پی ایس ایل… جمع تفریق
بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ اور میڈیا اس حوالے سے انتہائی غلط رستے پہ چل پڑا ہے
غالب کا ایک شعر ہے
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحہ غم ہی سہی' نغمہ شادی نہ سہی
جس کا آسان اور عام فہم مفہوم یہی ہے کہ کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں پی ایس ایل کے حوالے سے کرکٹ پر شاید اتنی بات نہیں ہوئی جتنی سیاست' سیاسی بیانات اور اس سے متعلق موضوعات پر ہوئی ہے لیکن اس کی طرف آنے سے پہلے ایک ایسے مسئلے پر بات کرنا ضروری ہے جس نے ہمارے سارے معاشرے اور بالخصوص میڈیا کو ایک عجیب طرح کے خلجان میں مبتلا کررکھا ہے اور وہ یہ کہ ہم نے مہذب اور معقول انسانوں کی باہمی افہام و تفہیم کا رستہ چھوڑ کر کج بحثی' بے مقصدیت اور نان ایشوز کو ایشوز بنا کر انھیں زندگی موت کا مسئلہ بنانے کا رستہ پکڑ لیا ہے۔
آپ ٹی وی کا کوئی ڈس کشن پروگرام دیکھ لیجیے آپ کو صاف پتہ چل جائے گا کہ باقی تمام لوگ بولنے والے کی بات سننے اور سمجھنے کے بجائے اس کا ایسا جواب تیار کرنے کے عمل میں ہیں جو مخالف کو تہس نہس اور ان کو سرخرو کر دے اور یہی رویہ قدرے مختلف شکلوں میں آپ کو چاروں طرف جاری و ساری نظر آئے گا۔ میں عام طور پر سیاسی موضوعات' بیانات اور شخصیات کے ذکر سے گریز کرتا ہوں کہ اس میں تماشا اور تماش بینی سکہ رائج الوقت بن چکے ہیں اور یار لوگوں نے اپنے مفادات اور تحفظات کی پرستش میں سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ نہیں رہنے دیا، سب سے بڑی بات یہ ہوئی ہے کہ ہم ہر چیز کو سیاہ اور سفید اور غلط اور صحیح کے پیمانوں پر تولنے کی کوشش میں اختلاف رائے کو ذاتی دشمنی' غیرملکی سازش یا ملک دشمنی سے تعبیر کرنے لگ گئے ہیں۔
اصل معاملہ یہ ہے کہ جب ہم کسی مسئلے پر مختلف آرا کو سننے اور سمجھنے کے بعد کسی ایک رائے یا طریقہ کار کو اختیار کرتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ جن آرا کو قبول' منظور یا اختیار نہیں کیا گیا وہ ''غلط'' تھیں، اس کے لیے غالباً بہتر اور بہترین کے الفاظ استعمال ہونے چاہئیں کہ ایک ہی مسئلے کے حل کے لیے مختلف لوگ اپنی اپنی معلومات' ذہنی رویوں اور تحفظات کے حوالے سے رائے دیتے ہیں اور متفقہ یا اکثریت کے فیصلے سے ان میں سے بہترین یا موزوں ترین کا انتخاب کر لیا جاتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ آگے چل کر عملی طور پر یہ احساس ہو کہ کوئی چھوڑی ہوئی رائے اصل میں نسبتاً بہتر تھی مگر یہ رسک تو لینا ہی پڑتا ہے کہ انسان صرف اپنی بساط بھر جمع تفریق اور قیاس ہی کر سکتا ہے کہ مستقبل کا عمال اور غیب کا علم تو بہرحال اس کی دسترس میں نہیں۔
بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ اور میڈیا اس حوالے سے انتہائی غلط رستے پہ چل پڑا ہے ایک تو یہ کہ آرا نیک نیتی' بے غرضی اور ذاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر دینے کے بجائے ذاتی ترجیحات' معاشی اور سیاسی مفادات اور مخالف کی کردار کشی کی اسیر ہو کر رہ گئی ہیں اور نہ صرف یہ کہ ہر طرح کے اختلاف رائے کو سننے اور سمجھنے کے بجائے اس کا منہ توڑ جواب دے کر مخالفوں کا منہ بند کرنے اور پوائنٹ اسکورنگ کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ اس ضمن میں حقائق کو توڑ مروڑ کر اور اپنی مرضی کے مطالب پہنا کر ایک ایسی فرد جرم عاید کر دی جاتی ہے جس کا مقصد انصاف کا حصول اور حالات کی بہتری سرے سے ہوتا ہی نہیں۔ فی الوقت ملک میں حکومت' عوام' سیاسی مخالفین اور فوج کے مشترکہ معاملات مسائل اور تعلقات کے حوالے سے اسی طرح کی صورت حال چل رہی ہے جو ہر اعتبار سے ایک منفی اور اجتماعی سطح پر نقصان دہ سوچ کی آئینہ دار ہے مثال کے طور پر میں اپنی ذاتی پسند نا پسند اور نظریات سے بالاتر ہو کر اور کسی فریق کا حمایتی یا مخالف بنے بغیر یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کرانے کے ضمن میں عمران خان سمیت جن لوگوں نے اس کی مخالفت کی یا اس کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
وہ کوئی ملک دشمن عناصر نہیں تھے اور نہ ہی اس کا تعلق کسی ایسے حکومتی بل سے تھا جس سے عوام کے کسی طبقے کو نفع یا نقصان پہنچنا تھا۔ یہ دلیل اپنی جگہ کہ اس کے انعقاد سے پاکستانی عوام کی دہشت گردی کے خلاف مزاحمت بلکہ اعلان جنگ کا ایک موثر اظہار ہو گا لیکن اس کا یہ جواب بھی غلط نہیں تھا کہ یہ کام تو ہم ضرب عضب' ردالفساد' پچاس ہزار جانوں کی قربانیوں اور بار بار کے بیانات سے مسلسل کر ہی رہے ہیں، اتفاق سے مجھے عمران خان کا وہ بیان سننے اور دیکھنے کا موقع ملا ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ اگر غیر ملکی کھلاڑی بھی نہیں آ رہے تو اس صورت میں ایک مقامی سطح کے میچ کے لیے اسقدر سیکیورٹی' تام جھام اور ہسٹریا پیدا کرنا اور حفاظتی اقدامات کو اس حد تک بڑھا دینا پاگل پن کی بات ہے۔
اب اس لفظ پاگل پن کو تو پکڑ لیا گیا مگر جس تناظر میں یہ لفظ استعمال کیا گیا تھا اس پر توجہ دینے کی کوشش نہیں کی گئی کیونکہ ایسا کرنا معترضین اور مخالفین کے حق میں نہیں جاتا تھا، اسی طرح اس کے اس ضمن میں حالیہ استعمال کردہ دو الفاظ ''ریلوکٹا'' اور ''پھٹیچر'' کو بھی بعض حلقوں کی طرف سے بہت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اب اس سے قطع نظر کہ ان الفاظ کا بات کے متن سے کیا رشتہ ہے اور یہ کہ ان کے ذریعے اصل میں کس تاثر کا اظہار مقصود تھا اور یہ کہ عمران خان سیاست دان کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑا سابقہ کھلاڑی بھی ہے سو ان الفاظ کو کھیل کی ٹرمنالوجی میں ہی دیکھنا چاہیے تھا۔ میچ کا پرامن انعقاد ہو گیا بہت اچھا ہوا۔ پاکستانیوں نے اس کی معرفت دہشت گردی کے خلاف اپنے موثر ردعمل کا اظہار کیا اس کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ سوال اپنی جگہ پر ہے کہ جس کرکٹ کے نام پر یہ سب کچھ کیا گیا ۔
اس کے حالات میں اس سے کوئی معیاری تبدیلی اگر آئی ہے تو وہ کیا ہے؟ اب اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ جو کچھ کیا گیا یہ بالکل صحیح تھا تب بھی یہ بات اپنی جگہ پر رہتی ہے کہ اس کی مخالفت کرنے والوں کو غلط یا ملک دشمن کہنا اپنی جگہ پر غلط ہے، زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو فیصلہ کیا گیا وہ ان تمام آرا میں سے بہتر تھا جو اس ضمن میں سامنے آئیں، خدانخواستہ اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ ہو جاتا تو کیا اس صورت میں ان فیصلہ کرنے والوں کو غلط یا ملک دشمن کہنا صحیح ہوتا؟ میرے خیال میں اس کا جواب ''نہیں'' میں ہے کہ اس فیصلے کا اصل مقصد خیر کا حصول اور حالات میں بہتری پیدا کرنا تھا جو اللہ کی رحمت سے حاصل بھی ہو گیا۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سیاسی اور شخصی اختلافات اپنی جگہ مگر قومی معاملات میں ان کو الگ رکھنا چاہیے۔
ہم سب عمومی طور پر اپنے ملک کا بھلا چاہتے ہیں لیکن یہ کام دلوں میں کشادگی برداشت اور اظہار رائے کی آزادی اور حرمت کے احساس شعور اور ان کی عملی پیروی کے بغیر ممکن نہیں۔ ان سب لوگوں کو شاباش کہ جنہوں نے اس قومی یک جہتی اور دہشت گردی سے انکار کے اس اظہار کو ممکن بنایا، اب ضروری ہے کہ اس کے ذریعے سے عملی سطح پر پاکستان کے کھیل کے میدانوں کو آباد اور دنیا بھرکے لیے انھیں محفوظ اور قابل توجہ کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے تاجروں پر ثابت کر دیا جائے کہ یہ کوئی عارضی کیفیت نہیں تھی اور آخری بات پھر وہی کہ آخری فیصلہ جو بھی ہو مگر ہمیں سب کی رائے کا احترام کرنا چاہیے کہ ہماری اصل منزل کسی کی ہار یا کسی کی جیت نہیں بلکہ پوری قوم کی حفاظت اور ترقی ہے یعنی ضرورت لفظوں کی بازی گری کے صنم خانے سے نکل کر نیت اور عمل کے سایہ مہربان کی تعمیر اور تشکیل کی ہے۔