انھوں نے کمال کر دکھایا

بھلائی کا مشن تنہا شروع کیا، پھر اپنے جنون سے اسے وسیع منصوبے میںبدل ڈالا۔


Ateeq Ahmed Azmi January 13, 2013
’’سی این این ہیرو آف دی ایئر 2012 ‘‘ کا ایوارڈ حاصل کرنے والے ٹاپ فائیو افراد۔ فوٹو : فائل

ذرائع ابلاغ کا معتبر نشریاتی ادارہ CNN سن2007سے انسانیت کی خدمت کے اعتراف میں CNNہیروز ایوارڈ تقسیم کررہا ہے۔

یہ ایوارڈ ان لوگوں کو دیا جاتا ہے، جنہوں نے تن تنہا انسانیت کی بھلائی اور فلاح کا بیڑا اٹھایا اور اپنی علاقائی کمیونٹی پر انحصار کرتے ہوئے اسے وسیع مشن میں تبدیل کردیا۔ ایسے بے غرض اور بے لوث افراد کو ان کی کارکردگی کی بنیاد پر عوام الناس کے ووٹوں سے منتخب کیا جاتا ہے۔ زیرنظر تحریر میں ''سال2012کا ہیرو ایوارڈ'' حاصل کرنے والی ٹاپ فائیو شخصیات کے کارناموں اور خدمات کا احاطہ کیا گیا ہے۔

پشپا باسنت(Pushpa Basnet)
پشپا باسنت کو صبح اٹھنے کے لیے کسی گھڑی کے الارم کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ جس گھر میں40سے زاید بچے ہوں وہاں چڑیوں کی چہکار کے ساتھ بچوں کی قلقاریاں اور شور نیند سے اٹھانے کے لیے کافی ہے۔ نیپال کے شہر کھٹمنڈو سے تعلق رکھنے والی پشپا باسنت یونیورسٹی کی طالبہ ہیں ایک انتہائی پس ماندہ ملک کی شناخت رکھنے والے نیپال کی یہ باصلاحیت لڑکی سماجی کارکن ہے۔ پشپا باسنت ''ارلی چائلڈ ڈویلپمنٹ سینٹر (ECDC)'' اور ''بٹرفلائی ہوم'' کی روح رواں ہیں، جس کا بنیادی مقصد ''جیل میں قید عورتوں کے ساتھ ان کے بے گناہ اور معصوم بچوں کو رہائی دلا کر بہتر زندگی کی جانب لانا ہے۔''

پشپا باسنت نے یہ کام اس وقت شروع کیا جب دورانِ تعلیم کالج کے ایک اسائنمنٹ کے سلسلے میں وہ خواتین کی جیل میں گئیں تویہ جان کر انتہائی دل گرفتہ ہوئیں کہ قیدی عورتوں کے ساتھ ان کے بے گناہ معصوم بچے بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے زندگی گزار نے پر مجبور ہیں اور دورانِ قید ان مائوں کو فی کس تیس گرام چاول اور یومیہ 15روپے الائونس دیا جاتا ہے، جو کسی بھی صورت قیدی مائوں کے لیے کافی نہیں ہے۔

پشپا کا کہنا ہے کہ یہ 2005کے اواخر کی بات ہے جب میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے ان بچوں کے لیے کچھ کرنا چاہیے، جو ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ ایک روایتی سوچ والے معاشرے میں ایک اکیس سال کی عمر کی لڑکی کے لیے اس خواب کو عملی جامہ پہنانے میں نہ صرف سماجی مصائب کا سامنا تھا، بل کہ معاشی مسائل بھی حل طلب تھے، لیکن پشپا باسنت نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی بہن اور ساتھیوں کی مدد سے کچھ رقم، جس کی مالیت ستر ہزار نیپالی روپیہ بنتی تھی جمع کرنے میں کام یاب ہوئیں اور بچوں کے لیے جیل سے باہر گھر جیسا ماحول دینے کے لیے اقدامات شروع کردیے۔

ایک غربت زدہ ملک کی جیل میں جہاں بدزبانی، بیماری، گندگی اور لاتعداد دوسری برائیاں تھیں، ایسے ماحول سے بچوں کو نکال کر گھر جیسے ماحول میں منتقلی کا سننے کے باوجود بیشتر قیدی مائوں نے اپنے پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو پشپا باسنت کے ''ارلی چائلڈ ڈویلپمنٹ سینٹر(ECDC)'' میں بھیجنے پر رضامندی ظاہر نہیں کی اور محض پانچ بچوں کو پشپا کے سینٹر میں داخل ہونے کی اجازت ملی، لیکن بچوں کی حالت زار میں بہتری نظر آنے پر جلد ہی یہ تعداد پینتیس بچوں تک جاپہنچی۔

