سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی

یہ ان دنوں کی بات ہے، جب میں ابھی لاہور نہیں گیا تھا اور کراچی کی دو تین فلموں میں گیت لکھ چکا تھا


یونس ہمدم March 04, 2017
[email protected]

یہ ان دنوں کی بات ہے، جب میں ابھی لاہور نہیں گیا تھا اور کراچی کی دو تین فلموں میں گیت لکھ چکا تھا۔ انھی دنوں کراچی ریڈیو اسٹیشن سے گلوکارہ نسیم بیگم کی آواز میں ایک خوبصورت غزل سنی، جس کا مطلع تھا۔

سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی
دنیا کی وہی رونق دل کی وہی تنہائی

اور غزل کے آخر میں بتایا گیا کہ ابھی صوفی تبسم کی لکھی ہوئی غزل نسیم بیگم کی آواز میں سماعت فرمارہے تھے، فلم کا نام ''شام ڈھلے''۔ بہت عرصے کے بعد میں نے کسی فلم کے لیے صوفی تبسم کا نام سنا تھا ۔ اس زمانے میں صوفی تبسم بچوں کے پسندیدہ شاعر تھے، پھر جب میں لاہور آیا تو پتا چلا کہ صوفی تبسم نے چند فلموں کے علاوہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے بھی بہت ہی دل نشیں غزلیں اور سحر انگیزگیت لکھے ہیں ۔ صوفی تبسم سے میری ایک ملاقات ہوئی تھی وہ بھی پاک ٹی ہاؤس میں، مگر وہ ملاقات کس کے ساتھ ہوئی اورکیسی رہی اس کے بارے میں آگے چل کر تذکرہ کروں گا۔

پہلے میں صوفی تبسم کے ایک پرستار کی حیثیت سے ان کی شاعرانہ شخصیت، ان کی ابتدائی زندگی اور ان کی فلمی دنیا سے وابستگی کے بارے میں روشنی ڈالوں گا۔ صوفی صاحب کے آباؤاجداد کا تعلق کشمیر سے تھا، پھر ان کے والدین ذریعہ معاش کے حصول کی وجہ سے امرتسر آکر آباد ہوگئے تھے۔ امرتسر سے لاہور چلے آئے اور یہاں کے ہوکر رہ گئے۔ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم ان کا پورا نام تھا۔ ابتدا میں پنجابی زبان میں شاعری کا آغاز ہوا، پھر اردو اور فارسی کی طرف راغب ہوتے چلے گئے، فارسی ادب سے دلچسپی بڑھتی چلی گئی، مولانا روم کی شاعری سے بڑے متاثر تھے، ادب اور فلسفہ ان کی شاعری کا محور تھا۔

لاہورکے ادبی حلقوں میں ان کا ایک منفرد مقام بنتا چلا گیا۔ شروع میں اس دور کے مشہور اخبار انقلاب اور زمیندار میں لکھتے رہے اور شاعری کا سفر بھی آگے بڑھتا رہا، پاکستان کے جید ادبی پرچوں میں ان کاکلام چھپتا تھا، جن میں نقوش لاہور اور افکار کراچی کے نام شامل تھے، کچھ عرصہ ماہنامہ لیل ونہار کے ایڈیٹر بھی رہے، اخبارکے علاوہ ریڈیو اور پھر ٹیلی ویژن سے بھی ان کی وابستگی رہی۔ صحافت کے ساتھ ساتھ محکمہ تعلیم میں بھی کچھ عرصہ کام کیا، مگر ملازمت کاماحول ان کے مزاج سے میل نہیں کھاتا تھا۔ ان کی لکھی ہوئی بہت سی نظموں کو اردو نصاب میں بھی شامل کیا گیا تھا۔ لاہور ریڈیو کے لیے لکھی ہوئی ان کی غزلوں کو بھی بڑی شہرت ملی خاص طور پر گلوکارہ فریدہ خانم کی گائی ہوئی ایک غزل کو بڑی شہرت حاصل ہوئی جس کا مطلع تھا:

وہ مجھ سے ہوئے ہمکلام اللہ اللہ
کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ اللہ

صوفی تبسم کی ریڈیو ہی کے لیے لکھی ہوئی اور گلوکار مسعود رانا کی گائی ہوئی ایک اور غزل کو بڑی شہرت ملی تھی اور مسعود رانا کی قدر میں بھی بڑا اضافہ ہوا تھا، اس غزل کے چند اشعار نذر قارئین ہیں:

دل کو جب بے کلی نہیں ہوتی
زندگی زندگی نہیں ہوتی
کیا کرو گے کسی کی دلداری
تم سے تو دلبری نہیں ہوتی
موت کی دھمکیاں نہ دو مجھ کو
موت کیا زندگی نہیں ہوتی

صوفی تبسم کی اس غزل میں صوفیانہ رنگ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ یہی وہ دور تھا کہ صوفی تبسم کو فلمی دنیا سے بھی شناسائی ہوئی اور فلم ''شام ڈھلے'' میں ان کی ایک غزل جو فلم میں اداکارہ صبیحہ پر فلمائی گئی تھی اور جس کی موسیقی رشید عطرے نے مرتب کی تھی۔ ایک لازوال غزل بن کر منظر عام پر آئی اور نسیم بیگم کو اس غزل کی گائیکی پر بہترین گلوکارہ کا نگار ایوارڈ اور اس کے ساتھ ہی اور بہت سے ایوارڈز دیے گئے تھے۔

نسیم بیگم کی آوازکی کھنک اور رچاؤ بالکل میڈم نورجہاں کی آواز جیسا تھا، ابتدا میں بہت سے لوگوں نے سمجھا کہ یہ غزل نورجہاں نے گائی ہے مگر جب اس غزل پر نسیم بیگم کو بہترین گائیکہ کے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا تو اخبارات میں انٹرویوز اور مضامین کے ذریعے موسیقی کے قدردانوں اور دیوانوں کو پتا چلا کہ یہ غزل نورجہاں نے نہیں بلکہ نسیم بیگم نے گائی ہے۔

پہلی بار نسیم بیگم کو سن کر اس دورکا باصلاحیت موسیقار شہریار بڑا متاثر ہوا تھا اور نسیم بیگم کو پہلی بار شہریار ہی نے فلم ''بے گناہ'' میں متعارف کرایا تھا۔ نسیم بیگم نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم نامور غزل گائیک فریدہ خانم کی بڑی بہن اور مشہور کلاسیکل سنگر مختار بیگم سے حاصل کی تھی۔ اونچے سروں تک جم کرجانا اور بڑے رچاؤ کے ساتھ واپس آنا یہ خوبی میڈم نور جہاں کے بعد نسیم بیگم کی آواز ہی میں تھی۔ اب میں پھر صوفی تبسم کی طرف آتا ہوں۔

صوفی تبسم نے ایک پنجابی فلم ''پتھر تے لیک'' کے لیے بھی گیت لکھے تھے، مگر وہ فلم ناکام رہی تھی پھر ایک اور اردو فلم ''ایک تھی لڑکی'' کے لیے بھی چند گیت لکھے، مگر وہ فلم بھی بری طرح فلاپ ہوئی۔ اس طرح صوفی تبسم کو فلمی دنیا راس نہ آسکی۔ وہ اپنے مزاج کے اعتبار سے بھی درویش قسم کے انسان تھے، وہ فلمی دنیا کی چرب زبانی میں خود کو جذب نہیں کرسکتے تھے۔ وہ اپنی ذات میں بھی بہرطور صوفی ہی تھے۔ جلد ہی فلمی دنیا سے اپنا تعلق توڑ کر پھر ادب کی طرف متوجہ ہوگئے۔

اب آتا ہوں میں اس ملاقات کی طرف جو صوفی تبسم صاحب سے پاک ٹی ہاؤس لاہور میں ایک ادبی بیٹھک کے موقعے پر ہوئی تھی۔ میں جب اپنے اداکار دوست ناظم کے ساتھ پاک ٹی ہاؤس پہنچا تو میرے پہنچنے میں دیر ہوگئی تھی اور بیٹھک کے اختتام پر صوفی تبسم، قتیل شفائی اور دیگر کئی ادبی شخصیات بیٹھک کے بعد ٹی ہاؤس سے رخصت ہو رہی تھیں، میں نے آگے بڑھ کر بڑے ادب سے صوفی تبسم صاحب سے مصافحہ کیا۔ انھوں نے بڑی شفقت کا اظہار کیا تھا، سر پر اپنا ہاتھ رکھا، اس دن ان کی طبیعت کچھ ناساز تھی، کھانسی وغیرہ تھی وہ جلد ہی وہاں سے چلے گئے اور یہ میری ان سے پہلی اور آخری مختصر سی ملاقات تھی۔ صوفی تبسم کی فارسی شاعری کو ایران میں بھی بڑی پذیرائی حاصل ہوئی تھی اور فارسی ادب کو پاکستان میں فروغ دینے پر ایران کی حکومت کی طرف سے انھیں نشان فضیلت بھی عطا کیا گیا تھا۔

ان کی شاعری کے کئی مجموعہ کلام شایع ہوئے ہیں جن میں ان کی ابتدائی پنجابی شاعری ''نظراں کردیاں گلاں'' کے نام سے منظر عام پر آئی اور ان کے دیگر مجموعہ کلام 'دامن دل، سر اشک انجمن اور 'تبسم' کو ادبی حلقوں میں آج بھی بڑی اہمیت حاصل ہے۔ میری بڑی خواہش رہی کہ میں ایک اور تفصیلی ملاقات کرتا مگر پھر صوفی تبسم کافی بیمار رہنے لگے تھے، ادبی محفلوں میں آنا جانا بھی نہ رہا تھا، بس چند دوستوں کی خبر گیری کی دلچسپی رہ گئی تھی۔ 7 فروری 1978 کو دل کا ایک جان لیوا دورہ پڑا اس کے ساتھ ہی اردو، فارسی ادب کی ایک عظیم شخصیت اس دار فانی سے رخصت ہوگئی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں