عالمی استعمار کی لوٹ سیل
مزاحمت کرنے اور مسلسل لڑنے کی ہمت اور قوت کم ہوگئی۔
دنیا کے چند ممالک مہذب، ترقی یافتہ، تعلیم یافتہ اور بااصول کہے جاتے ہیں، وہ ہیں نیوزی لینڈ، آسٹر یلیا اور کینیڈا۔ آئیے ان کی تہذیب اور انسانی اقدار کا جائزہ لیتے ہیں۔ 1642ء میں ہالینڈ نے نیوزی لینڈ پر قدم رکھا۔ وہ اپنے بحری بیڑے پر آئے اور مقامی آبادی پر مظالم ڈھائے اور 1769ء تک قابض رہے۔ لٹیروں میں بھی رسہ کشی ہوتی ہے۔ وہ 1840ء تک قابض رہے۔ ان تین سو برسوں میں ان کے وسائل لوٹتے رہے۔ ڈچ اور انگریز اپنے شہریوں کو نیوزی لینڈ منتقل کرتے رہے۔ ادھر مقامی آبادی بیماریوں اور غذائی قلت سے مرتی رہی اور یورپی شہری ان کے وسائل پر پلتے رہے۔
برطانوی سامراج نے جب نیوزی لینڈ کے ماؤری قبیلے کو زمین دینے کو کہا تو انھوں نے انکار کیا، جس پر 1860ء سے بیس سال تک ان سے جنگ لڑی، بعد میں ان کی زرخیز زمین پر قبضہ کر لیا۔ 1870ء میں انگریزوں کو وہاں لایا گیا، ان کے جنگلات کو تباہ کر کے زراعت کے لیے قبضہ کر لیا اور وہاں اپنی صنعتی پیداوار کو فروخت کرنے لگے۔ جب لوٹ مکمل ہو گئی تو وہاں کی آبادی نے آزادی کا مطالبہ کیا۔ صورتحال یہ تھی کہ مقامی آبادی ہزاروں میں اور یورپی آبادی لاکھوں میں ہو گئی پھر حکومت بھی گوروں کی ہی بنی۔ اسی طرح 1608ء میں ڈچ سامراج نے آسٹریلیا پر قبضہ جمایا، بعد میں جنوری 1788ء میں آسٹریلیا کی مقامی آبادی پر برطانوی سامراج مظالم ڈھاتے رہے۔
آسٹریلیا کی ساحلی علاقوں پہ جب برطانیہ کے بحری بیڑے لنگر انداز ہوئے تو 146 سال تک مقامی آبادی کے ساتھ جنگ و جدل جاری رہی، اور آخری لڑائی 1934ء تک ہوئی۔ اس لڑائی میں بیس ہزار مقامی اور دو سے ڈھائی ہزار یورپی جان سے جاتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی مختلف بیماریوں کا شکار ہوئی۔ آسٹریلیائی قبیلوں کو چیچک نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وکٹوریہ، نیو ساؤتھ ویلس اور کوئنس لینڈ کے پچاس فیصد لوگ ان بیماریوں میں مبتلا ہو گئے تھے۔ آبادی کے بکھرنے سے مویشیوں کی بڑی تعداد بھی ماری گئی۔
اس سے ان کی مزاحمت کرنے اور مسلسل لڑنے کی ہمت اور قوت کم ہوگئی۔ جب دوسرا بحری بیڑا آیا تو برطانوی استعمار نے سب سے پہلے زمین پر قبضہ کر کے اس کو قانونی حیثیت دے دی۔ اس زمین پر مقامی آبادی کو کاشت کرنے کا حق نہیں تھا۔ 1786ء میں برطانیہ نے قیدیوں کی کالونی قائم کی۔ مقامی آبادی کی بنیادی غذا گوشت تھی، برطانوی قابضین نے شکار پر پابندی لگا دی۔ ایک اور بحری بیڑا 1788ء میں جنوب مشرق تسمانیہ اور وکٹوریہ میں داخل ہوا اور 1803ء تک یہ بحری بیڑا لنگر انداز رہا۔ مقامی آبادی کے پاس پسماندہ ہتھیار تیر کمان تھے، جب کہ انگریز گھوڑوں پر سوار تھے اور ان کے ہاتھ میں بندوقیں تھیں۔ یہی صورتحال برطانیہ کا کینیڈا کے ساتھ رہی۔
