شیخ رشید کی دلی خواہشیں اور تمنائیں
اِس نئے جمہوری دور کی ابتدا میں اُنہوں نے صدرِ مملکت سے ملاقات کر کے دوستی اور محبتوں کا نیا رشتہ استوار کرنا چاہا
لاہور:
رات کے اندھیرے میں ٹرک کی پچھلی لائٹس کو اپنی روشن منزل سمجھ کر دوڑنے کا اِس قوم کو طعنہ دینے والے ہمارے مہربان جناب شیخ رشید آج کل خود کسی ایسی ہی کیفیت سے دو چار ہیں۔ چھ بار مختلف و فاقی وزارتوں کا لطف اُٹھانے والے ہمارے یہ غم خوار آج کل اپنی سیاسی تنہائی اور عوامی عدم توجہ اور بے وفائی کی وجہ بہت سخت تکلیف اور اختلاج میں مبتلا ہیں۔ اُن کا بس نہیں چل رہا کہ وہ اسلام آباد کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دیں۔
پرویز مشرف کے ہر آمرانہ فیصلے کی آنکھیں بند کر کے مکمل تائید و حمایت کرنے والے اُن کے بے لوث اور انتہائی مخلص ترجمان ہمارے یہ دوست موجودہ جمہوری دور میں ایک عجیب ذہنی کیفیت سے گزر رہے ہیں۔ اُن کی دس بارہ ممبروں پر مشتمل سیاسی پارٹی میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ اکیلے ہی دارالحکومت کا دھڑن تختہ کر دیں اور نہ اُن کے اپنے اندر قوم کی درست سمت میں رہنمائی کے لیے وہ خداداد قائدانہ صلاحیت ہے جسے استعمال کر کے وہ اِس مصیبت زدہ قوم کو اِس پانچ سالہ نا گہانی عذاب سے باہر نکال سکیں۔
اِس کے لیے وہ انتہائی بے چینی کے عالم میں دوسروں کا کندھا ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ سابقہ ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے غیر جمہوری دور میں اُن کے زبردست مدح سرا اور ہمنوا بننے والے اِس شخص کو آج ایک ایسی سیاسی تنہائی کا سامنا ہے جہاں کوئی بھی شخص اُن کے قول و فعل پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ اعلیٰ عدلیہ پر شبِ خون مارنے کا آمرانہ فیصلہ ہو یا لال مسجد پر گولہ بارود برسانے کا شقاوت سے بھر پور شاہی حکم نامہ ، جنرل ریٹائرڈ کے ہر فیصلے پر اُن کا ساتھ نبھانے اور ان کی حمایت میں دلائل و توجیحات کے انبار لگانے والے راولپنڈی کے اِس لیڈر کوئی بھی آج اپنے ساتھ ملانے تو تیار نہیں۔ وہ صرف ٹی وی ٹاک شوز ہی میں اپنی آتش بیانی اور سحر انگیزی کے ذریعے قوم کو جمہوریت سے بد دل کرنے کی سعی و جستجو کرتے رہتے ہیں۔
اِس نئے جمہوری دور کی ابتدا میں اُنہوں نے صدرِ مملکت سے ملاقات کر کے دوستی اور محبتوں کا نیا رشتہ استوار کرنا چاہا لیکن ذہنی ہم آہنگی کے فقدان اور نظریاتی اختلاف کی بدولت یہ کوشش صرف ایک ملاقات ہی تک محدود ہو کر رہ گئی اور بات آگے نہ بڑھ سکی۔ لاچاری اور مجبوری کے عالم میں اُنہوں نے حکومت کے خاتمے کی تاریخیں دینا شروع کر دیں اور اپنی ہی پیشین گوئیوں کے مطابق وہ چھ ماہ سے زیادہ اِس حکومت کو چلتا نہیں دیکھ رہے تھے۔ اُن کے خیال میں حکمراں اپنی نا اہلیوں اور ناقص منصوبہ بندیوں کی وجہ سے خود ہی خودکشی کر بیٹھیں گے۔ لیکن اپنے خوابوں کی ساری تعبیریں اُلٹی ہوتی دیکھ کر رفتہ رفتہ اُن کے خیالات میں تبدیلی آتی گئی اور وہ جناب آصف علی زرداری کی مفاہتی پالیسی اور سیاسی سوجھ بوجھ کے بڑے معترف اور قائل ہوتے دکھائی دینے لگے۔
اپنے جمہوریت گریز خیالات کو جلا بخشنے اور دلی خواہشوں کی تکمیل کے لیے وہ اِن پانچ سالوں میں کئی بار غلط فہمیوں کا شکار ہوتے گئے اور سیاسی اُفق پر رونما ہونے والے چند اہم واقعات کو لے کر وہ اِس قدر پُر اُمید اور توقع لگا بیٹھے کہ جیسے حکومت اب گئی کہ تب گئی۔ خاص کر میمو گیٹ اسکینڈل میں اُنہوں یہ سمجھ لیا تھا کہ یہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک انتہائی اہم موڑ ثابت ہو گا اور ملک کے اندر سیاسی تبدیلی کا باعث بنے گا لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا اور اُن کی تمام اُمیدوں اور حسرتوں پر پانی پھر گیا۔
