ریڈ کارپٹ
بے چارے گئے وقتوں کے بادشاہ تو بلاوجہ بدنام ہیں
بچے سے اسکول کے ایک استاد نے پوچھا ''صدر کسے کہتے ہیں؟'' میں مجلس کا صدر نہیں ملک کے صدر کے بارے میں پوچھ رہا ہوں۔ بچے نے جواب دیا ''صدر وہ ہوتا ہے جو بڑی شاندار گاڑیوں میں سفر کرتا ہے، شہر میں بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے ہیلی کاپٹر استعمال کرتا ہے اور اگر اس کو لے جانے والی گاڑی ہیلی پیڈ سے بیس پچیس فٹ دور کھڑی ہو تو انتظار کرتا ہے کہ ہیلی کاپٹر سے کار تک پہلے ریڈ کارپٹ بچھ جائے تو وہ اتر کر گاڑی تک جائے۔ شاید اس کے جوتوں میں مٹی لگ جانے کا اندیشہ ہوتا ہو، شاید وہ جوتوں سمیت بستر پر لیٹتا ہو۔''
استاد صدر کی اس تعریف پر حیران رہ گیا۔ اپنی حیرت دور کرنے کے لیے اس نے طالب علم سے پوچھا تمہیں یہ سب کیسے معلوم ہوا۔ طالب علم نے بڑی مستعدی سے جواب دیا۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے ٹیلی وژن پر یہ منظر دیکھا ہے۔
اس نے کیا سارے ملک نے واقعی یہ منظر دیکھا کہ سابق صدر پاکستان ہیلی کاپٹر سے آئے اور اس وقت تک ہیلی کاپٹر ہی میں بیٹھے رہے جب تک ''ریڈ کارپٹ'' ہیلی کاپٹر سے کار تک بچھا نہیں دیا گیا۔
بے چارے گئے وقتوں کے بادشاہ تو بلاوجہ بدنام ہیں، وہ اگر بادشاہ بنتے تھے تو اپنے یا اپنے اجداد کے زور بازو سے حاصل کردہ ملک پر بادشاہت کرتے تھے۔ سارا کروفر اور خبردار ہوشیار کی صدائیں انھیں زیب دیتی تھیں اور ان کے عہد میں کسی نے ان پر اعتراض بھی نہیں کیا۔
مگر زمانے نے کروٹ بدلی اور سلطانی جمہور کا زمانہ آیا تو کہا جانے لگا کہ جمہوری حکمراں عوام کا خدمت گار ہوتا ہے۔ عام انسان ہوتا ہے اور عوام کے درمیان ہی زندگی بسر کرتا ہے اور یہ بادشاہ وغیرہ ظالم و جابر لوگ تھے۔ خوامخوا اپنا رعب جما رکھا تھا اور انسانوں کو اپنے غلام اور اپنے گھڑے ہوئے قانون کا پابند کر رکھا تھا۔
مگر ہم نے بھی دیکھا کہ جمہوریت آنے کے بعد اور جمہوری نظام کے مستحکم ہوجانے کے بعد پتا چلا کہ جمہوری حکومتوں کے بھی وہی حیلے ہیں پرویزی۔
جب ہمارے جمہوری حکمراں عوام میں نکلتے ہیں تو سڑکیں ویران ہوجاتی ہیں۔ ٹریفک معطل ہوجاتا ہے، ہٹو بچو کی صداؤں کے بدلے سیٹیاں اور پولیس کی گالیاں سننے کو ملتی ہیں۔ پھر جمہوری حکمراں کی سواری اسی کروفر کے ساتھ نکلتی ہے جس کے ساتھ جہاں گیر و شاہ جہاں یا چنگیز و ہلاکو کی سواریاں نکلا کرتی تھیں۔
عوام اس شان و شکوہ کو دیکھ کر مرعوب و متاثر ہوتے اور اسی طرح مرعوب ہوتے ہیں جس طرح مذکورہ بالا شہنشاہوں کے دور میں ہوا کرتے تھے۔
عوام مرعوب ہوتے ہیں تو ہوا کریں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ کم ازکم ہمارے جمہوری حکمراں بھی اسی کروفر اسی شان و شکوہ، اسی لطف و انبساط کو حکمرانی سمجھتے ہیں فرق یہ ہے کہ بادشاہ اپنی حکمرانی کو تاحیات اپنا حق سمجھتا تھا۔ یہ صرف چار پانچ سال کے لیے اپنے آپ کو ''بادشاہ'' سمجھ پاتے ہیں۔ اس لیے اس مختصر سے دور میں جتنے لطف اٹھانا چاہیں اٹھالیتے ہیں۔ یہ جو آج کے حکمرانوں کے ''کرپشن'' کی داستانیں طشت ازبام ہو رہی ہیں ان کا نام خوامخوا کرپشن رکھ دیا گیا ہے یہ دراصل عوامی بادشاہت کے اختصار کا شاخسانہ ہے اگر عوامی حکمراں کو بھی تاحیات حکمراں تسلیم کرلیا جائے تو یہ کرپشن وغیرہ کچھ نہ رہے۔ آپ نے کبھی سنا کہ علاؤالدین خلجی، اکبر اعظم یا اورنگ زیب عالم گیر نے کرپشن کی تھی۔
دراصل جمہوری حکمراں بھی اس شان و شوکت اور کروفر کو حکمرانی سمجھتے ہیں جس کے ماضی کے شاہان عالی شان لوازمات شاہی قرار دیتے تھے۔ مگر وہ بادشاہ ہوتے تھے اور ان کو یہ سب چیزیں زیب دیتی تھیں۔ جمہوری حکمراں اپنی حکمرانی کو کچھ اور رنگ میں پیش کرتے ہیں۔ وہ کسی رنگ میں پیش کرتے ہوں مگر حضرت عمرؓ ان کے لیے بڑی مشکل پیدا کرگئے ہیں۔ فرما گئے کہ میں اس سے پریشان ہوں کہ اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھوک سے ہلاک ہوجائے تو اس کی بازپرس عمرؓ سے ہوگی۔
ہمارے حکمرانوں کو بازپرس کا کوئی خوف نہیں یہاں روزانہ اتنے انسان کتوں کی موت مرتے رہتے ہیں اور کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ اس لیے ہمارے حکمرانوں کے نزدیک فرات کا کنارہ نہ کوئی حیثیت رکھتا ہے نہ کتے کی موت۔ ان کے نزدیک حکمرانی محض موج مستی ہے اور بس۔