میں حیرت کا جہاں لیے ہم سب ہی اس شاندار تہذیب کو پلکیں جھپکائے بنا دیکھتے رہے۔
انسان کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ وہ سب سے منفرد و ممتاز نظر آئے لیکن اپنی تہذیب و ثقافت کو بھی سینے سے لگائے رکھنا چاہتا ہے، یہ تجسس بھی رکھتا ہے کہ جس سرزمین سے اس کا تعلق ہے یہاں بسنے والے ہزاروں سال پہلے آباء کیسی زندگی گزارتے تھے، ان کی طرز معا شرت کیا تھی۔ ہم اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ہمارے پاس شاندار تاریخی خزانہ موجود ہے، جس کی دریافت ہمارے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ پاکستان کے آثار قدیمہ میں موئن جو دڑو کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ دنیا میں اس قدیم ترین تہذیب کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے صوبائی حکومت نے گزشتہ دنوں عالمی کانفرنس کا انقعاد کیا۔
موئن جو دڑو کے مکین کون لوگ تھے؟ کہاں سے آئے؟ ان کی بود وباش، طرز زندگی کیا تھا؟ کیوں اس تہذیب کو زوال آیا؟ سب کچھ جاننے کا شوق لیے 19 ملکوں کے سیاح اور ماہرین اس پراسرار وادی میں جمع ہوئے۔ آنکھوں میں حیرت کا جہاں لیے ہم سب ہی اس شاندار تہذیب کو پلکیں جھپکائے بنا دیکھتے رہے۔ میرے کانوں کو اس مزدور کے کدال کی آواز سنائی دے رہی تھی جو 1856ء میں کراچی سے لاہور تک بنائے جانے والے ریلوے ٹریک کا رکن تھا، اس کی کدال نے لال اینٹوں پر ضرب لگائی ہوگی اور اس نے آواز لگا کر اپنے انگریز سرکار سر جان مائیکل کو بتایا ہوگا۔
اور اس وسیع عالیشان شہر کی دریافت ہوئی ہوگی۔ پانچ ہزار سال قبل اس قدر پلان طریقے سے بنا ہوا شہر اپنی ترقی کی معراج پر رہا ہو گا، کیا کچھ نہ تھا وہاں پر دیکھنے کے لیے، ہر مکان ایک جیسی سرخ اینٹوں سے بنا ہوا، گلیاں بھی ایک ترتیب سے دکھائی دیتی ہیں، شہر کے دو حصے تھے، ایک اونچائی پر بنا ہوا تھا، جہاں پر کئی اہم سرکاری عمارتیں اور اونچی بلڈنگ بنائی گئی تھیں، ہر گھر میں ٹوائلٹ اور نالیوں کا ڈرین سسٹم کا مربوط نظام تھا، کنواں کھود کر اور پانی کو نہری سسٹم کے ذریعے اپنے کھیتوں کو سیراب کرتے تھے، پورے سال کا اناج اسٹور کرنے کے لیے سرکاری گودام موجود تھے، پختہ سڑکیں اور بازار جو رہنے والوں کے حسن ذوق کی داستاں سناتے ہیں۔ وہ لوگ کھیتی باڑی اور فارمنگ کے ساتھ تجارت بھی کرتے تھے۔
ان کا ٹریڈ سمیریوں (عراقیوں) کے ساتھ تھا۔ عرب ساگر سے آمدورفت ہوتی تھی، اس وقت سکے نہیں ایجاد ہوئے تھے، وہ کاروبار کے لیے مہر استعمال کرتے تھے۔ ہر تاجر کی الگ مہر ہوتی تھی جو اس کی پہچان تھی۔ بچوںکے کھلونے، زیورات، مٹی کے برتن، مجسمے اور کانسی سے بنی اشیا دریافت ہوئی ہیں۔ اس زمانے میں لوہے کی دریافت نہیں ہوئی تھی اور ان تمام چیزوں کے ساتھ کہیں بھی کوئی ہتھیار نہیں بناتا تھا۔ آج کے ترقی یافتہ دور کے انسان انگشت بدندان تھے کہ بنا ہتھیار کے کس طرح اپنے آپ کو فاتح منواتے ہوں گے۔
ایک جانب 2600 قبل مسیح میں بسنے والے شہر کی باقیات ہیں، تو دوسری جانب اکیسویں صدی کے دور جدید میں بسنے والا شہر لاڑکانہ، جو جدید اسلحے سے لیس باڈی گارڈز کے ساتھ راجاؤں، مہاراجاؤں کا شہر ہے۔ مسند صدارت پر بیٹھنے والوں نے اس عجائبات عالم کی کتنی حفاظت کی، سب پر عیاں ہے۔ ہم ان غیر ملکی مہمانوں سے نظریں ملانے سے کتراتے رہے، ان کی آنکھوں میں چبھتے سوال اور طنز ہمارا پیچھا کرتے رہے۔ یونیسکو نے اسے ورلڈ ہیریٹیج کا درجہ دیا ہے۔ وادی سندھ کی تہذیب پر 40 سال سے تحقیق کرنے والے ڈاکٹر جوناتھن نے کہا کہ ''ایک عرصے سے موئن جو دڑو کی حفاظت کے لیے کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں کیا گیا، اس کی بقا کو سخت خطرات لاحق ہیں، اس لیے بہتر ہوگا کہ ہم ایک جامع تحقیق مکمل کرکے اس آثار کو دوبارہ دفن کردیں، بڑے محل وقوع پر پھیلے اس آثار کو بچانا مشکل ہے''۔ اس بات کے بھی ماہرین میں مشورے ہوئے کہ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اس کی حدود کا تعین کرکے تحفظ کی کوششیںکی جائیں۔ اس کی حفاظت کے حوالے سے غفلت برتی گئی، اب کسے مورد الزام ٹھہرایا جائے، کوئی ذمے داری لینے کو تیار نہیں ہوگا۔
1944ء سے 2010ء تک محکمہ سیاحت و ثقافت وفاق کے زیر انتظام تھا، اب اسے صوبوں کے حوالے کیا گیا ہے۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء میں پہلی بار عالمی کانفرنس منعقد کی تھی، چالیس سال بعد اس کانفرنس کا اہتمام دیر آید درست آید والی بات ہے۔ تقریب میں کتابوں اور موسیقی کے ساتھ وزیراعلیٰ نے اس ثقافتی ورثے سے متعلق ایک ویب سائٹ بھی لانچ کی۔ آخر میں تقریب میں شریک مہمانوں کے لیے لاڑکانہ کے ہوٹل سمبارا میں رنگارنگ تقریب کا اہتمام تھا۔ لوک فنکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔
موئن جو دڑو سے دریافت ہوئی مشہور مجسمہ ڈانسنگ گرل (سمبارا) کے حوالے سے کلاکارہ نے خوبصورت رقص پیش کیا، جس پر حاضرین داد و تحسین پیش کررہے تھے، لیکن میرا ذہن موئن جو دڑو کے کھنڈروں میں بھٹکتا رہا۔ کیا اس قدر قیمتی تاریخی اثاثہ ہماری غفلت اور لاپرواہی کے باعث دوبارہ دفن کردیا جائے گا؟ آنے والی نسلیں محض کسی ویب سائٹ اور کتابوں میں اس کے نشانات دیکھیں گی اور ہم پر ملامت کریں گی؟ پھر سوچتی ہوں انھیں زوال کیوں آیا۔ موئن جو دڑو کی کھدائی میں کل نو پرتیں دریافت ہوئیں، حیرت انگیز طور پر ان تمام کی ثقافت و زبان اور رسم الخط ایک ہے۔
تو کیا وہ لوگ عکاد اور سومیریوں سے تجارت کی حد تک تعلقات رکھتے تھے، اس تہذیب سے انھوں نے کچھ نہیں سیکھا؟ اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے گرد ایک مضبوط حصار رکھتے تھے، آس پاس سے کوئی تبدیلی قبول کرنے کو تیار نہیں تھے، اپنے دائرے میں رہنا پسند کرتے تھے۔ کیا اس لیے وہ تہذیب زوال پذیر ہوئی؟ آخر تہذیبیں کیوں مر جاتی ہیں؟ بقول سبط حسن اس کا آسان جواب تو یہ ہے کہ جب بڑھاپا آتا ہے تو تہذیبیں مرجاتی ہیں، مگر انسانوں کی مانند تہذیبوں کی پیرانہ سالی کے ماہ و سال متعین نہیں ہوتے۔
اس کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ ان میں معاشرے کے نئے تقاضوں اور انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے کی صلاحیت ہے یا نہیں۔ اجتہاد کی قوت نئے خیالات و تجربات قبول کرتی ہے یا نہیں۔ اگر ہم تھوڑی دیر کو اپنے ماضی پر نظر ڈالیں تو ہمارے پاس ایک شاندار تہذیب موجود ہے، بس اس کی حفاظت اور اس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ فارسی زبان میں تہذیب کے کیا خوب معنی ہیں ''آراستن پیراستن، پاک و درست کردن و اصلاح نمودن''۔