وومن ڈے

شوہرکی صورت میں وہ سوچتی ہے کہ اس کو ایک دوست ملے گا،


فرح ناز March 11, 2017
[email protected]

KARACHI: 8 مارچ عالمی یوم خواتین کے طور منایا جاتا ہے اور پاکستان میں بھی، پچھلے کئی سالوں میں جہاں بہت سی چیزیں ہمارے کلچر سے آؤٹ رہی ہیں وہاں بہت سی نئی چیزیں شامل بھی ہوئی ہیں، جیسے مدرز ڈے ، فادر ڈے، ویلنٹائن ڈے اور ویمن ڈے۔

بے شمار سیمینارز،کانفرنسز، لنچز، ڈنرز، ٹاک شوز اور مختلف پروگرامز ترتیب دیے جاتے ہیں اورصبح سے شام گئے تک ویمن ڈے منایا جاتا ہے،خواتین کے ہونے کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ ان کی قابلیت کے چرچے ہوتے ہیں اور ہمارے ملک میں شاید اسی لمحے جب یہ سب ہو رہا ہوتا ہے، خواتین کو مارا بھی جا رہا ہوتا ہے۔ کہنے کو تو الفاظ کی کاٹ کو تلوار سے زیادہ تیزکہا جاتا ہے مگر تلوار پھر تلوار ہے۔ گردن کو ایک پل میں دھڑ سے جدا کردیتی ہے۔ بالکل اسی طرح خوبصورت الفاظ کے استعمال کے ساتھ خواتین کو اونچے درجے پر بٹھایا جا رہا ہوتا ہے۔ حوا سے لے کر آج تک گن گائے جاتے ہیں اور اسی لمحے شاید اس کو بالوں سے پکڑکر گھسیٹا بھی جارہا ہوتا ہے، اس کی شکل خراب کردی جاتی ہے۔

کبھی ماں کی شکل میں اولڈ ہاؤسز میں بھیج دیا جاتا ہے، کبھی بیوی کی شکل میں غیرت جاگ جاتی ہے،کبھی بہن کی شکل میں جائیداد کو ہڑپ کرلیا جاتا ہے کبھی بیٹی کی شکل میں خواہشات پر قربان کردیا جاتا ہے، گوکہ ایک قربانی عورت جو سال کے 365 دن اور دن کے چوبیس گھنٹے اپنی بقا کی جنگ لڑتی رہتی ہے اور پوری دنیا اس کو ویمن ڈے پر سلیوٹ پیش کرتی ہے۔ گوکہ اچھائی اور برائی کا ساتھ پیدائشی ہے، جب بیٹیاں پیدا ہوتی ہیں تو ہمارے بزرگ کہتے ہیں کہ اللہ ان کے نصیب اچھے کرے، ان کو پرائے گھر جانا ہے۔اور پھر یہی بزرگ ان بیٹیوں کے فیصلے بھی خود ہی کرلیتے ہیں۔ ان کے نصیبوں کے فیصلے بھی اور ان کے پرائے گھروں میں رہنے کے فیصلے بھی۔ ان کی آزادی کے فیصلے بھی اور ان کی قید کے فیصلے بھی تو پھر اس کے پاس رہ کیا گیا؟

شوہرکی صورت میں وہ سوچتی ہے کہ اس کو ایک دوست ملے گا، ایک ہم سفر ملے گا مگر کبھی وہاں پر بھی دھوکا ، نہ وہ دوست، نہ ہم سفر، وہ تو صرف ایک مالک مکان ہے۔ اولاد کی شکل میں اللہ کی نعمت اوررحمت مگر آج کے نفسا نفسی کے دور میں یہ رحمت اور نعمت دونوں ہی اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہوکر بھول جاتے ہیں کہ ایک ماں کی شکل میں اللہ کی طرف سے دیا گیا جنت کا وعدہ اور ساتھ ساتھ ماں کے قدموں میں ہی رکھ دی گئی جنت بھی، ہاں ماں کے قدموں میں! کہ ہر عورت کو اللہ نے ماں کا رتبہ بھی نہیں دیا کہ اللہ کے راز اللہ ہی جانتا ہے۔

بے شک خوش بخت ہیں وہ عورتیں جو ماں جیسے عالی شان مقام پر فائز ہیں اور خوش بخت ہیں وہ اولادیں جن کی جنتیں ان کے پاس دنیا میں بھی ہیں۔