یہ بچے سینٹر میں، جسے بٹر فلائی ہوم بھی کہا جاتا ہے، دن گزارنے کے بعد شام کو اپنی مائوں کے پاس واپس چلے جاتے۔ پشپا کا اصل خواب بچوں کو صرف جیل سے دور رکھنا نہیں تھا بلکہ ایک کارآمد انسان بنانا بھی تھا۔ چناں چہ انھوں نے 2007 میں ڈے کیئر کی سہولت کے ساتھ ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے ECDC سینٹر کے ساتھ ساتھ ''رہائشی گھر'' کی بنیاد ڈالی جہاں قیدی مائوں کے پانچ سال سے زاید عمر کے بچے تقریباً ایک سال تک مفت تعلیم، خوراک، علاج معالجہ، لباس اور دیگر سماجی سہولیات حاصل کرتے ہیں، جب کہ بچوں اور ان کے والدین کو چھٹیوں اور دیگر اہم مواقع پر آپس میں ملاقات بھی کرائی جاتی ہے۔

بچوں کو سماج میں مثبت سوچ کے ساتھ بھیجتے ہوئے پشپا نے ان بچوں کی مائوں کو بھی رہائی کے بعد قابل عزت زندگی گزارنے کے راستے پر گام زن کرنے کی ٹھانی اور2009میں خواتین جیلوں میں دست کاری اور دیگر ہنروں کے حوالے سے پروگرام شروع کئے اس مرحلے پر پشپا باسنت کا ساتھ سماجی تنظیم ''چینج فیوزن نیپال'' نے دیا اس سینٹر میں قیدی خواتین کی بنائی ہوئی دست کاری اور دیگر اشیاء فروخت کرکے یہ آمدنی سینٹر پر خرچ کی جاتی ہے اور اب ماضی کی طرح پشپا کو سینٹر چلانے کے لیے اپنے زیورات اور قیمتی اشیاء فروخت نہیں کرنی پڑتیں۔ اس حوالے سے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے پشپا نے تمام بچوں کا بینک اکائونٹ بھی کھول دیا ہے، جس میں ان کے مستقبل میں پڑھائی کے حوالے سے اخراجات کے لیے مناسب ر قم ماہانہ بنیادوں پر پس انداز کی جاتی ہے۔

پشپا باسنت کو CNN ہیرو ایوارڈ 2012کے لیے نام زد کرنے والی ان کی سینٹ Xavierکالج کی کلاس فیلو اور قریبی دوست سبین سنگھ کا کہنا ہے کہ پشپا باسنت کا اصل کمال یہ ہے کہ انہوں نے اس کام کا بیڑا محض 21 سال کی عمر میں اٹھایا اور ایک کھاتے پیتے کاروباری گھرانے سے تعلق ہونے کے باوجود انہوں نے نچلے طبقے کی قیدی عورتوں اور ان کے معصوم بچوں کی زندگیوں میں روشنی بکھیرنے کا عمل شروع کیا اور عمر کے ایسے حصے میں جب زیادہ تر نوجوان زندگی کو نہایت غیرذمے داری سے گزار رہے ہوتے ہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پشپا باسنت نے اپنے فلاحی کام کو دنیا بھر کے لیے مثال بنادیا ہے۔

یاد رہے کہ یونیسیف کے مطابق نیپال کی کل آبادی کا پچپن فی صد حصہ غربت کے نشان کے نیچے زندگی گزار رہا ہے، جب کہ نیپال کی آبادی تقریبا پونے تین کروڑ ہے جس میں 26.5فی صد نوجوان ہیں۔ ان نوجوانوں میں شرح خواندگی کا تناسب70فی صد ہے اور اب یہ ستر فی صد شرح خواندگی والے نوجوان پشپاباسنت کو اپنا ایک ایسا آئیڈیل مان چکے ہیں جس نے کمیونٹی پر انحصار کر کے تبدیلی لانے کے خواب کو عملی تعبیر دی اور دنیا بھر میں نیپال اور اس کے نوجوانوں کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔ CNNکی جانب سے پشپا باسنت کو دیگر کام یاب شخصیات کی مانند پچاس ہزار ڈالر بہ طور ''CNNہیرو'' دیے گئے ہیں، جب کہ ڈھائی لاکھ ڈالر کا خصوصی انعام تمام شخصیات میں اول مقام حاصل کرنے پر دیا گیا ہے۔