اٹھارہویں صدی میں کینیڈا کے میدانی زرخیز علاقوں میں قبائل کو ایک سازش کے تحت مہلک بیماریوں جراثیم سے بھرے آلودہ کمبل تقسیم کیے گئے، جنھوں نے پورے پورے گاؤں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ مقامی قوموں کو ان کے علاقوں سے بے دخل کر کے مخصوص بنجر علاقوں میں دھکیل دیا گیا۔ ان کی زرخیز زمینوں اور ماہی گیری کے لیے مخصوص علاقوں پر یورپی مہاجرین کو آباد کر دیا گیا۔ انھیں ان کے خوراک کے ذرایع سے دور آباد کر کے فاقے اور قحط کے ذریعے انھیں اپنی مرضی کے معاہدے پر مجبور کیا گیا۔ 1876ء میں کینیڈا کی پارلیمنٹ نے بدنام زمانہ ''انڈین ایکٹ'' کا اعلان کیا، جس کے مطابق قدیم آبادی کو اپنے معاملات کا انتظام خود سنبھالنے کے حق سے محروم کر دیا گیا۔
بغیر اجازت کے اپنے تہذیبی لباس پہننے سے روک دیا گیا، ان کے میلوں اور رسومات پر پابندی لگادی گئی۔ چند دہائیوں قبل محض ''ایب اوریجنل'' ناچ ناچنے پر لوگوں کو جیل بھجوا دیا جاتا تھا۔ کینیڈا کے پہلے وزیراعظم جان میکڈونلڈ کا کہنا تھا کہ ''ایک انڈین کو بچپن میں ہی ختم کر دو''۔ اس حوالے سے سب سے بڑا جرم ان کے بچوں کو زبردستی ان کے والدین سے الگ کر کے چرچ کے زیر انتظام رہائشی اسکولوں میں رکھنا تھا۔ یہ اسکول 1876ء سے 1996ء تک تعلیم دینے اور تہذیب سکھانے کے نام پر پانچ سے اٹھارہ سال کی عمر کے معصوم بچوں کو شدید جسمانی، ذہنی اور جنسی اذیتیں دیتے رہے۔
انھیں یہاں اپنی زبان بولنے پر پابندی تھی۔ والدین جب ہفتے میں چند منٹ کے لیے اپنے بچوں سے ملنے آتے تو انھیں اپنی زبان میں بولنے کی اجازت نہ تھی، یہاں تک کہ اگر سگے بھائی بہن ایک اسکول میں پڑھتے تو انھیں بھی اپنی زبان میں بولنے کی اجازت نہ تھی۔ عیسائی رہبائیں نوزائیدہ بچوں کو ابلتے ہوئے پانی میں ڈال کر مار دیتی تھیں۔ نوزائیدہ بچوں کے منہ پہ تکیہ رکھ کر ہلاک کرنا ایک معمول تھا۔
کیوبک صوبے میں ایک اسکول میں بچوں کو سزا دینے کے لیے بجلی کی کرسی استعمال کی جاتی تھی۔ سزا دینے سے قبل بچوں کو بتا دیا جاتا تھا کہ تکلیف کے باوجود آواز نکالی گئی تو سزا کا دورانیہ بڑھا دیا جائے گا۔ بیمار بچوں کو ان کی قے دوبارہ پینے کا حکم دیا جاتا تھا۔ اگر بچے بھاگ جاتے تو انھیں پولیس کے ذریعے پکڑ کر لایا جاتا۔ 1940-50ء کی دہائی میں ان بچوں کو سائنسی تجربات کا معیار بہتر کرنے کے لیے طبی امداد سے بھی محروم رکھا جاتا۔ اٹھارہ سال کی عمرکے بعد جب انھیں خاندان سے ملنے کی اجازت ملتی تو وہ اپنی زبان، تہذیب اور روایات سب بھول چکے ہوتے تھے۔
ان تمام ناانصافیوں، اذیتوں، ذلتوں اور طبقاتی استحصال سے نجات کا واحد راستہ امداد باہمی کا آزاد سماج یا قدیم کمیونسٹ نظام کے قیام میں مضمر ہے، جہاں کوئی طبقہ ہو گا اور نہ کوئی ریاست۔ ملکیت، جائیداد، ملکوں کی سرحدیں ختم ہو جائیں گی، کوئی گداگر ہو گا اور نہ کوئی کھرب پتی۔ ایک آسمان کے نیچے ایک ہی خاندان ہو گا، کوئی طبقہ ہو گا اور نہ کوئی ریاست۔ سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر کھائیں گے۔ آپ سوچتے ہوں گے کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں، مگر خواب دیکھے بغیر منزل کی تلاش بھی نہیں کر سکتے۔ پرندے کو اڑتے ہوئے اگر ہم نہ دیکھتے تو ہوائی جہاز بھی ایجاد نہ ہوتا۔ پھر ایک ایسا سماج قائم ہو گا جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