پنجاب میں کرپٹ سول و پولیس بیوروکریسی کےخلاف ایکشن شروع

کرپشن، لینڈ مافیا، کمیشن مافیا کے خاتمے اور گڈ گورننس کیلیے بدعنوان افسران کا ’’انٹرنل آڈٹ‘‘


Khalid Rasheed March 13, 2017
ملوث افرادکی بچاؤ کی کوششیں، متعدد افسران کو نوٹسز بھی جاری کیے گئے ہیں،ذرائع۔ فوٹو: فائل

حکومت پنجاب نے8 سال بعد صوبے میں کرپشن، لینڈ مافیا، کمیشن مافیا کے خاتمے سمیت گڈ گورننس کے قیام کیلیے صوبہ کی سول و پولیس بیوروکریسی کا ''انٹرنل آڈٹ'' شروع کر دیا ہے جسے محکمہ جاتی احتساب کا نام بھی دیا گیا ہے۔

پنجاب میں سرکاری نوکری کے دوران اختیارات سے تجاوز کرکے اپنی مالی حیثیت کو مضبوط بنانے والے16صوبائی اداروں اور 36 اضلاع میں گذشتہ کئی برس سے تعینات ''نیک نام'' سیکڑوں افسروں کی ابتدائی خفیہ فہرست مرتب کر کے ایوان وزیر اعلیٰ کو پیش کی گئی ہے۔ لگژری گاڑیوں، رہائش گاہوں اور مضبوط بینک بیلنس رکھنے والے بعض ''نیک نام'' قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے مرتب کی گئی رپورٹس سے اپنے نام نکلوانے کیلیے سرگرم عمل ہیں۔

ادھر صوبائی حکومت نے کرپشن کو ناسور قرار دیتے ہوئے اس میں ملوث افسران و ملازمین کو جبری برطرف کرنے کی بابت مشاورت کا عمل شروع کر دیا ہے۔ معتبر اور مصدقہ ذرائع کے مطابق وزیر اعلی شہباز شریف نے احتساب کا شکنجہ کسنے کا حکم دیا تھا۔ مذکورہ احکام کی روشنی میں ایک سال کے عرصہ کے بعد مذکورہ فہرست مرتب کر کے ایوان وزیر اعلیٰ پیش کر دی گئی ہے۔

ذرائع نے دعویٰ کیا کہ اس فہرست میں تقریباً 400 کے قریب گزیٹیڈ اور نان گزٹیڈ سرکاری افسران و ملازمین کے نام موجود ہیں جن کا تعلق بالترتیب پنجاب بورڈ آف ریونیو، پنجاب پولیس، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، اینٹی کرپشن، ماحولیات، تعلیمات(اسکولز)، ہائر ایجوکیشن، پرائمری صحت، انرجی، پی اینڈ ڈی، سیکنڈری صحت، بلدیات، پنجاب اسمبلی، محکمہ کوآپریٹیو، آبپاشی، ایل ڈی اے، واسا، مواصلات و تعمیرات، جیل خانہ جات سمیت دیگر محکمہ جات شامل ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ جن افسروں کے نام ابتدائی طور پر پیش کی جانے والی فہرست میں شامل ہیں انھوں نے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دیے ہیں تاہم ابتدائی طور پر جن افسروں کے ناموں کی فہرست پیش کی گئی ہے ان میں سے ایک بڑی تعداد میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے بچے نہ صرف پاکستان کے مہنگے ترین اسکولز اور کالجز کے علاوہ نجی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں بلکہ بیرون ملک بھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