کتلینا اسکوبار(Catalina Escobar )
جنوبی امریکا کے ملک کولمبیا کے مرکزی شہرCartagenaسے تعلق رکھنے والی ''کتلینا اسکوبار'' کی خدمت کا دائرۂ کار نوعمر ی میں ماں بننے والی لڑکیوں اور ان کے نومولود بچوں کی جان بچانے پر مرکوز ہے۔ بیالیس سالہ انتہائی تعلیم یافتہ کتلینااسکوبار سن 2000تک ایک کام یاب کاروباری خاتون کی حیثیت سے پہچانی جاتی تھیں۔ تاہم اس دوران وہ سماجی کاموں میں بھی بھرپور حصہ لیتی تھیں، جس کا بہترین مصرف غربت میں گِھرے ''کارتاجینا ''(Cartagena) شہر کے مرکزی اسپتال میں بہ طور نرس جزوقتی رضاکارانہ خدمات انجام دینا تھا۔

اس خدمت کے دوران ایک دن سیاہ فام افراد کے جھونپڑپٹی پر مشتمل اس علاقے کی گلی کوچوں میں جنم لینے والا ایک سولہ دن کا معصوم بچہ کتلینا اسکوبار کے ہاتھوں میں دیکھتے ہی دیکھتے دم توڑ گیا، جسے اس کی نوعمر ماں غربت کے باعث دوا نہ دلوا سکی تھی اور جب کروڑپتی اسکوبار کو یہ پتا چلا کہ محض تیس ڈالر کی دوا اس بچے کی جان بچا سکتی تھی تو اسکوبار بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوگئیں اور پھر جب محض ایک ہفتے بعد اسکوبار کو اپنے سولہ ماہ کے بیٹے کی موت کی صورت میں جدائی برداشت کرنی پڑی، جو گھر کی بالکونی سے حادثاتی طور پر باہر گر کر جاں بحق ہوگیا تھا، تو اسکوبار کی دنیا میں انقلاب آگیا۔



اسی لمحے انہوں نے اپنا تمام کاروبار فروخت کرکے کارتاجینا شہر کی نوعمر مائوں کے نومولود بچوں کی جان بچانے والی ادویات اور طبی آلات خرید کر 2001 میں ایک انتہائی جدید اسپتال قائم کیا، انہوں نے یہ کام اپنے مرحوم بیٹے ''Juan Felipe گومز فلیپو فائونڈیشن'' کے زیراہتمام کیا اس ادارے اور اس کے زیراہتمام چلنے والے اسپتال سے ہزاروں بچوں کی جانیں اور سیکڑوں مائوں کو بہتر تعلیم، ہنر، تولیدی صحت سے آگاہی اور روزگار کی فراہمی کی گئی ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شہر میں شیرخوار بچوں کی موت کی شرح میں67 فی صد کمی واقع ہوگئی۔

اس اسپتال کے بارے میں جس میں ڈے کیئر سینٹر سے لے کر کیفے ٹیریا تک شامل ہے، ایک نوعمر غیرشادی شدہ ماں کا کہنا ہے کہ یہ اسپتال ہمارے لیے جنت کا ایک ایسا ٹکڑا ہے جس میں ہمیں نہ صرف زندگی گزارنے کے باعزت طریقے سکھائے جاتے ہیں، بل کہ ایسی سوچ بھی پروان چڑھائی جاتی ہے، جس کی بنیاد پر ہم اپنے بچوں کو معاشرے کا بہتر رکن بھی بنا سکیں۔ واضح رہے کہ 2011 میں '' Juan Felipe گومز فلیپو فائونڈیشن'' کے زیراہتمام ایک اور میڈیکل کمپلیکس اور چائلڈ ڈویپلمینٹ سینٹر بھی تعمیر کیا گیا ہے، جہاں سالانہ 28ہزار مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے، جب کہ نوعمرمائوں کو تولیدی صحت کے حوالے سے مشاورت دی جاتی ہے۔ کتلینا اسکوبار کو تسلسل کے ساتھ فلاحی خدمات انجام دینے پر '' CNNہیرو ایوارڈ'' سے نوازا گیا ہے۔

