کھیل اور سیاست
اسکواش، ہاکی اور کرکٹ وہ تین کھیل ہیں جن میں پاکستان کے کھلاڑیوں نے اپنی مہارت کا لوہا منوایا
اسکواش، ہاکی اور کرکٹ وہ تین کھیل ہیں جن میں پاکستان کے کھلاڑیوں نے اپنی مہارت کا لوہا منوایا۔ لیکن پہلے دو کھیل عہد رفتہ کی کہانی بن چکے ہیں۔ صرف کرکٹ بچی ہے جس کا شوق اور جنون گلی محلے سے ملکی سطح تک قائم ہے اور گزشتہ کئی ہفتوں سے لاہور کراچی' کوئٹہ' پشاور اور اسلام آباد کے ناموں سے بنائی گئی ٹیموں نے پاکستان سپر لیگ (PSL) کے جھنڈے تلے دبئی میں باہمی مقابلے کیے اور پھر ان میں پہلے اور دوسرے نمبر پر آئی کوئٹہ گلیڈی ایٹر اور پشاور زلمی نے لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں 5 مارچ 2017ء کے روز فائنل میچ کھیلا۔
3 مارچ 2009ء کے دن سری لنکا کی ٹیم نے اسی اسٹیڈیم میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے ساتھ میچ کھیلنا تھا جو دہشتگردوں کے حملے کی نذر ہو گیا اور اس کے بعد دنیا کی تمام ٹیموں نے پاکستان میں کرکٹ کھیلنے سے انکار کر دیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ PSL کے تمام میچ پاکستان کے شہروں میں کھیلے جاتے جن سے ملک کے بچے بوڑھے اور جوان بھی لطف اندوز ہوتے اور دنیا کو بھی امن کا مثبت پیغام جاتا۔ پانچ مارچ 2017ء کو جو فائنل میچ کھیلا گیا رات ساڑھے سات بجے شروع ہو کر رات ساڑھے گیارہ بجے اختتام پذیر ہوا۔ تماشائی نصف شب کے بعد دو ڈھائی اور تین بجے اپنے گھروں کو پہنچے۔
5 تاریخ کو تمام دن کھیل کے میدان کے چاروں جانب کی آبادیوں کے رہائشیوں کو سیکیورٹی کے انتظامات کی وجہ سے گھروں میں رہنا پڑا۔ اس حقیقت کا علم مجھے یوں ہوا کہ سلیم مرزا نے جو خود ایک کرکٹر ہے مجھے ٹیلیفون کر کے کہا کہ وہ میرے مکان کے گیٹ پر کھڑا ہے اور اس کی کار کا پٹرول ختم ہونے کو ہے میں نے باہر جا کر اسے ویلکم کیا اور اندر لے آیا اس کا مکان گلبرگ کی مین بلیوارڈ کی جانب شمال اور میرا جنوب کی طرف ہے۔
اس وقت شام کے5 بجے تھے اور وہ میرے گھر کے کمرے میں صوفے پر بیٹھا تھا۔ چائے پیتے ہوئے اس نے بتایا کہ وہ کار میرے گھر چھوڑ کر پیدل اپنے گھر جائے گا۔ وہ کسی کام سے چھ گھنٹے قبل مین بلیوارڈ کے جانب جنوب آیا تھا اور اب اس سڑک کو پار کرنے کے لیے اس کے گیارہ EXIT پوائنٹس کے چکر لگا کر میری طرف آ گیا تھا کیونکہ اس وقت بلیوارڈ کے تمام ENTRY اور EXIT پوائنٹس قناتیں لگا کر بند کر دیے گئے تھے جن پر پانچ سات پولیس مین اور وارڈن ڈیوٹی دے رہے تھے۔ سائیکلوں موٹر سائیکلوں والے اور پیدل لوگ تو آر پار آ جا رہے تھے لیکن موٹر کاروں کے لیے راستے بند تھے۔
یورپ امریکا اور برطانیہ میں ہونے والے رگبی' باسکٹ بال' بیس بال' فٹ بال اور ٹینس کے میچ ٹیلیوژن پر دیکھیں تو کھیل کے میدان اور کورٹس تماشائیوں سے بھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آٹھ سال بعد لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں جس کا نام شاید تبدیل کیا جا رہا ہے۔ کھلاڑیوں اور پچیس تیس ہزار تماشائیوں کو گھروں میں موجود ملکی اور غیر ملکی ٹیلیوژن کے سامنے بیٹھے کروڑوں کرکٹ کے شیدائیوں نے دیکھا تو لطف اندوز ہوئے۔ خبر ہے کہ یہ میچ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی TV پر دیکھا گیا۔
میچ رات ساڑھے سات بجے سے ساڑھے گیارہ بجے تک ہوا لیکن اتوار کی چھٹی کے دن لوگوں نے بے چینی سے سارا دن انتظار میں گزارا اور ٹکٹ ہولڈروں نے دن کا بیشتر حصہ اسٹیڈیم میں داخل ہونے میں صرف کیا۔ موسم کے لحاظ سے پورا دن خوشگوار تھا لہٰذا یہ میچ سورج کی روشنی میں بھی کھیلا جا سکتا تھا جس کے لیے غیر معمولی سیکیورٹی انتظامات کی بھی ضرورت نہ پڑتی۔ میڈیا نے میچ کور کرنے میں بھرپور شمولیت کی' یوں گھروں میں محصور شہریوں نے بہرحال میچ کا جی بھر کر لطف اٹھایا البتہ کئی شہروں میں بجلی کی بندش کی وجہ سے تماشائیوں کو کچھ دیر تک TV دیکھنے میں محرومی کا سامنا ہوا۔
آؤٹ ڈور کھیل نہ صرف تفریح' ورزش اور مہارت کا ذریعہ بنتے ہیں بلکہ اذہان کو شیطانی سوچوں اور کاموں سے دور رکھتے ہیں۔ میرے اسکاچ مشن اسکول' گورنمنٹ ہائی اسکول اور مرے کالج سیالکوٹ تینوں کے اپنے پلے گراؤنڈ تھے۔ کافی عرصہ سے انھیں نہیں دیکھا۔ دعا ہے کہ کی تینوں کی پلے گراؤنڈز محفوظ ہوں اور کسی ہاؤسنگ اسکیم میں تبدیل نہ ہو گئی ہوں اور خدا کرے کانلے پارک بھی جہاں کالجوں کے مابین کرکٹ میچ ہوا کرتے تھے ہر نظر بد سے بچی رہی ہو۔
لاہور میں ہونے والے پاکستان سپر لیگ کے میچ نے ثابت کر دیا کہ لوگ اس اکیلے بچ جانے والے کھیل کے دیوانے ہیں۔ بہتر ہو گا کہ ہاکی' اسکواش' فٹ بال' ٹینس جیسے مقبول کھیلوں پر حکومتی اور کلب کی سطح پر توجہ دی جائے۔ قرض لے کر پل' فلائی اوور' انڈر پاس' موٹروے اورنج ٹرین بناتے چلے جانے سے نوجوانوں اور شہریوں کو اچھی ٹرانسپورٹ سہولت تو ضرور میسر آئے گی لیکن ان کی ذہنی اور جسمانی تفریح اور تربیت کے لیے کھیل کے میدانوں کو نظرانداز کرنا اچھی حکمت عملی نہیں۔
گزشتہ اتوار 5 مارچ 2017ء والے PSL کرکٹ میچ کے انعقاد کو کرکٹ لیجنڈ عمران خان نے پاگل پن کہا اور پھر میچ کے چند روز بعد اس میں شمولیت کرنے والے غیر ملکیوں کو پھٹیچر اور ریلوکٹا کھلاڑی کہا۔ عمومی طور پر ان ریمارکس پر اظہار ناپسندیدگی کیا گیا اور بعض حلقوں نے اس کھیل کو حکومتی سطح پر سیاست گری سے جوڑنے کی کوشش قرار دیا جب کہ تیسری رائے یہ سنی گئی کہ عمران خان کو ایسے معاملات میں اظہار خیال میں جلد بازی سے گریز کرنا چاہیے۔ اس کی جلد بازی کے علاوہ الفاظ کا چناؤ صحیح نہ ہونے کی وجہ سے مخالفین کا اسے ٹارگٹ کرنا آسان ہو جاتا ہے ورنہ وہ اکثر اوقات بات سچ' کھری اور صحیح کرتا ہے۔
اسی عمران خان نے بطور کپتان پاکستان کے لیے1992ء میں پہلی بار آسٹریلیا میں ورلڈ کرکٹ کپ جیتا۔ اسی طرح پاکستان ہاکی ٹیم نے 1971ء'1978ء'1982ء اور 1984ء میں ورلڈ کپ جیتا۔ کھیل کے لیے اچھی گراؤنڈز اور کھلاڑیوں کی سرپرستی ہی اچھے کھیل کی بنیاد بنتی ہے۔ ہاکی پر عدم توجہ نے اسے برباد کیا۔ پاکستان سپر لیگ کے تمام میچز اگر کراچی' لاہور' کوئٹہ' پشاور اور اسلام آباد میں ہوتے تو کیا برا تھا۔ سیکیورٹی کا انتظام ان سب میں کیا جا سکتا تھا۔