تقریبات اپنی جگہ، خوبصورت الفاظ اپنی جگہ، مگر سچ یہ ہے کہ بدبختی بھی اپنی جگہ موجود ہے، ظالم بھی اور ظلم بھی اپنی جگہ موجود ہے، مارکر پھینک دو، ہوس کا نشانہ بنالو، بچیوں سے لے کر بوڑھی عورتوں تک کو عبرت کا نشان بنادو، پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم کردو، درد سے بھری ہوئی عورتوں کی زندگیاں، قانون کاغذوں میں مسکراتے ہوئے اور ظالم ظلم کو لہراتے ہوئے ہمارے اردگرد موجود، ہونا تو یہ چاہیے کہ عورتوں کے حقوق اور عورتوں کی عزت وحرمت کو ایسا مضبوط دائرہ بنایا جائے کہ اپنے والدین کا سہارا بننے والی لڑکی، اپنے بہن بھائیوں کا اچھا حال اور مستقبل دینے والی لڑکی جب باہر جائے کام کرے تو اس کو کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس کو اس کی مرضی کے خلاف کسی ایسے راستے پر نہ چلنا پڑے جو اس کی رسوائی کا باعث بنے کہ وہ اپنے والدین اوربہن بھائیوں کا سہارا تو بن جائے مگر اپنی عزت نفس باقی نہ رکھ پائے، اللہ نے مرد کو ایک درجے اوپر رکھا ہے، مرد کو حاکم بنایا ہے تو کیا یہ حاکم کا فرض نہیں کہ وہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرے۔

جب ایک اللہ کا قانون مان لیا تو دوسرا کیوں نہیں؟

ہمارا معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے اور آج کل کے معاشرے میں مردوں نے جس تیزی سے اس معاشرے کو بگاڑا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ جس شعبے کو دیکھ لیجیے، عورت کو Objective بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس معاشرے کی تباہی کا اندازہ لگائیں جہاں ایک اسپیشل 6 سالہ بچی کو جنسی طور پر مارکر پھینک دیا جائے، اس بدبختی کا اندازہ لگائیں کہ جو خود ماؤں، بیٹیوں والے ہوں وہ ان کی ماؤں بیٹیوں کے لیے بازار لگائیں، آوازیں لگائیں، یہ وہ ذلت کی گہرائیاں ہیں جس کو ہم ویمن ڈے منا کر نہیں بھر سکتے ہیں، ہمیں کام کرنے ہوں گے، خواتین کی عزت کرنی ہوگی، ان کے مقام کا تعین کھلے دل سے کرنا ہوگا، ہر شعبے میں ہر ادارے میں پوری ذمے داری کے ساتھ ان کا ساتھ دینا ہوگا کہ یہ اب ہماری بقا کا سوال ہے۔

لبرل ازم کے نام پر جہالت کو دور کرنا بہت بڑی ذمے داری ہے اور یہ ذمے داری خواتین و مرد دونوں پر ہی ہے کہ خاتون سے مرد جدا اور مرد سے عورت جدا۔ آج بھی ہمارے ملک میں عورتوں کو تمام زندگی حسرت ویاس کا نمونہ بنادیا جاتا ہے، ان کی پیدائش سے لے کر موت تک فیصلے جرگے میں کردیے جاتے ہیں، قرآن سے شادی کروادی جاتی ہے، تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے، وراثت سے محرومی عام ہے، مرد حاکم بن کر اس طرح اس کو پیسنے کی کوشش میں دن و رات مصروف، آج بھی تھر جیسے علاقے آباد، کئی میلوں تک پیدل سفر اور گھر کی ذمے داریاں، غربت و افلاس، بیماریاں۔

جو خواتین اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، شدید مزاحمت شدید جدوجہد اور آگے بھی شاید ایسا ہی ہو جب تک ہم اپنے ذہنوں کو، اپنی روایات کو اپنے قانون کو لاگو نہیں کریں گے کوئی بھی دن عورت کے لیے نہیں ہوگا اور عورت کو بھی اپنی قدرومنزلت کا احساس کرنا اورکروانا ہوگا، چھوٹے چھوٹے مفادات سے لے کر وزارت کی کرسیوں تک خواتین موجود، اچھے کاموں سے لے کر برائی کی منزلوں تک بھی موجود۔

اچھائی اور برائی کے مقام تک پہنچانے میں مرد بھی برابر کا شریک۔ آدم و حوا سے لے کر آج تک آسمان کی بلندیوں سے لے کر زمین کی پستیوں تک نہ صرف عورت ذمے دار اور نہ مرد گھر سے لے کر معاشرے تک دونوں قدم بہ قدم ساتھ ساتھ۔

عورتوں کو ان کے بنیادی حقوق دینا، ان کو مضبوط کرنا، ان کے لیے روزگار کے ذریعے، ان کی عزت و تکریم ہم سب کا فرض ہے، علم کی روشنی سے لے کر قبر کے اندھیروں تک مرد و عورت ساتھ ساتھ ہیں۔ اس ساتھ کو باعث افتخار بنانے میں ہمارے معاشرے کے مردوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ بہت بڑی ذمے داری لے کر چل رہے ہیں جو اللہ کے پاس بھی جوابدہ ہے، نہ بنائیں، تماشا نہ بنائیں Objective۔ کسی گاڑی کو بیچنے کے لیے، کسی بلیڈ کے بیچنے کے لیے عورت کی ضرورت نہیں، عملی طور پر ایک باعزت مقام ہی عورت کی پہچان ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