پھر گزشتہ برس ہونے والے سینیٹ کے انتخابات بھی اُنہیں ایک بڑی سیاسی تبدیلی کا پیش خیمہ دکھائی دے رہے تھے اور وہ مارچ 2012ء سے پہلے کسی بڑے سیاسی حادثے کی آس و اُمید لگائے بیٹھے تھے۔ اُنہیں یہ غلط فہمی تھی کہ میاں نواز شریف سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی متوقع اکثریت کے پیش نظر حکومت کے خلاف کوئی ایسا دنگل کھیلیں گے کہ یہ الیکشن ہو ہی نا پائیں مگر یہاں بھی اُنہیں مایوسیوں ہی کا سامنا کرنا پڑا اور سب نے دیکھا کہ سینیٹ کے الیکشن اپنی مقررہ تاریخ پر بخوبی سر انجام ہو پائے اور کوئی انہونی نہ ہو سکی۔
تمام خواہشیں اور حسرتیں دلوں کے اندر ہی دم توڑ گئیں۔ میاں صاحب کو پاکستانی سیاست کی پُرانی روش اپنا نے کے لیے اُنہوں نے کئی بار اُکسانہ چاہا اور کبھی محبت سے اور کبھی اشتعال دلا کر ہر حربہ انھوں نے استعمال کر لیا لیکن کوئی کوشش کامیاب نہ ہوئی ۔
میاں نوا ز شریف سے ہر طرح مایوس اور نا اُمید ہونے کے بعد اُنہوں نے عملی سیاست کے نو وارد عمران خان کو اپنی آس و اُمید کا محور بنا نا چاہا اور گھیر گھار کے اُنہیں اپنے ساتھ ملا ہی لیا۔ مگر یہ ساتھ بھی عوامی پذیرائی حاصل کرنے کا کوئی بڑا ذریعہ نہ بن سکا اور موصوف کی سیاسی تنہائی کا کوئی علاج دریافت نہ ہو سکا۔ عمران خان کی شیخ رشید کے ساتھ نئی نئی دوستی اور محبت کو خود تحریک ِ انصاف میں اچھا نہیں سمجھا گیا اور اِسے پارٹی کے لیے مہلک اور زہرِ قاتل قرار دیا جانے لگا۔
لہٰذا اِس نئے رشتے میں سرد مہری یقینی تھی جو بالآخر ایک دوسرے سے دوری کا باعث بنتی جا رہی ہے۔ اب لال حویلی کے اِس بے آسرا مکیں کو اپنا غم ِ تنہائی دور کرنے کے لیے پھر کسی نئے سہارے کی ضرورت تھی جو طاہر القادری کی اچانک کینیڈا سے واپسی نے شاید پوری کر دی۔ اب وہ شیخ الاسلام کے اعلان کردہ لانگ مارچ سے اپنی تمام توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں اور الیکشن سے پہلے ایسے کسی دھوم دھڑکے کی آس لگائے بیٹھے ہیں جو بہر حال جمہوریت کے خاتمے پر منتج ہو۔
یہ اُن کے دل کے نہاں خانوں میں چھپی ایک ایسی خواہش ہے جس کا برملا اور بے ساختہ اظہار وہ کبھی کبھار اپنے ٹی وی انٹرویوز میں غلطی سے کر جاتے ہیں۔ وہ خود کسی عوامی ریلے کی رہنمائی اور کسی نیک مقصد تحریک کی قیادت کرنا نہیں چاہتے بلکہ باہر بیٹھ کر تماشا دیکھنا اور بعد ازاں مالِ غنیمت میں حصے دار بننے کے خواہاں ضرور معلوم ہوتے ہیں۔ شیخ رشید جنہوں نے اپنی ساری سیاسی زندگی مختلف وزارتوں کے مزے کرتے گزاری ہو، گزشتہ پانچ سالوں سے انتہائی مایوسی اور بے چارگی کا شکار ہیں۔
عوامی بے اعتنائی اور سرد مہری کی وجہ سے وہ انتہائی دلبرداشتہ اور آزردہ ہیں۔ اگلے انتخابات میں اُنہیں اپنے حلقے سے بھی کوئی کامیابی دکھائی نہیں دے رہی۔ لہذا غیر جمہوری قوتوں سے کوئی آس و اُمید لگانا ایک فطری عمل ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اِس بار وہ اپنی تمناؤں اور حسرتوں کو پورا ہوتا دیکھ پائیں گے یا نہیں۔ اگر شیخ الاسلام کا لانگ مارچ اسلام آباد میں کوئی افرا تفری یا تہلکہ نہیں مچا سکا تو پھر وہ کہاں کھڑے ہونگے۔ عمران خان کی سونامی تو شیخ الاسلام کے لانگ مارچ کے ڈرامائی اعلان میں کہیں دم توڑ گئی ہے اگر طاہر القادری کا اسلام آباد کوالتحریر اسکوائر بنا دینے والا لانگ مارچ کہیں سمٹ کر واپس کینیڈا چلا گیا تو شیخ رشید اپنی حسرتوں کا ماتم کیسے کر پائیں گے۔ اُنکے پاس تو پھر الیکشن میں جانے کے سوا کوئی راستہ نہیں رہے گا۔ ضمانت کے ضبط ہو جانے کا خوف اُنہیں کہیں الیکشن کے بائیکاٹ پر مجبور نہ کر دے۔