رضیہ جان(Razia Jan)
''افغان لڑکے ہمارے ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، لہذا تم لڑکیوں کا اسکول بند کردو۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔ لڑکیاں افغانستان کی روشنی ہیں اور بدقسمتی سے تم سب نابینا ہو۔'' یہ وہ گفتگو ہے جو افغانستان میں افغانی لڑکیوں کو علم کے زیور سے آشنا کرانے والی ستر سالہ خاتون رضیہ جان اور مقامی مردوں کے درمیان اسکول قائم کرتے وقت ہوئی۔ نتیجتاً آج کابل سے باہر30 میل دورگائوں ''دیہہ سبز'' (Deh'Subz) میں لڑکیوں کو علم کی روشنی دینے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ اس کاوش کی روح رواں رضیہ جان کے خاندان کے بیشتر افراد افغان جنگ کے دوران مارے جاچکے ہیں۔

ماضی میں خوش حال گھرانے سے تعلق رکھنے والی رضیہ جان 1970میں تعلیم کے حصول کے لیے امریکا منتقل ہوگئیں، جہاں نائن الیون کے حادثے کے بعد انہوں نے Razia's Ray of Hopeفائونڈیشن کے بینر تلے فلاحی کام شروع کیے اور 2002میں جب وہ واپس افغانستان آئیں اور مقامی لڑکیوں کی تعلیمی پس ماندگی دیکھی تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ان لڑکیوں کو تعلیم سے بہرہ مند کریں گی۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے طالبان کے زیرِاثر علاقوں سے باہر اپنی سرگرمیاں شروع کیں اور افغانستان کے مشہور ماہربشریات مرحوم عبدالمجید زبولی کے نام پر بنائے گئے ''Zabuliایجوکیشن سینٹر'' کے زیراہتمام 2008 میں اسکول قائم کیا۔

قدیم انداز کی بنی اس دو منزلہ عمارت میں اس وقت 354 بچیاں تعلیم حاصل کررہی ہیں، جنہیں کمپیوٹر کی تعلیم کے ساتھ ساتھ فارسی، پشتو، انگریزی، ریاضی اور سائنس کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے رضیہ جان کا کہنا ہے کہ ابتدا میں مردوں کی مخالفت کے باوجود پانچ سال گزرنے کے بعد حیرت انگیز طور پر علاقے کے مرد بھی میرے مشن میں میرے شانہ بشانہ کھڑے ہوچکے ہیں، جو یقیناً علم کی برکت کا نتیجہ ہے ایک انتہائی پسماندہ اور لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت سے انکاری معاشرہ جہاں پر لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے پر ان کے چہروں پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہو ( 185واقعات ریکارڈ پر ہیں) یا ان کے اسکولوں کے پانی کی ٹنکی میں زہر ملا دیا جاتا ہو، ایسے معاشرے میں70سالہ رضیہ جان کی پرخلوص اور جواں مردی پر مشتمل تعلیمی تحریک کے اعتراف میں انہیںCNN ہیرو ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔

لیو میکارتھی (Leo McCarthy)
امریکی ریاست مونٹانا کا شہر ''بوتی'' امریکا کے ان چند شہروں میں سے ایک ہے، جہاں عوامی مقامات پر شراب نوشی پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ شراب نوشی کے اسی رجحان نے 2007میں ایک حادثے کو جنم لیا تو لیو میکارتھی نامی شخص ایک تحریک شروع کرنے پر مجبور ہوگیا۔ یہ حادثہ جس میںلیو میکارتھی کی 14سالہ بیٹی جاں بحق اور اس کی دو سہیلیاں چہل قدمی کرتے ہوئے زخمی ہوئیں، ایک کم عمر شراب نوش ڈرائیور کی غفلت کا نتیجہ تھا بیٹی کی تدفین کے موقع پر میکارتھی نے فیصلہ کیا کہ وہ کم عمر بچوں کی شراب نوشی اور ڈرائیونگ کے خلا ف مہم شروع کریں گے۔

اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنی بیٹی کے نام سے ''Mariah's Challengeاسکالر شپ'' کا اجراء کیا۔ یہ آن لائن اسکالر شپ1000ڈالر کی ہے، جس میں چیلینج قبول کرنے والے کو اس بات کا حلف اٹھانا ہوتا ہے کہ وہ نہ تو شراب نوشی کرے گا اور نہ ہی کسی ایسے شخص کے ساتھ گاڑی میں بیٹھے گا جس نے شراب پی ہو، نہ ہی وہ ڈرائیونگ لائسنس ملنے کی عمر سے قبل گاڑی چلائے گا اور پھر اپنی زندگی میں اس حلف سے آنے والے مشاہدات پر مبنی تین سو الفاظ پر مشتمل ایک مضمون لکھ کر ارسال کرے گا، جسے پڑھ کر کمیٹی اسے اسکالرشپ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرے گی۔

لیو میکارتھی کی جانب سے مقامی سطح پر شروع کی جانے والی اس تحریک کے مثبت نتائج اس وقت دکھائی دیے جب بوتی شہر میں شراب نوشی کے باعث حادثات کا شکار ہونے والوں کی تعداد میں 44 فی صد کمی دیکھنے میں آئی۔ واضح رہے کہ اب تک 140نوجوانوں کو اسکالرشپ دی جاچکی ہے اور اب لیو میکارتھی اور Mariah's Challengeکی ٹیم کے دیگر ارکان اس تحریک کو مزید علاقوں تک پھیلانے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کی جانب راغب کرنے میں اہم کردار ادا کرنے والی یہ کمیونٹی بیسڈ تحریک اب امریکا کی ریاست مونٹانا کی پہچان بن چکی ہے اور تیزی سے متحرک ہو کر مثبت نتائج فراہم کرنے کے باعث لیو میکارتھی CNNہیرو ایوارڈ کے حق دار قرار دیے گئے ہیں۔

تھولانی ماڈونڈو(Thulani Madondo)
دنیا بھر میں جہاں جہاں غربت ہے وہاں کے مسائل تقریباً یکساں ہے، مثلاً صحت عامہ، ناخواندگی، بے روزگاری اور امن وامان کے مسائل، لیکن جنوبی افریقا کے صوبےGauteng کے نواح میں واقع مضافاتی علاقہ ''کلپ ٹائون(Kliptown) اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہاں بسنے والوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ان مسائل سے نکلنے کی جدوجہد کی ہے۔ اس جدوجہد کے سرخیل تیس برس کے تھولانی ماڈونڈو ہیں، جنہوں نے گاڑیاں دھوکر حاصل ہونے والی آمدنی سے نہ صرف تعلیم حاصل کی، بلکہ چالیس ہزار کی آبادی والے اس علاقے اور اپنے خاندان کے وہ پہلے فرد بھی ہیں، جنہوں نے یونیورسٹی سے گریجویشن کی ڈگری لی۔

ترقی یافتہ اور خوش حال شہر جوہانسبرگ سے محض پندرہ میل کی دوری پر واقع کلپ ٹائون کے بچوں اور نوجوانوں کی کایا کلپ اس وقت پلٹی جب تھولانی ماڈونڈو نے ''کلپ ٹائون یوتھ پروگرام '' (KYP)کی داغ بیل ڈالی مفت تعلیم اور غیرنصابی سرگرمیوں کے ذریعے پورے ہفتے نوجوانوں کو متحرک رکھنے والے اس پروگرام سے اب تک چار سو سے زاید بچے مستفید ہوچکے ہیں اور اب یہ بچے کمیونٹی کے دیگر بچوں کو زیور تعلیم سے آشنا کررہے ہیں۔

واضح رہے کہ تھولانی ماڈونڈو تمام بچوں کو مفت تعلیم دیتے ہیں اور اس کارخیر کے بدلے میں بچوں سے صرف اس بات کا عہد لیتے ہیں کہ وہ اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے علاقے کے دیگر بچوں کو تعلیم دیں گے۔ اس عہد کے تناظر میں تھولانی ماڈونڈو نہایت جوش سے کہتے ہیں کہ اس اصول یا عہد کے باعث علاقے کے بچوں کا مستقبل اپنے ہی علاقے کے بچوں کے ہاتھوں سنورتا جارہا ہے، تن تنہا کلپ ٹائون یوتھ پروگرام شروع کرنے اور غربت میں گھرے ہونے کے باوجود اپنی مدد آپ کے اصول پر اس پروگرام کو کام یابی سے جاری رکھنے پر تھولانی ماڈونڈو کو CNNہیرو ایوارڈ کے ٹاپ فائیو میں شامل کیا گیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں