2001 کی بلدیاتی حلقہ بندیاں
2001 کی حلقہ بندی میں 17 ویں صدی سے آباد لیاری کوارٹرز کو لیاری ٹاؤن بنا تو دیا گیا
سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے ایکسپریس نیوز کے پروگرام ''ٹودی پوائنٹ'' میں جہاں دیگر قومی معاملات پر اظہار خیال کیا ہے وہاں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 2001 میں ہونے والی حلقہ بندیاں شفاف اور غیر جانبدار تھیں، ماضی میں سیاسی جماعتوں نے اپنی مرضی سے حلقہ بندیاں کرائیں۔ اس سلسلے میں صرف کراچی کو ہدف بنانا صحیح نہیں۔ پہلی بات یہ کہ کراچی ایک کثیر اللسانی شہر ہے جسے ''منی پاکستان'' کہا جاتا ہے۔ 1998 کی قومی مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی 98 لاکھ 56 ہزار 318 ہے جس کی تفصیل یوں بیان کی گئی ہے۔
شہری آبادی 88 لاکھ 75 ہزار۔ دیہی آبادی 5 لاکھ 17 ہزار
کنٹونمنٹ کی آبادی 4 لاکھ 63 ہزار۔
واضح رہے کہ سیاسی جماعتوں نے 1998 کی قومی مردم شماری کے نتائج کو مسترد کر دیا تھا۔ 30 اپریل 2001 کو سندھ کابینہ کے آبادی کے اس تناسب کی بنیاد پر کراچی میں تین سطحی شہری حکومت کے منصوبے کی منظوری دی تھی جس کے مطابق کراچی کو 18 ٹاؤن کونسلز اور 178 یونین کونسلز میں تقسیم کر دیا تھا اور اس کے لیے نئی حلقہ بندیوں کی بھی منظوری دے دی گئی تھی۔
اس وقت کی حکومت سندھ نے کراچی میں 178 یونین کونسلوں کی شکلوں میں مجوزہ نئی حلقہ بندیوں پر اعتراضات کی وصولی اور سماعت کا سلسلہ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس سلسلے میں 7 مئی 2001 سے 10 مئی 2001 تک لوگوں نے اپنے اعتراضات داخل کیے تھے اور 10 اور 11 مئی 2001 کو اعتراضات کرنے والوں کو پیروی کے لیے طلب کیا گیا تھا۔ 12 مئی2001کو بورڈ آف ریونیو کی چار رکنی ٹیم نے ان اعتراضات پر اپنے فیصلے سنا دیے تھے۔ حکومت سندھ کو مجموعی طور پر 203 اعتراضات موصول ہوئے۔ جن میں سے 53 اعتراضات قبول، 126 مسترد اور 16 واپس لے لیے گئے جب کہ 18 اعتراضات کی کسی نے پیروی نہیں کی۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر کراچی کے لیے میگا سٹی پولیٹن نظام اور نئی حلقہ بندیاں کرانے کی باتیں دیرینہ تھیں لیکن جو نئی حلقہ بندیاں کی گئیں تھیں اس پر مختلف حلقوں کی جانب سے اعتراضات اٹھائے گئے تھے لیکن یک طرفہ طور پر انھیں نظرانداز کیا گیا تھا۔
2001ء کی حلقہ بندیوں کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو عجیب اور دلچسپ صورت حال سامنے آتی ہے۔ مثلاً بعض یونین کونسلوں کے حدودِ اربع برقرار رکھے تو گئے لیکن ان کی آبادی بڑھتی ہوئی نظر آ رہی تھی اور بعض یونین کونسلوں کے حدود اربع برقرار رکھے گئے تھے لیکن ان کی آبادی میں کمی دکھائی گئی تھی۔ بعض یونین کونسلوں میں نئے علاقے شامل تو کیے گئے تھے لیکن ان کی آبادی میں کوئی اضافہ نہیں دکھایا گیا تھا اور ایسا بھی کیا گیا تھا کہ بعض یونین کونسلوں کی حدود سے علاقے نکال تو لیے گئے تھے لیکن ان میں دیگر علاقے شامل نہیں کیے گئے تھے، مگر ان کی گزشتہ آبادی کا تناسب برقرار رہا تھا۔
بعض یونین کونسلوں کے علاقوں کو ایک دوسرے میں کھپا تو دیا گیا تھا مگر معجزاتی طور پر ان میں ایک فرد کی بھی کمی بیشی نظر نہیں آئی تھی اور بعض یونین کونسلیں ایسے بھی سامنے آئیں جہاں بالترتیب 91, 40, 10, 8, 2, 1 افراد کی کمی و بیشی ہوئی تھی۔ ایک حلقہ ایسا بھی سامنے آیا تھا جس کے ایک علاقے کے نام کے آگے (کچھ حصہ) لکھ دیا گیا تھا اور اس کی آبادی میں 16 ہزار دو سو چوبیس افراد کا اضافہ دکھایا گیا تھا۔ ظاہری بات تھی کہ 16224 کی آبادی جس کے (کچھ حصہ) میں لوگ بستے تھے جو کسی مخصوص بلاک نمبرز اور گلیاں تو ہوتی ہوں گی جہاں یہ رہتے تھے اگر ظاہر کر دیے جاتے تو صورت حال مشکوک نہ ہوتی۔
بعض حلقوں سے علاقے نکال لیے گئے تھے لیکن دوبارہ انھیں کسی اور حلقے میں شامل ہوتا ہوا نہیں دکھایا گیا تھا بلکہ ان کا ذکر (خارج کردہ علاقے) یکسر گول کر دیا گیا تھا۔ نارتھ ناظم آباد ٹاؤن کا یونین کونسل تھا اعتراضات اور تجاویز کی سماعت کے بعد یونین کونسل مصطفیٰ آباد کے نام سے منسوب کر دیا گیا، حتمی فہرست میں علاقہ ''نصرت بھٹو کالونی'' کا ذکر غائب کر دیا گیا اس علاقے کی آبادی کہاں ضم کی گئی اس کا ذکر آج تک نہیں کیا گیا ہے۔
2001 کی حلقہ بندی میں 17 ویں صدی سے آباد لیاری کوارٹرز کو لیاری ٹاؤن بنا تو دیا گیا لیکن اس کے وہ علاقے جو صدیوں سے اس کی حدود اربع میں شامل رہے ہیں ان علاقوں کو صدر ٹاؤن کے یونین کونسلز (1)۔ حاجی کیمپ۔ (2)۔ کھارادر۔ (3)۔ گارڈن میں کھپا دیا گیا ۔ علاقے یہ تھے (1)۔ پرانا حاجی کیمپ۔ (2)۔ نیو کمہار واڑہ۔ (3)۔ عثمان آباد۔ (4)۔ دھوبی گھاٹ۔ (5)۔ حسن لشکری ولیج۔ (6)۔ جناح آباد (جزوی)۔ (7)۔ لی مارکیٹ۔ (8)۔ نیپئر کوارٹر۔
جواز یہ بیان کیا جاتا رہا ہے کہ یہ علاقے شہر کراچی کے ترقی یافتہ علاقوں کے برابر آ جائیں گے اس سے لیاری کا احساس محرومی ختم ہو جائے گا جب کہ حقیقت حال یہ ہے کہ یہ علاقے وسائل فراہم کرنے والے ہیں جن سے اب لیاری ٹاؤن محروم ہو گیا ہے اس دن سے لے کر آج تک لیاری ٹاؤن مالی بحران کا شکار ہے۔
اس وقت مجوزہ مقامی حکومت کے گرین کتابچے میں شہری اور دیہی تفریق کے خاتمے کا ذکر کیا گیا تھا لیکن عملاً نئی حلقہ بندیوں میں شہری اور دیہی علاقوں کو ایک دوسرے سے دور رکھا گیا ہے۔ کورنگی سیکٹر 30 ٹاؤن شپ کا علاقہ K.D.A کا تھا اسے کنٹونمنٹ بورڈ کی حدود میں شامل کیا گیا یہ علاقہ اس وقت 2700 کی آبادی پر مشتمل تھا۔ علاوہ ازیں کراچی کے 4 لاکھ 63 ہزار نفوس پر مشتمل آبادی کنٹونمنٹ بورڈ کی حدود میں آ گئی تھی۔ 2001 کی حلقہ بندیوں کا اگر غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے اور آبادیوں کے اعداد و شمار کی صورت حال دیکھی جائے تو اس کی ٹوپی اس کے سر اور اس کی ٹوپی اس کے سر والی بات عیاں ہے۔
سچ بات یہ ہے کہ 2001 کی حلقہ بندیاں آبادی کی بنیاد پر نہیں بلکہ جغرافیائی بنیاد پر کی گئی تھیں۔ راقم الحروف نے 2001ہی میں اپنے کالم میں لکھا تھا کہ یہ حلقہ بندیاں قومی یک جہتی کے لیے سود مند ثابت نہیں ہوں گی۔ برادری پر مبنی یہ حلقہ بندیاں انتشار کا باعث بنیں گی۔ بعد کی صورت حال آپ کے سامنے ہے، آج سپریم کورٹ آف پاکستان بھی کراچی میں نئی حلقہ بندیاں کرانے کا حکم دے رہی ہے۔ مناسب یہ ہو گا کہ 2001 کی حلقہ بندیوں کی تفصیلات کو منظر عام پر لایا جائے تا کہ تمام شکوک و شبہات کا خاتمہ ہو اور سپریم کورٹ کے حکم کی صداقت بھی واضح ہو۔ اگرچہ سپریم کورٹ پر مجھ سمیت تمام قانون پسند شہریوں کو اعتبار ہے لیکن چونکہ یہ ایک سیاسی بحث کا حصہ بھی بن چکا ہے اس لیے 2001 کی حلقہ بندیوں کے نقشہ جات سمیت تمام تفصیلات کو بذریعہ سپریم کورٹ میڈیا میں عوام الناس کے لیے منظر عام پر لایا جائے۔