سوشل ویب سائٹس عہد حاضر کا طلسم ہوش ربا

سائٹس اپنے صارف کو اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے کے لیے تحفظ کا ایک خاص احساس فراہم کرتی ہیں.


Ghulam Mohi Uddin January 13, 2013
فوٹو :فائل

KARACHI: عالمی سطح پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کا استعمال جس تیزی سے بڑھ رہا ہے اور مستقبل میں مزید بڑھنے کا قوی امکان ہے، اُسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ قوموں کے عروج و زوال کے فیصلے بھی اب ان ہی ویب سائٹس پر ہوا کریں گے۔

اِن میں سے بعض معروف ویب سائٹس کا مالیاتی حجم اربوں ڈالر تک چلا گیا ہے اور مستقبل قریب میں یہ مالیاتی حجم کسی بھی لحاظ سے کم ہوتا نظرنہیں آرہا۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی مقبولیت کی متعدد وجوہات میں سے ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ یہ سائٹس اپنے صارف کو اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے کے لیے تحفظ کا ایک خاص احساس فراہم کرتی ہیں جس سے صارف کے سارے عیب وقتی طور پر چھپ جاتے ہیں۔ نفسیات دان اِس احساس تحفظ کو احساس کمتری سے تعبیر کرتے ہیں مگر صارفین یہ بات ماننے کو تیار نہیں۔

سوشل ویب سائٹس کیا ہوتی ہیں؟
سوشل نیٹ ورک سے مراد ایسی ویب سائٹس ہے جہاں آپ اپنا خاکہ ''پروفائل'' بنا سکتے ہیں۔ یہ آپ کی شخصیت کے بارے میں معلومات پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہاں آپ دوسرے لوگوں سے پیغامات، تصاویر اور دیگر معلومات کا تبادلہ کر سکتے ہیں۔ گذشتہ چند برسوں سے سوشل نیٹ ورکس کی مقبولیت میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ پروفیسر ہِل جارج کے مطابق اِس وقت ایک دن میں کم از کم تین سو ملین افراد سوشل ویب سائٹس استعمال کرتے ہیں۔ ہاورڈ بزنس اسکول میں پڑھانے والے پروفیسر کہتے ہیں کہ ''اِن افراد میں ایک سو ملین افراد ''لِنکڈ اِن'' پر جب کہ دو ملین افراد ''ٹوئیٹر'' پر ایک دوسرے سے رابطے کر رہے ہیں جب کہ عصرِ حاضر کی سب سے معروف ویب سائٹس فیس بک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر اِسے ایک ملک تصور کیا جائے تو یہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہو گا۔

عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ اِن ویب سائٹس کا استعمال غیر مفید باتوں تک محدود ہے لیکن اِن ویب سائٹس کے مثبت استعمال میں بھی تیزی سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ لوگوں نے اِن نیٹ ورکس کو سیاسی طور پر منظم ہونے کے لیے استعمال کیا اور اسی طرح سماجی فلاح و بہبود کے ادارے بھی اپنے مقاصد کے لیے اِن ویب سائٹس سے مستفید ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں کاروباری دنیا میں بھی اِن ویب سائٹس کی اہمیت کو تسلیم کیا جانے لگا ہے کیوں کہ اِن کی مدد سے بے شمار چھوٹے چھوٹے کاروبار اب تیزی سے ترقی کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

سوشل نیٹ ورکس کی بہ دولت خبر کی دنیا میں اہم تبدیلیاں آ رہی ہیں جن کی وجہ سے روایتی میڈیا کے قارئین، ناظرین اور سامعین کو ایک نئی جہت ملی ہے جس سے اُن کے اختیارات میں بھی اضافہ ہوا ہ۔ اب وہ اِن ویب سائٹس کے ذریعے اپنی آراء اور تبصرے نہایت آسانی کے ساتھ ریڈیو، اخبارات اور نیوز چینل تک پہنچا دیتے ہیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا کے آنے سے دنیا بھر میں مارکیٹنگ اور ایڈورٹائزنگ کے روایتی طریقے بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔ یہ ادارے اِن نیٹ ورکس کی سہولت کے باعث صارفین تک اپنی اشیاء اور خدمات کے بارے میں معلومات پہنچا کر صارفین کی ضروریات کو بہتر انداز میں سمجھ رہے ہیں''۔

لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر رابطے کے دوران صرف ان معلومات کو سچ تسلیم کیا جاتا ہے جو رابطہ کرنے والا اپنے متعلق فراہم کرتا ہے کیوں کہ اس کی تصدیق فوری طور پر کسی دوسرے حوالے سے اکثر و بیش تر ممکن ہی نہیں ہوتی اِس لیے دوسرے فریق کو یا تو مکمل طور پر اعتماد کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے یا پھر مکمل طور پر بے اعتمادی کے ساتھ دوستی یا رابطے کی درخواست کو رد کرنا پڑتا ہے۔ عالمی سطح پر رابطوں کی اِن ویب سائٹس کو استعمال کرنے والوں میں کروڑوں صارفین ایسے بھی ہیں جو بلامقصد، بغیر تصدیق اور بے جواز ایسی درخواستوں کو قبول کرتے چلے جاتے ہیں اور اُسی حساب سے دوسروں کو وہ دعوت نامے بھی ارسال کرتے رہتے ہیں۔ یہ عمل بعض لوگوںکا محبوب مشغلہ بن چکا ہے اسی لیے آج کل مشاغل کی فہرست میں رینکنگ کے لحاظ سے یہ مشغلہ سب سے نمایاں ہے۔

ان صارفین میں شامل لوگوں کی مختلف ناموں، مختلف ای میلز اور مختلف حوالوں سے سماجی ویب سائٹس پر طرح طرح کی شناخت ہوتی ہیں۔ اِن میں شامل بعض منچلے تو خود کو ہی دوست بنا کر رابطوں کے نشے سے سرشار ہوتے رہتے ہیں یعنی ایک ایڈریس سے اپنے آپ کو ہی پیغام بھیج کر دوسروں کو مرعوب کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں اور اپنے متعلق وہ کچھ بیان کرتے ہیں کہ اگر کسی کو حقیقت کا علم ہو جائے تو اُس پر سکتہ طاری ہو جائے، بہ ہرحال یہ صارفین ایک حقیقت ہیں اور ہمیشہ کے لیے حقیقت ہی رہیں گے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر روابط دو طرح کے ہوتے ہیں۔ پہلی قسم کے رابطوں میں وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جن کو آپ ذاتی حوالے سے یا کسی دوسرے مستند ذریعے سے جانتے اور پہچانتے ہیں، دوسری قسم میں وہ لوگ آتے ہیں جو آپ کو نہیں جانتے اور آپ ان کو نہیں جانتے، اجنبیت کے اِس کھیل کو زیادہ تر نوجوان نسل اور غیر سنجیدہ لوگ ہی پسند کرتے ہیں، نوجوانوں کے قریب یہ ایک ''تِھرل'' ہے جب کہ غیر سنجیدہ صارفین اِس کو وقت گزارنے، کتھارسس کرنے یا پھر ''پدرم سلطان بُود'' یعنی بڑھکیں مارنے کا ایک عمدہ پلیٹ فارم تصور کرتے ہیں۔ اسی طبقہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر یہ طبقہ ''محلے کی ماسی'' کے کردار کو نہایت عمدگی سے ادا کرتا ہے، اِن کے کردار کی نفی کرنا ممکن نہیں کیوں کہ ان ہی کے دم سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کا آدھے سے زیادہ کاروبار چل رہا ہے۔

سچائی کی شرح صرف 5 فی صد
عالمی سطح پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے حوالے سے یہ بات خاصی وزنی معلوم ہوتی ہے کہ اِن ویب سائٹس پر موجود تحریری مواد کا 50 فی صد جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے جب کہ 25 فی صد کم علمی پر منحصر ہوتا ہے اور باقی کا 20 فی صد مواد ایسا ہوتا ہے کہ اُس کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو صرف 5 فی صد مواد ہی ایسابچتا ہے جس کو آنکھیں بند کرکے حقیقت کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ اِس نئی تحقیق کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹس استعمال کرنے والے تمام صارفین شک کے دائرے میں آ چکے ہیں لیکن اِس کے باوجود دنیا بھر میں سماجی رابطوں کی یہ سائٹس دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔

اِسی بات کو بنیاد بنا کر جب متعدد نئی تحقیقات سامنے آئیں تو معلوم ہوا کہ غیر یقینی کی اس فضا میں انٹرنیٹ پر فراڈ کی شرح میںبھی گزشتہ تین برسوں کے دوران 85 فی صد تک اضافہ ہوا ہے جس کو ''سائیبر کرائم'' کی اصطلاح سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ جرم 65 فی صد تک سماجی ویب سائٹس کے ذریعے ہو رہا ہے۔ اس جرم کے پھیلنے کی بڑی وجہ جو ماہرین نے بتائی ہے وہ یہ ہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے 40 فی صد کے قریب صارفین میں چھٹی حِس بیدار ہونے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی۔ وہ اپنی معصومیت اورسادہ لوحی کی وجہ سے دھوکا کھا جاتے ہیں اور ان میں شامل زیادہ تر لوگ کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں جو کمپیوٹر پر انٹرنیٹ چلانا کسی طرح سیکھ تو لیتے ہیں لیکن اس ٹیکنالوجی کی باریکیوں سے آشنا نہیں ہوتے اور یوں یہ معصوم صارفین، چالاک صارفین یا فراڈیوں کا شکار ہو جاتے ہیں جو اِن سائٹس پر اپنے رابطے صرف اِسی مقصد کے لیے بناتے ہیں۔

ایک دوسری تحقیق کے مطابق سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر آنے والے نئے صارفین میں سے صرف 27 فی صد صارفین ہی مستقل مزاج صارف کہلاتے ہیں جو سال ہا سال تک روانہ اپنے کھاتوں پر کسی نہ کسی حوالے سے حاضر رہتے ہیں، باقی بچنے والوں میں سے 22 فی صد ہفتے میں ایک یا دو بار اپنا کھاتا چیک کرتے ہیں جب کہ باقی کے 50 فی صد صارفین میں سے 10 فی صد صارف جب کبھی موقع ملے کھاتا چیک کرتے ہیں اور آخری 40 فی صد صارفین کھاتا استعمال نہ کرنے کی وجہ سے اپنا اکائونٹ بند کرنے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہوئے کسی اور مشغلے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

اداس کرنے والی ویب سائٹس
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے حوالے سے ایک دوسری بات کو بھی عالمی سطح پر خاصی شہرت مل رہی ہے کہ یہ سائٹس ''اداس کرنے والی'' ہوتی ہیں۔ اِن کو مسلسل استعمال کرنے والے 80 فی صد صارفین نے متفقہ طور پر اقرار کیاہے کہ کچھ عرصہ بعد اِن سائٹس کے استعمال سے انسان کو خواہ مخواہ کی پریشانی اور بے معنی تشویش لاحق ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ اِس کی وجہ یہ ہے کہ انسان جب مسلسل مصنوعی اور جھوٹے ماحول میں رہنے لگتا ہے تو اس کے اندر فطری طور پر بے چینی جنم لینا شروع کر دیتی ہے جس کی وجہ سے ان ویب سائٹس کو ''اداس کرنے والی سائٹس'' کا نام دیا جارہا ہے۔

تحفے پر سے ریپر ابھی نہیں اُترا
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس عہد رواں کا وہ تحفہ ہے جس پر چڑھا ہوا خوش نماچمکیلا ریپر ابھی پوری طرح اترا نہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں میں مقبولیت حاصل کرنے والی یہ ویب سائٹس ابھی نوعمری کے مراحل سے گزر رہی ہیں، مستقبل میں یہ کیا رنگ لاتی ہیں ان کے متعلق حتمی طور پر کچھ کہنا درست نہیں ہوگا لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ سرمایہ داری نظام معیشت کا ایک اہم ہتھیار ثابت ہوں گی۔ قوموں کے مزاج رویے، اقدار اور سماج کو غیر محسوس طریقے سے تبدیل کرنے کے لیے اِس ہتھیار کو نہایت مؤثر طریقے سے استعمال کیا جا ئے گا اور اپنی پسند کے نتائج حاصل کرنے کے لیے سرمایہ دار اِن کا بھرپور استعمال کریں گے۔ آج کا انسان پہلے ہی تنہائی کے خوف سے پریشان ہے لیکن کل کا انسان ان ویب سائٹس پر ہزاروں آشنائوں کی موجودگی میں بھی اگر پریشان حال نظر آیا تو پھر اُس کا علاج بھی بذریعہ ''آن لائن'' ہی ہوا کرے گا اور مریض کی حالت کچھ یوں ہو گی کہ

میں ایسے جمگھٹے میں کھو گیا ہوں
جہاں میرے سوا کوئی نہیں ہے

اعلانِ جنگ کا منفرد واقعہ
ماضی میں جنگوں کا اعلان سربراہ مملکت یا سپہ سالار اعظم کیا کرتے تھے لیکن جنگی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی ملک نے دوسرے ملک پر حملہ کرنے کا اعلان سماجی رابطے کی ویبٹ سائٹس پر جاری کرکے یہ عندیہ دیا ہے کہ مستقبل میں اِن ویب سائٹس کو کن کن مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ نومبر 2012 میں جب اسرائیل نے غزہ شہر پر حملہ کرکے سیکڑوں بے گناہ فلسطینیوں کو شہید کیا تھا تو اُس سے قبل اسرائیل ڈیفنس فورس (آئی ڈی ایف) کے ترجمان فیاض بریہوم نے سوشل میڈیا کی معروف ویب سائٹس ''ٹویٹر'' پر ایک پیغام جاری کیا کہ ''آئی ڈی ایف بڑے پیمانے پر ''دہشت گردی'' کے خلاف جنگ شروع کر رہی ہے، اسرائیل کے پاس تمام آپشن کھلے ہیں اگر ضروری سمجھا گیا تو غزہ میں زمینی جنگ بھی شروع کی جا سکتی ہے''۔ اِس پیغام کے چند لمحے بعد ہی اسرائیلی طیاروں اور میزائلوں نے غزہ میں آگ اور خون کی ہولی کھیلنا شروع کر دی جس میں سب سے زیادہ نو عمر بچے شہید ہوئے تھے۔

اس واقعے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ مستقبل میں لڑی جانے والی جنگوں میں سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر ایسے ایسے پراپیگنڈا پیغامات جاری ہو ں گے جو کسی دوسری قوم کے ارادوں کو کم زور کرنے یا انہیں میدان جنگ میں مضبوط کرنے کے لیے استعمال ہوں گے۔ اب قوموں کو میدان جنگ میں فوجوں کے ساتھ سوشل میڈیا پر جنگ کی تربیت بھی حاصل کرنا ہوگی تاکہ دشمن کے وار کو زیادہ بہتر انداز سے نہ صرف روکا جا سکے بل کہ اُس کو واپس دشمن پر پلٹا بھی جا سکے۔ شاید اب جنگیں جوش سے زیادہ مزید ہوش سے لڑنے کا وقت آ گیا ہے۔

تبصروں کا عالمی ریکارڈ
سوشل میڈیا کی معروف ویب سائٹس ''ٹویٹر'' کے مطابق امریکا میں صدارتی انتخاب کی ابتدائی چند ساعتوں کے دوران ٹویٹر پر ایک کروڑ 10 لاکھ لوگوں نے آپس میں تبادلۂِ خیال کیا تھا۔ ٹویٹر انتظامیہ نے کہا ہے کہ عالمی سطح پر کسی ویب سائٹس کے ذریعے سیاسی ایونٹس پر بے لاگ تبصروں سے متعلق یہ سب سے بڑی تعداد ریکارڈ ہوئی ہے۔ اِس بات کو برطانوی خبر رساں ادارے نے بھی رپورٹ کیا تھا جس کے مطابق صدر باراک اوباما اور مدمقابل امیدوار مٹ رومنی کے درمیان مباحثوں میں صرف 90 منٹ کے اندر 13 لاکھ تحریری تبصرے ریکارڈ ہوئے تھے جو ویب سائٹس پر سیاسی امور کے بارے میں لکھے گئے تبصروں کا ایک عالمی ریکارڈ ہے۔

ویب سائٹس کے ایک اعلیٰ عہدے دار آدم شارپ نے اِس ضمن میں لکھا تھا کہ امریکا کے حالیہ انتخابات میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس نے نمایاں کردار ادا کیا۔ سب سے زیادہ تبصرے ٹویٹر اور فیس بک پر جاری کیے گئے اور ان پر تبادلۂِ خیال بھی ہوتا رہا۔ الیکشن مہم کے دوران سماجی ویب سائٹس پر 22 فی صد امریکیوں نے اپنے پسندیدہ امیدوار کا اعلان کر دیا تھا اور وہ اپنے اپنے امیدوار کی حمایت میں مہم بھی چلاتے رہے۔
ذرائع ابلاغ پر امریکی انتخابات کی مہم اور سوشل میڈیا پر جاری مہم کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر جو بات کہی جاتی ہے اُس کی تصدیق یا تردید کی جا سکتی ہے لیکن جو مہم سوشل ویب سائٹس پر چلائی جاتی ہے وہ تصدیق یا تردید سے بالاتر ہو جاتی ہے اور ''دما دم مست قلندر'' کی تال پر جاری رہتی ہے، یہ اس میڈیا کی خوب صورتی بھی ہے اور بد صورتی بھی۔

ہر سماجی ویب سائٹس ایک بندگلی
اوٹاوا یونی ورسٹی کے شعبۂِ قانون میں ریسرچ چیئر اِن انٹرنیٹ اینڈ ای کامرس کے پروفیسر اور انٹرنیٹ قوانین بنانے والے مسٹر مائیکل گیسٹ کے مطابق''سوشل نیٹ ورکس چاردیواری میں قید باغات بن چکے ہیں اب اُن کو کھولنے کی ضرورت ہے تاکہ ان سے متعلق بابل و نینوا کے باغات کی طرح کا تاثر زائل ہو سکے''۔ انہوں نے کہا کہ فیس بک یا مائی سپیس کروڑوں صارفین کی روز مرہ زندگی کا حصہ بن چکی ہے لیکن صارفین کو ہر نئی ویب سائٹ پر اپنی ذاتی معلومات بار بار ٹائپ کرنا پڑتی ہیں، رکنیت حاصل کرنے کے بعد بیش تر ویب سائٹس صارفین کے لیے محض ایک ''چار دیواری والا بند باغ'' ثابت ہوتی ہیں جہاں اس کے فوائد انتہائی محدود ہو جاتے ہیں کیوں کہ آپ اگر مائی سپیس پر ہیں تو فیس بک پر موجود اپنے دوست کو لنک نہیں کرسکتے۔

سوشل نیٹ ورکنگ کی سائٹس کو بین الاقوامی سطح پر دیکھا جائے تو انتہائی مایوس کن نتائج سامنے آتے ہیں حال آں کہ انٹرنیٹ پوری دنیا کو رابطے میں لانے کا دعویٰ کررہا ہے۔ مصیبت یہ بھی ہے کہ ہر سوشل نیٹ ورکس میںصارفین کے لیے علاحدہ لاگ ان اور علاحدہ پاس ورڈ رکھا جاتا ہے اس کا آسان حل تو ایک ہی ہے کہ سوشل نیٹ ورکس ایک دوسرے کے ساتھ رابطے اور لنک کرنے کو آسان بنائیں تاکہ صارفین کو اپنی معلومات پر زیادہ اختیار حاصل ہو اور انہیں بار بار معلومات ٹائپ نہ کرنی پڑیں۔ یہ کوئی نئی تجویز نہیں، ماہرین ''اوپن سوشل نیٹ ورکس'' کی ضرورت پر سال ہا سال سے زور دے رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ وقت آیا ہی چاہتا ہو کیوں کہ ٹیکنالوجی کی سطح پر ایسے کئی نئے فیصلے سامنے آرہے ہیں جہاں اوپن سسٹم کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ اس کی ایک مثال میوزک انڈسٹری کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ صارفین کو میوزک ڈائون لوڈ کی ایسی سہولت فراہم کریں جسے ہر میوزک پلیئر پر چلایا جا سکے۔

بھارت میں غیر ملکی سماجی سائٹس پر پابندی کی تیاری
گوگل، فیس بک، یاہو، مائیکرو سافٹ اور دیگر 17 سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کو قانونی کاروائی کا سامنا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ وہ مختلف فرقوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دے رہی ہیں۔ بھارتی حکومت نے ان ویب سائٹس کے خلاف فوج داری مقدمہ دائر کرنے کی منظوری دے دی ہے۔

حکومت نے دہلی کی عدالت میں موقف اختیار کیا ہے کہ 21 سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کے لیے کافی مواد اور ثبوت موجود ہیںکیوںکہ یہ ویب سائٹس مختلف فرقوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دے رہی تھیں اور اس طرح قومی یک جہتی کے لیے خطرہ پیداہو رہا تھا۔ جائزہ لینے اور کافی غوروخوض کے بعد یہ اطمینان ہو چکا ہے کہ قانون تعزیراتِ ہند کی دفعات 153-A اور 153-B اور295-A کے تحت فوج داری مقدمہ دائر کیا جائے اس سلسلے میں وزارتِ خارجہ امور کو ہدایت دی گئی ہے کہ بیرونی ممالک میں قائم ان کمپنیوں کو سمن روانہ کیے جائیں۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس۔۔۔ دلدل
پاکستان سمیت پوری دنیا میںسماجی ویب سائٹس کے صارفین اپنے دفتری اوقات کار کے دوران بھی سماجی رابطوں میں مسلسل مصروف نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے جہاں پیشہ وارانہ امور میں حرج ہوتا ہے وہاں توانائی بھی ضائع ہوتی ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے متعدد ممالک میں دفتروں اور کام کرنے والت مقامات پر انتظامی شعبوں نے سماجی ویب سائٹس کو تکنیکی طور پربند کر دیاہے۔

اس امر سے وقتی طور پر افاقہ ضرور ہوا مگر عادی صارفین نے اس کا حل یہ نکالا کہ اب وہ اپنے اپنے موبائل فونز پر انٹر نیٹ کے ذریعے رابطوں کی دنیا میں رہتے ہیں اور یوں کام کا مزید حرج ہو نے لگا۔ دفتروں اورکمپنیوں کے اہل کاروں کی طرف سے سوشل نیٹ ورکنگ سائٹوں کا استعمال ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ لوگ وقت ضائع کرتے ہیں اور کام کے معاملات پر کم توجہ دیتے ہیں۔ یوں ان کی کارکردگی میں کمی آ جاتی ہے، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آمدنی کم ہونے لگتی ہے۔ اس لیے سوشل نیٹ ورکنگ سائٹیں ان کمپنیوں کے مالکان کو بہت نا پسند ہیں حتیٰ کہ انہیں یقین ہے کہ کام کے اوقات میں ایسی سائٹیں دیکھے جانے پر پابندی عائد کرنا ہی مناسب ترین عمل ہے۔

حالیہ تحقیقات نے واضح کر دیا ہے کہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹوں کے ذریعے اپنے دوستوںسے رابطہ رکھنے کی خواہش کا انسانی فطرت سے براہِ راست تعلق ہے۔ انسان کے جسم میں oxytocine نامی ایک ایسا مادہ ہوتا ہے جس کی مقدار قریبی لوگوں سے بات چیت کے دوران بڑھ جاتی ہے اس مادے کے زیرِ اثر انسان میں لوگوں کے اور زیادہ قریب آنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ لوگ آپس میں جتنا زیادہ باتیں کریں ان میں مزید باتیں کرنے کی اتنی ہی زیادہ خواہش پیدا ہو جاتی ہے لیکن کام کاج کے اوقات کار کے دوران یہ سب کچھ کرنا نامناسب ہوتا ہے کیوںکہ کمپنی کے مالکان آپ کو تن خواہ دیتے ہیں اس لیے آپ کو ان کی طرف سے رکھے جانے والے مقاصد اور اہداف کے لیے محنت کرنی چاہیے۔

مگر نیٹ ورکنگ سائٹس استعمال کرنے والے 30 فی صد صارفین کو یقین ہے کہ اس عمل سے ان کی کارکردگی پر کوئی ناگوار اثر نہیں پڑتا بل کہ ان کا خیال ہے کہ اس سے کارکردگی میں بہتری آ جاتی ہے تاہم بیش تر کمپنیوں کے مالکان اپنے کارکنوں کی طرف سے دفتری اوقات کار کے دوران سوشل نیٹ ورکنگ سائٹوں کے استعمال کے قطعی خلاف ہیں لیکن ماہرین نفسیات کا مشورہ ہے کہ کمپنیوں کے مالکان اپنے کارکنوں کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں۔ اکثر لوگ اوقات کار کے دوران سوشل نیٹ ورکنگ سائٹیں اس لیے استعمال کرتے ہیں کہ ان کا کام انتہائی غیردلچسپ ہوتا ہے۔ جہاں تک کارکنوں کا سوال ہے تو ان کے لیے اوقات کار کے دوران فرصت ملنے کی صورت میں چائے پینا، اپنے کسی رفیق کار کے ساتھ بات کرنا یا پھر آرام سے بیٹھنا ہی مناسب ہوگا۔

صدر اوباما نے بیٹیوں کو فیس بک اکائونٹ بنانے سے منع کر دیا
گزشتہ دنوں امریکا کے صدر باراک اوباما سے متعلق میڈیا میں دل چسپ خبر شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ امریکی صدر نے اپنی دونوں بیٹیوں کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس سے دور رہنے کی ہدایت کی ہے۔ خبر کے مطابق یہ ہدایت اِس لیے جاری کرنی پڑی کہ امریکی صدر نہیں چاہتے کہ اُن کے خاندان سے متعلق معلومات دوسرے لوگوں تک پہنچیں۔ اِس ضمن میں بعض امریکی حلقوں کا کہنا ہے کہ صدر نے یہ اقدام سیکیوریٹی کے ضمن میں کیا ہے لیکن ایک حلقے کا یہ بھی اصرار ہے کہ صدر باراک اوباما روایتی باپ ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ اُن کی بیٹیاں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر آ کر دوسرے لوگوں کے ساتھ اپنے بارے میں معلومات شیئر کریں۔ اب دیکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس جہاں عام لوگوں کے لیے بعض اوقات خطرناک ثابت ہوتی ہیں وہاں اِس سے اہم اور بڑے لوگ بھی محفوظ نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں