ایک ہی خیال کے تھے
بھٹو تھے تو عوامی، کشمیر کے معاملے میں وہ حد سے زیادہ جنونی تھے۔
ہم الفاظ کے چناؤ میں تو بے رحم ہوسکتے ہیں مگر ان کے معنوں میں نہیں۔ معنوں کے حوالے سے جو بیاں ہے اس کے تسلسل میں، یہ جو ہمارے شرفاء ہیں وہ ریاستِ پاکستان نہیں، مگر مارکس کی بات کو لیجیے تو یہ کہنا پڑے گا کہ ریاست، شرفا کے ہاتھ میں ایک ہتھیار ہوتا ہے، وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے خاطر کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ کل لاہور میں کچھ نہ ملا تو پشتونوں پر سارا نزلہ گرا دیا، ان کے ریڑھے اکھاڑ دیے، ان کی بستیاں اجاڑ دیں۔ اس کی تفصیل میں تو نہیں جائیں گے کہ اس مذہبی انتہاپسندی کی بڑی تاریخ پڑی ہے، اور جبتک کہ اس تاریخ کے گوشوں دریچوں میں ہم نہیں جائیں گے تو ہم نہیں پائیں گے وہ تدارک، جو وقت کی عین ضرورت ہے۔
یہ پشتون غیور، صدیوں سے شمال سے آتے ہوئے حملہ آوروں سے سینہ تان کے لڑتا رہا ہے۔ چنگیز، ہلاکو، سکندر اعظم وغیرہ وغیرہ۔ ان ہی راستوں سے آگے پھر ایک معرکہ پانی پت پر بھی ہوتا تھا، جو ہارتا تھا وہ دلی سے رخصت، جو جیتتا تھا وہ دلی پر حکومت کرتا تھا۔ فقط ایک فرنگی تھا جو بحری راستے سے آیا، اس کو بھی فکر لاحق تھی اسی شمال سے آتے ہوئے حملہ آوروں کی۔ وہ بھی پشتون پر فتح نہیں پا سکا۔ بالآخر بٹوارہ ہوا۔ ڈیورنڈ لائن کے اس پار افغانستان اور اس پار ہندوستان۔ جو رنجیت سنگھ نے جیتا تھا وہ ہمارا، باقی سارا تمھارا۔ 1890ء کے لگ بھگ سو سال کے لیے یہ لائن کھینچی گئی برطانیہ کی طرف سے، سر ڈیورنڈ نے معاونت کی، گھوڑے پر سوار یہ شخص لائن کھنچواتے گھوڑے سے گرگیا، اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی، بالآخر چند سال میں مرگ بستر رہتے ہوئے وفات پائی۔ میں نے کہا ناں! آدمی آنکھیں، کان، زبان وغیرہ نہیں ہوتا، وہ اپنے ماحول کا عکس ہوتا ہے۔
اگر جنوب میں جائیں تو جہاں دریائے سندھ سمندر میں گرتا ہے، وہاں کے مچھیروں کی اپنی بناوٹ ہے۔ وہ اپنے ماحول کا عکس ہیں۔ مچھلی پکڑنا ان کا سب کچھ جو ٹھہرا۔ اور دوسری طرف پہاڑوں کی چٹانوں پر رہتے ہوئے یہ پشتون پہاڑوں کے عکس ہی تو ہیں۔ صدیوں تک سمندروں سے کوئی حملہ آور نہ آیا، ایک سانت تھی کہ جیسے کوئی خاموشی ہو۔ تو تہذیب بھی یہاں بنی، وہ موہنجو دڑو ہو، ہڑپہ ہو یا پھر آزاد سندھ کا آخری دارالخلافہ ٹھٹھہ ہو۔
میر انیس کہتے ہیں:
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہہ شیشہ گری کا
ہم نے پشتونوں کے ساتھ بہت کھیلا، ان کی رِیتوں، رسموں اور روایتوں کے ساتھ، ورنہ ان کا پہلا لیڈر خان عبدالغفار خان باچا خان تھا۔ موصوف سیکولر تھے، کانگریسی تھے۔ نہرو یا ولبھ بھائی پٹیل کے نہیں، گاندھی کے پیروکاروں میں سے تھے۔ اہنسا یا عدم تشدد کے علمبردار تھے۔ وہ پشتونوں کی نبض پر ہاتھ رکھتے تھے۔ اسے ان پہاڑوں پر رہتی ہوئی اس قوم کی دکھتی رگوں کا پتہ تھا۔ اسے پتہ تھا کہ مذہب کا استعمال پشتونوں کو ایک بڑے بھنور میں پھینک دے گا۔ 1946ء کے ریاستی انتخابات میں پشتونوں نے باچا خان کو حکومت بنانے کا موقع دیا۔ اب کیسے بنے پاکستان؟ اور اس کے ساتھ خود انگریز کے جانے کے بعد کیا ہو گا اس ڈیورنڈ لائن کا، جس کی دہلیز پر عالمی سامراج کا حریفِ اول سوویت یونین آن ٹھہرا تھا۔
کلدیپ نیئر اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیںکہ ''بالآخر ریفرنڈم کا راستہ چنا گیا اور پشتونوں کے جذبات مذہب کے نام پر ابھارے گئے کہ باچا خان کی حکومت شریعت کو نہیں مانتی وغیرہ وغیرہ، اور یوں ایک جھٹکے میں ایک سال کے اندر ہی پشتونوں نے ریفرنڈم میں باچا خان کی ایک بھی نہ سنی اور پھر قائداعظم نے فقط یک جنبش قلم کانگریس کی آئینی حکومت ختم کردی۔ ہمیں لگ بھگ ستر سال لگ گئے سرحد کو خیبر پختونخوا کہنے میں، اس کا نام جو انگریز نے NWFP رکھا، ہم نے اسے لغت میں سرحد کہا۔ سرحد یعنی ''بارڈر'' ایک ایسی سرحد جو ہے کہ نہیں ہے۔ دونوں طرف ایک زباں، ایک مذہب، ایک ہی قبیلہ، چچا و تایا اِدھر، تو پھوپھی اور خالہ ادھر۔ پہاڑوں کی نسبت سے یہ لوگ بندوقیں بنایا کرتے تھے۔
حملہ آوروں کے خطروں کی وجہ سے یہ لوگ چاق و چوبند رہا کرتے تھے۔ اپنے مذہب سے بہت پیار کرتے تھے اور پھر ایک دن افغانستان میں بالآخر سوویت یونین آہی گیا۔ سرد جنگ والا امریکا و بین الاقوامی سامراج ٹرمپ سے بھی زیادہ بھیانک تھا۔ اور یوں ہی پھر ''کافر آیا، کافر آیا'' پشتونوں کے جذبات کو ابھارا۔ اور پھر ایک نیا دنگل ہوا۔ پھر اس دنگل کی تفصیل میں تو نہیں جاتے۔ ہمارے شرفاؤں کے دماغ میں ہوا بھرگئی۔ اسٹرٹیجک ڈیپتھ کے نام سے ایک فلسفہ آیا۔ دوسری طرف جو انگریز سامراج نے ہندوستان، پاکستان کے بیچ بٹوارہ کرتے کرتے کشمیر کو ادھورا چھوڑ دیا۔ کلدیپ نیئر لکھتے ہیں۔
''ولبھ بھائی نے کہا کشمیر سے نہرو ہاتھ نکال لو، اسے جانے دو پاکستان کے پاس''۔ مگر نہرو کو اپنی خاندانی تاریخ سے بے تکی سی انسیت تھی۔ ماؤنٹ بیٹن ان کے گھر کی بات تھی۔ وہ کشمیر کے بٹوارے میں مبہمیت چھوڑ گیا، اور آج تک اس کا حل نہ مل سکا۔ وہاں پر ان کی اور پنڈت کی چاندی لگ گئی اور یہاں جہادیوں کی۔ مارا کون گیا؟ یہاں کے عوام، پشتون، پنجابی، سندھی، بلوچ وغیرہ وغیرہ۔
بھٹو تھے تو عوامی، کشمیر کے معاملے میں وہ حد سے زیادہ جنونی تھے، بھلا آخر کیا کرتے؟ ہم نے اس ملک کی Narrative جو ایسی بنائی، اقتدار میں آنے کے لیے ہمیں اس Narrative کا سوداگر ہونا تھا۔ اگر آپ وڈیروں اور سرمایہ داروں کے رہبر ہیں، لیڈر ہیں تو اقتدار آپ کی مجبوری ہے اور اگر نیلسن منڈیلا کی طرح اپنی قوم کو شکنجوں سے آزاد کرانا چاہتے ہیں تو باچا خان کی طرح آپ غدار ٹھہرے۔ لاہور میں دھماکا ہوا، پشتونوں کو لاہور بدر کرنے کا فیصلہ صادر ہوا، یہ کسی نے نہ جانا کہ جتنے انتہاپسندوں کے ڈیرے پنجاب میں ہیں، وہ تو کہیں بھی نہیں۔ ہم نے یہ کبھی نہ جانا کہ خودکش حملہ کرنے والا فرد کم عمر بچہ ہے، اس کے پیچھے ایک طویل فلسفہ ہے، مذہب کے نام کا، ان نفرتوں کے نام پر آنے والے چندوں کا۔ ان اداروں کا، جو مدارس کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ہمیں اشد ضرورت تھی جہادیوں کی، ہم نے مدارس کی فیکٹریاں لگا دیں۔ اتنی جلدی پھر یہ جہادی پیدا ہونے لگے کہ کلاشنکوف بھی اتنی جلدی تیار نہ ہوگی۔
قصور پشتونوں کا نہیں، شرفاء کی سوچ کا ہے۔ شکارپور میں بروہی قبیلہ اپنی قبیلے کی بالادستی کے لیے بہت سے خودکش حملہ آوروں کو پناہ دیتا ہے۔ تو کیا اس میں سارے بروہیوں کا قصور ٹھہرا۔ کل میری ایک ڈاکٹر دوست نے بتایا ان کے اسپتال میں بہت سارے لوگوں کو نوکری ملی ہے۔ اب جب میڈیکل ٹیسٹ ہوئے تو سب سے زیادہ ہیپاٹائٹس سندھی اسٹاف میں پایا گیا۔ تو کیا اس کے قصور وار بھی سندھی ہی ٹھہرے۔ سیہون پاکستان کا محور ہے، اس کے در ہر ایک کے لیے کھلے ہیں، ہر مذہب و فرقے کے لیے کھلے ہوئے ہیں اور یہی بانی پاکستان جناح کہتے تھے کہ تم لوگ اب آزاد ہو، تم اپنی مرضی سے مندروں، چرچ و مسجد میں جاسکتے ہو، تمہیں کوئی بھی نہ روکے گا۔
جاتے جاتے ایک طنزیہ نوٹ کے ساتھ یہ بھی عرض کردوں ایک پشتون ہمارے زرداری صاحب کو بہت اچھا لگا، وہ مروّت میں مروت صاحب سے بغلگیر نہیں ہوئے تھے، وہ ایک ہی خیال کے تھے۔ ان کے خیالوں کے اگر کوئی نہ تھے تو وہ بے نظیر، بختاور اورآصفہ ہیں۔