انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی تھوڑا انتظار
پاکستان سپر لیگ کا فائنل ہوئے اب چار دن گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک اسی کی بات ہو رہی ہے
JHANG:
پاکستان سپر لیگ کا فائنل ہوئے اب چار دن گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک اسی کی بات ہو رہی ہے۔ اس فائنل کے انعقاد سے پہلے دہشت گردی کی ایک خوفناک لہر نے پاکستان کے متعدد شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ پاکستان سپر لیگ کے فائنل کے لیے قذافی اسٹیڈیم لاہور کا انتخاب ہوا تو اس کے بعد لاہور ہی میں دھماکا ہو گیا۔ جس دن دھماکا ہوا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دو ٹوک اعلان کیا کہ فائنل ہر صورت لاہور میں ہو گا۔ ادھر اعلان ہوا ،ادھر سیاسی اور فوجی قیادت سرجوڑ کر بیٹھ گئی۔
اجلاسوں پر اجلاس ہونے لگے اور پھر یہ اعلان ہو گیا کہ کچھ بھی ہو جائے کرکٹ کا یہ اہم ترین میچ ہو گا اور لاہور کے قذافی اسٹیڈیم ہی میں ہوگا۔ 5مارچ کی شام یہ میچ ہوا اور پوری دنیا نے اسے دیکھا۔ انٹرنیشنل میڈیا میں اس پر تبصرے ہوئے حتیٰ کہ بھارتی میڈیا کو بھی تسلیم کرنا پڑا کہ پاکستان نے یہ معرکہ سر کر لیا ہے۔ عمران خان جو اس کے انعقاد کو پاگل پن قرار دے چکے تھے، انھوں نے بھی نیک تمنائوں کا اظہار کیا اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔
عمران نے ویسے اتنا غلط نہیں کہا تھا۔ یہ پاگل پن ہی تھا جو اتوار کی دوپہر سے آدھی رات تک قذافی اسٹیڈیم کے اندر اور دو تین دن پہلے سے پورے پاکستان اور لاہور کی سڑکوں پر نظر آیا۔ آپ نے نہیں دیکھا کہ میچ ایک 24، 25 ہزار تماشائیوں کی گنجائش والے اسٹیڈیم کے اندر ہو رہا تھا مگر اس دوران پورے ملک کی سڑکیں سنسان تھیں۔ کراچی کنگز اور لاہور قلندر فائنل میں نہیں تھیں مگر ان دونوں شہروں میں لوگوں کا جوش دیدنی تھا۔ایسے مناظر تو ماضی میں صرف اس وقت دیکھے گئے جب پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان میچ ہوا کرتا تھا۔ آپ اسے پاگل پن کہیں یا جنون، پاکستانی قوم ایسی ہی ہے۔ یہ پاگل پن یا جنون پیدا ہونا اس لیے بھی فطری تھا کہ دہشت گردوں اور فسادیوں نے اس قوم کو للکار رکھا تھا۔ یہ دہشت گرد ہی تھے جنہوں نے ہمارے کھیل کے میدان ویران کر دیے تھے۔ قوم نے ان سے حساب بھی تو چکتا کرنا تھا۔
پاکستانی قوم ابھی تک اس فائنل کے نشے میں مست ہے۔ اس کے مثبت اثرات بھی نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ زمبابوے کے وزیر کھیل اور چیئرمین کرکٹ بورڈ پاکستان کو کرکٹ کے لیے فٹ ملک قرار دے چکے ہیں۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) رواں برس ستمبر میں ورلڈ الیون پاکستان بھجوانے پر غور کر رہی ہے۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم کو دورہ پاکستان کی دعوت دینے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔ عالمی سطح پر انڈیا کا پراپیگنڈا دم توڑنے لگا ہے۔ واقعی پاکستان جیت گیا اور فسادی ہار گئے۔
زمبابوے سمیت کوئی بھی غیر ملکی ٹیم دورہ پاکستان کا اعلان کر دے تو ہم سمجھیں گے محنت ضایع نہیں ہوئی۔ سیکیورٹی فورسز نے قربانیاں دے کر یہ ممکن بنایا ہے۔ تین دن میں دو کیپٹن سمیت ہمارے 7فوجی شہید ہو گئے ہیں۔ آپریشن ردالفساد کی اب تک کی کامیابی یہ ہے کہ فسادی شہروںمیں کارروائیاں کرنے کے بجائے ہمارے بہادر جوانوں پر حملے کر رہے ہیں۔ فسادیوں کے ساتھ جنگ جاری رہے گی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کھیلوں کے میدان ویران رہنے دیں۔ اس طرح تو ہم ان کے سامنے ہتھیار ڈال دیں گے۔
غیر ملکی کرکٹرز اور ٹیم آفیشلز کا بھی شکریہ جو لاہور میں آئے اور جن کی وجہ سے ہمارے میدانوں کی رونق بڑھ گئی۔ ڈیرن سیمی جنھیں اب پیار سے سیمی خان کہا جانے لگا ہے، نے اپنا وعدہ بھی پورا کر دیا۔ پشاور زلمی کی جیت کے بعد وہ ٹنڈ کروا چکے ہیں۔ ٹیم کے دیگر کھلاڑی اور فرنچائز کے مالک کب ایسا کرتے ہیں اس کا سب کو انتظار ہے۔
ویون رچرڈز اور ان کے ساتھ آنے والے تمام غیر ملکیوں کا بھی دل کی گہرائیوں سے شکریہ۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ انٹرنیشنل کرکٹرز اور آفیشلز دوبارہ پاکستان آئیں گے اور پھر وہ وقت بھی آئے گا جب دوسری بڑی کرکٹ نیشنز کی طرح ہمارے ہاں بھی آسٹریلیا، انگلینڈ اور نیوزی لینڈ سمیت تمام ٹیمیں کھیلنے کے لیے آئیں گی اور ہاں انڈیا کو ہم کیسے بھول سکتے ہیں۔ انڈین ٹیم بھی آئے یہ قوم اس کو بھی ویلکم کرے گی۔ ہم کرکٹ اور کرکٹرز سے محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ لاہوریوں نے اتوار 5مارچ کو میزبانی کا حق ادا کر دیا۔ ان کی مہمان نوازی یوں ہی جاری رہے گی۔
اب کچھ بات کپتان کی بھی ہو جائے۔ پاگل پن والے بیان کے بعد جب انھوں نے فائنل کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کر دیا تھا تو لگا کہ بات ختم ہو گئی۔ لیکن یہ کیسے ممکن تھا۔ منگل کو کپتان نے پھٹیچر اور ریلو کٹے کا نیا کٹا کھول دیا ۔
دو دن سے اب ان دو لفظوں کے گرد ساری سیاست ، ٹاک شوز اور سوشل میڈیا گھوم رہا ہے۔ (ن) لیگ کو پھر موقع مل گیا ہے کہ وہ کپتان کو آڑے ہاتھوں لے۔ رانا ثناء اللہ، مریم اورنگزیب اور عابد شیر علی سمیت سارے (ن) لیگی ان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ کپتان اس طرح کے بیانات دے کر اپنی پارٹی کے لیے پورس کے ہاتھی بنے ہوئے ہیں۔ فائنل کے کامیاب انعقاد کے بعد کپتان کا رد عمل اس طرح کا نہیں ہونا چاہیے تھا۔
احسن اقبال نے بڑے مہذب انداز میں کہا کہ یہ بیان عمران کے شایان شان نہیں۔ ہمارے خیال میں کپتان کا رد عمل کچھ یوں ہو سکتا تھا۔ ''پی ایس ایل کا فائنل کامیابی سے ہو گیا،شکر ہے کوئی حادثہ نہیں ہوا۔ اب پی سی بی کو غیر ملکی ٹیموں کو پاکستان لانے کا وعدہ پورا کرنا چاہیے''۔ اس کے بعد وہ فوری طور پر پانامہ کیس کی طرف واپس آتے۔ (ن) لیگ اور حکومت کو اور کیا چاہیے۔ کپتان اس طرح کی باتیں کرتے رہیں ، وہ خوش ہیں۔ نان ایشوز کو ایشو بنانا تو کوئی ہم سے سیکھے۔ میچ کے دوران ''گو نواز گو'' کے نعرے کیوں لگے؟ کپتان کو یہ بھی پوچھنا چاہیے تھا۔
اب (ن) لیگ والے بڑی مہارت سے کہہ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کے چند لوگ ایک اسٹینڈ میں بیٹھ کر یہ نعرے لگا رہے تھے حالانکہ وہاں موجود لوگ جانتے ہیں کہ ایک بار یہ نعرہ شروع ہوا تو کس کس اسٹینڈ سے لوگ اس میں شریک نہیں ہوئے۔ یہ نعرہ لگنے کی بنیادی وجہ پی ایس ایل کے چیئرمین نجم سیٹھی کا خطاب تھا۔ سیٹھی صاحب اگر صرف پی ایس ایل کے چیئرمین ہوتے تو ایسا ممکن نہیں تھا۔ وہ جب ایک نجی چینل پر بیٹھ کر حکومت اور وزیراعظم کا مقدمہ لڑتے ہیں تو وہ سیاسی ہو جاتے ہیں۔ سیاسی چیئرمین کی موجودگی میں وزیراعظم کے خلاف نعرے لگنا حیرت انگیز نہیں ہے۔
پی ایس ایل فائنل کے کامیاب انعقاد پر ایک بار پھر مبارکباد۔ اب کرنے کا کام یہ ہے کہ پاکستان سپر لیگ تھری کا پورا ٹورنامنٹ پاکستان میں کرایا جائے۔ لاہور اور کراچی میں میچز کرائے جائیں اور اگلے سال کا فائنل کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں منعقد کیا جائے۔پی ایس ایل کا پورا ٹورنامنٹ پاکستان میں لانے سے پہلے انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے نعرے خالی نعرے ہی رہیں گے۔ ابھی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انٹرنیشنل کرکٹ ضرور بحال ہو گی ۔مگر تھوڑا انتظار!