باکمال نغمہ نگارکلیم عثمانی کی یادیںحصہ اول
نامورشاعر اورفلمی نغمہ نگار کلیم عثمانی کے ساتھ میری ملاقاتیں دس سال پر محیط ہیں
نامورشاعر اورفلمی نغمہ نگار کلیم عثمانی کے ساتھ میری ملاقاتیں دس سال پر محیط ہیں ،جب میں لاہورکی فلم انڈسٹری سے وابستہ رہا تھا وہ مجھ سے بہت سینئر تھے اور میں نے ان کو اپنی نوعمری کے زمانے میں اس وقت سنا تھا جب وہ مشاعروں کے بھی مشہورشاعر ہوا کرتے تھے اور ہند و پاک مشاعروں میں قتیل شفائی،حمایت علی شاعر، منیرنیازی کے ساتھ ان کا بھی ایک ممتاز مقام تھا۔ کلیم عثمانی کوایک یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کے گیتوں کے ذریعے دو بے مثال گلوکاراؤں کو فلمی دنیا میں آنے کا موقع ملا ان دوخوبصورت آوازوں میں ایک آواز رونا لیلیٰ کی تھی اوردوسری آواز نیرہ نور کی۔ یہ 1960 کا دور تھا جب فلم ''ہم دونوں'' کے لیے موسیقار ناشاد نے کلیم عثمانی کی لکھی ہوئی ایک غزل تیرہ سال کی ایک نوخیزگلوکارہ رونا لیلیٰ سے گوائی تھی غزل کا مطلع تھا:
ان کی نظروں سے محبت کا جو پیغام ملا
دل یہ سمجھا کہ چھلکتا ہوا اک جام ملا
اس غزل کی ریکارڈنگ کے دوران ہی لوگوں نے یہ قیاس آرائیاں کرنی شروع کردی تھیں کہ یہ کمسن گلوکارہ آگے جاکر بڑی بڑی گلوکاراؤں کی چھٹی کرا دے گی اور یہی ہوا کہ رونا لیلیٰ کی آوازکی مٹھاس اور اس کے سروں کے جادو نے ایک دھوم مچا دی تھی۔اس غزل کے ایک ایک شعر میں نغمگی تھی۔ شاعری، موسیقی اورآواز نے سب کا دل موہ لیا تھا۔ پھرکلیم عثمانی ہی کے لکھے ہوئے ایک گیت نے ایک اور نئی آوازکو شہرت کی بلندی عطا کی تھی اور وہ آواز نیرہ نور کی تھی جس نے کلیم عثمانی کے لکھے ہوئے گیت سے اپنی گلوکاری کا آغاز کیا تھا۔ گیت کے بول تھے:
تیرا سایا جہاں بھی ہوسجنا
پلکیں بچھادوں ساری عمربتادوں
فلم ''گھرانہ'' کے لیے اس گیت کی موسیقی ایم اشرف نے دی تھی اور پھر ایک دھان پان سی لڑکی نے اپنے دور کی بھاری بھرکم گلوکاراؤں کو حیرت میں مبتلا کردیا تھا ۔ نیرہ نورکی آواز میں بھی سروں کی ایک ایسی روشنی تھی جس نے دنیائے موسیقی کو جگمگا دیا تھا۔ وہ دور شاعر قتیل شفائی، کلیم عثمانی، منیرنیازی اور حمایت علی شاعر کا دور کہلاتا تھا پھر اسی دور میں رفتہ رفتہ خواجہ پرویز، مسرورانور، تسلیم فاضلی اورکچھ عرصے کے بعد میں بھی شامل ہوگیا تھا مگر ایک بات کا میں پھر تذکرہ کروں گا کہ نوجوان نغمہ نگاروں نے بھی بہت خوبصورت گیت لکھے تھے اور شہرت کا سہرا ان کے سر بھی بندھ چکا تھا لیکن وہ جو کہتے ہیں نا کہ سو سنار کی ایک لوہار کی، کلیم عثمانی نے 1974 کی ایک فلم ''شرافت'' میں جس کے ہدایت کار نذرالاسلام اور موسیقار روبن گھوش تھے ایک ایسا دلکش اور لازوال گیت دیا کہ جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ اس گیت کے بول تھے:
تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے لہریں بھی ہوئیں مستانی سی
تیری زلف کو چھو کر آج ہوئی خاموش ہوا دیوانی سی
اس گیت کی شاعری، موسیقی اور مہدی حسن کی طلسماتی آواز نے گیت سہ آتشہ بنادیا تھا ، اس گیت کو جب بھی سنو ایک نیا لطف دیتا ہے اوردل کی گہرائیوں میں اترا چلا جاتا ہے پھر سمندر کے دامن اس کی عکس بندی میں بھی کیمرہ مین افضل چوہدری نے اپنے کمال کی انتہا کردی تھی۔ میں جب کراچی سے لاہورگیا تو میری پہلی ملاقات ہی کلیم عثمانی سے ہوئی تھی اور پہلے دن سے آخری دن تک مجھے ان کی شفقت اور معاونت حاصل رہی کیونکہ ہم دونوں کا تعلق بطور فلمی صحافی کراچی کے نگار ویکلی سے رہا تھا کلیم عثمانی کے کریڈٹ پر بے شمار فلمیں اور ان گنت خوبصورت گیت ہیں جو آج بھی ذہنوں میں خوشبوکی طرح بسے ہوئے ہیں اس سے پہلے کہ میں ان تمام فلموں اور گیتوں کا تذکرہ کلیم عثمانی کی ادبی شخصیت اور ان کی ابتدائی زندگی کے بارے میں تذکرہ کروں گا۔
کلیم عثمانی کا اصل نام احتشام الٰہی تھا اوران کے والد کا نام فضل الٰہی ۔ ان کا گھرانہ انتہائی مذہبی گھرانہ تھا اور ابتدا میں دینی تعلیم سب کے لیے ضروری تھی ۔ کلیم عثمانی 1928ء میں ضلع سہارن پور کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد بھی ایک اچھے شاعر تھے اور زیادہ تر نعتیہ کلام کہا کرتے تھے ان کے والد کا تخلص بیکل تھا۔ کلیم عثمانی کو شاعری کا شوق اپنے گھر ہی سے شروع ہوا اور ابتدا میں انھوں نے بھی نعتیہ شاعری کا آغاز کیا پھر آہستہ آہستہ عشقیہ شاعری کی طرف بھی آتے گئے۔ ابتدا میں شاعری کی اصلاح اپنے والد ہی سے لیتے رہے پھر تقسیم ہند کے بعد ہندوستان میں فسادات پھوٹ پڑے اور ان کا خاندان ستمبر 1947ء ہی میں ہجرت کرکے ہندوستان سے پاکستان آگیا اور لاہور میں سکونت اختیارکی۔
لاہور میں کلیم عثمانی کو استاد شاعر احسان دانش کی سرپرستی حاصل ہوگئی اوراس طرح ادبی محفلوں میں احسان دانش کے شاگرد کی حیثیت سے آنے جانے لگے اور مقامی مشاعروں میں شرکت کرنے کے ساتھ ہند و پاکستان کے مشاعروں میں بھی ان کی شہرت کا سفر شروع ہوگیا تھا۔ کلیم عثمانی کا ترنم بڑا خوبصورت تھا اور یہ جس مشاعرے میں شرکت کرتے ان کے کلام کے ساتھ ان کے ترنم کو بھی بڑی پذیرائی ملتی تھی اب یہ ریڈیو کے علاوہ ٹیلی ویژن کے مشاعروں میں اپنی دھاک بٹھا چکے تھے اس دوران یہ کراچی میں ایک بڑے مشاعرے میں شرکت کرنے گئے یہاں ان کے کلام کی بڑی دھوم مچی اور انھی دنوں ان کی ملاقات فلمساز ہمایوں مرزا سے ہوگئی۔ ہمایوں مرزا شعر و ادب کے بڑے دلدادہ تھے یہ ملاقات کلیم عثمانی کے لیے بڑی فائدہ مند ثابت ہوئی ان دنوں وہ ایک فلم کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ فلم کا نام تھا ''انتخاب''۔
یہ 1955ء کا زمانہ تھا اس طرح کلیم عثمانی بطور فلمی نغمہ نگار فلم ''انتخاب'' سے منظر عام پر آئے مگر فلم بری طرح فلاپ ہوگئی اور اس طرح کلیم عثمانی کا سفر آگے نہ بڑھ سکا۔ پھر کچھ عرصے بعد ہمایوں مرزا نے ''بڑا آدمی'' کے نام سے نئی فلم کا آغاز کیا ہمایوں مرزا نے پھر کلیم عثمانی گیت نگار کی حیثیت سے منتخب کیا۔ اس بار فلم ''انتخاب'' کے موسیقار جو فیروز نظامی تھے ان کی جگہ اب غلام نبی عبدالطیف کو موسیقار لیا۔ یہ حسن اتفاق تھا کہ انڈین فلم انڈسٹری کی ایک نامور گلوکارہ مبارک بیگم اپنے رشتے داروں سے ملنے کراچی آئی ہوئی تھی اور ہمایوں مرزا سے ان کی ملاقات ہوگئی ہمایوں مرزا نے موقع غنیمت جانا اور اپنی ''فلم بڑا'' آدمی کے لیے اس کی آواز میں ایک گیت ریکارڈ کیا جو کلیم عثمانی ہی نے لکھا تھا جس کے بول تھے:
کاہے جلانا دل کو
چھوڑو جی غم کے خیال کو
یہ ایک ڈوئیٹ تھا جو مبارک بیگم اور احمد رشدی کی آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ یہ گیت ان دنوں ریڈیو سے بڑا نشر ہوا کرتا تھا اور مبارک بیگم کی سریلی آواز میں بڑا مشہور ہوا تھا۔
ہمایوں مرزا کی فلم ''بڑا آدمی'' کافی اچھی فلم رہی تھی اورکلیم عثمانی کے لکھے ہوئے اور مبارک بیگم کے گائے ہوئے گیت نے کلیم عثمانی کو بھی شہرت کے راستے کا ہم سفر بنادیا تھا۔ کلیم عثمانی پھرکراچی سے واپس لاہور چلے گئے تھے کیونکہ کراچی فلم انڈسٹری انتہائی سست رفتاری کا شکار تھی او کراچی میں صرف ایک ہی ایسٹرن فلم اسٹوڈیو تھا جو فلمسازوں کو بہت زیادہ سہولتیں بھی نہیں دے رہا تھا۔ اسٹوڈیو کے مالک سعید ہارون تھے جوکاروباری آدمی سے زیادہ فلموں کے شوقین تھے اور اسی شوق کی وجہ سے فلم اسٹوڈیو بنایا تھا۔ فلمساز ہمایوں مرزا بھی فلمسازی کی بہتر سہولتوں کے حصول کی خاطر لاہور آگئے تھے اور انھوں نے 1959ء میں اپنی نئی فلم ''راز'' کا آغازکیا۔ اور نغمہ نگارکلیم عثمانی ہی ان کی ٹیم کا حصہ تھے۔ اس بار ہمایوں مرزا نے پھر انتخاب والے موسیقار فیروز نظامی کو موسیقی کے لیے منتخب کیا تھا۔ فلم ''راز'' میں اداکارہ مسرت نذیر اور اعجاز مرکزی کرداروں میں تھے جب کہ شمیم آرا کا بھی ایک اہم کردار تھا۔ اس فلم کے کئی گیت ہٹ ہوئے تھے اور ایک گیت نے تو بڑی دھوم مچائی تھی جس کے بول تھے:
میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا
جا رے بلم تجھے دیکھ لیا
اس گیت کو اس دور کی منفرد آوازکی مالک گلوکارہ زبیدہ خانم نے گایا تھا اوران کی میٹھی اور رس بھری آواز نے بڑا جادو جگایا تھا۔ یہ گیت دن اور رات میں کئی کئی بار پاکستان کے ہر ریڈیو اسٹیشن سے نشر ہوتا تھا اور فلم ''راز'' بھی پسند کی گئی تھی اور یہ گیت کلیم عثمانی کو عروج کی طرف لے گیا تھا۔
(جاری ہے)