’’نادیدہ ریاست‘‘
یہ وہی قوت ہے جو منتخب حکومت کو کمزور کرتی اور ان کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے
نیویارک ٹائمز میں امینڈا ٹاہب اور میکس فشر نے بیوروکریسی کے نظروں سے اوجھل نیٹ ورک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اسے ''ڈیپ اسٹیٹ'' یا ''نادیدہ ریاست'' قرار دیا، یہ وہی قوت ہے جو منتخب حکومت کو کمزور کرتی اور ان کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے، جس طرح آج کل اس نے ٹرمپ انتظامیہ کو مشکلات کا شکار کر رکھا ہے۔ انھوں نے امریکا کی صورتحال کا موازنہ مصر، ترکی اور پاکستان سے کیا ہے، بدقسمتی سے ان سبھی ممالک میں یہ ''نادیدہ ریاست'' وجود رکھتی ہے۔
''ریاست کے اندر ریاست'' بھی اسے ہی کہتے ہیں۔ اس سے مراد وہ عناصر ہیں جو افواج، خفیہ اداروں، پولیس، نوکر شاہی وغیرہ جیسے کسی بھی ملک کے ریاستی ڈھانچے کے اہم کل پرزوں میں پائے جاتے ہیں اور حقیقی معنوں میں ''اسٹیبلشمنٹ کے اندر اسٹیبلشمنٹ''کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ عناصر سویلین سیاسی قیادت یا سیاسی جماعتوں اور حکومتی فیصلوں کی پروا نہیں کرتے، یہ اپنے ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف رہتے ہیں۔منتخب نمایندوں کے احکامات اور پالیسیوں کی راہ میں روڑے اٹکا کر ان کا رُخ تبدیل کر دینا، تاخیر اور ایسے کئی حربوں میں مہارت رکھنے والے یہ غیر منتخب سرکاری ملازمین سازشوں میں مصروف رہتے ہیں، لیکن ان کا طریقۂ واردات ایسا ہے کہ کسی کو خبر تک نہیں ہوتی۔
ایک برطانوی نیوز لیٹر اس صورتحال کی مزید وضاحت کرتا ہے ''حکومتوں کے اندر طاقت کا متوازن ڈھانچا پایا جاتا ہے، بہت کم ہی جمہوریتیں ان کے اثر سے آزادی کا دعویٰ کر سکتی ہیں''۔ یہ ''نادیدہ ریاست'' قائم کرنے والے بیوروکریسی کے دبیز پردوں کے پیچھے چھپے ہوتے ہیں لیکن تمام (انسانی ہوں یا معاشی) وسائل پر ان کا پورا کنٹرول ہوتا ہے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ ریاست میں آنے والی کوئی بھی سیاسی تبدیلی ان کے اختیارات پر اثر انداز نہیں ہوتی۔
1990ء کی دہائی میں، 'Derin Devlet' یا ''نادیدہ ریاست''کی اصطلاح ترکی کے روزمرہ سیاسی بحث و مباحثے کا لازمی جزو بن چکی تھی اور یہ خیال عام تھا کہ ہر انتخابی عمل کے پیچھے یہی ''نادیدہ ریاست'' ہوتی ہے۔ دسمبر 2012ء میں اپنے گھر میں نصب جاسوسی آلات کی برآمدگی پر تبصرہ کرتے ہوئے طیب اردوان نے کہا تھا ''ہر ریاست کے اندر ایک ''نادیدہ ریاست'' پائی جاتی ہے اور موزوں وقت پر یہ ظاہر ہوتی ہے۔ ایسی قوتوں کے ساتھ ہماری لڑائی جاری رہے گی۔ ہم اس کے مکمل خاتمے کو اپنا مقصد نہیں بنا سکتے کیونکہ بطور سیاستداں، میرا یہ خیال ہے کہ دنیا کی کوئی بھی ریاست ان نادیدہ قوتوں کا مکمل خاتمہ نہیں کر سکتی۔''
ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر مائیکل فلین اور امریکا میں روسی سفیر سرجی کسلیک کے مابین، انتخابات کے بعد، دسمبر 2016ء میں ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کی تفصیلات واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز سامنے لے کر آئے۔ اس کے بعد مختلف کئی کہانیاں منظر عام پر آنے لگیں، جو صاف طور پر سوچی سمجھی اور مربوط کوشش نظر آتی ہے۔ اس مہم کا ہدف فلین تھا ۔ فلین کی فوری برطرفی پر ، اس کے مسلم (اور پاکستان)مخالف عزائم کے سبب مسلم ممالک کے ناخوش ہونے کا کوئی جواز نہیں۔
''رشین کنیکشن'' پر کشمکش امریکا میں ایک جنگ کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے جس کا ایک فریق میڈیا اور انٹیلی جینس ادارے ہیں جب کہ دوسری جانب وہائٹ ہاؤس کے اسٹریٹجک ایڈوائیزر سٹیو بینن کی سربراہی میں ٹرمپ کے معاونین ہیں، جن میں ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر بھی شامل ہیں جو نہ صرف سینئر مشیر ہیں بلکہ انھیں ڈی فیکٹو صدر بھی تصور کیا جاتا ہے۔
''ٹیکس'' کا معاملہ اب سنگینی اختیار کرے گا۔ لاس اینجیلس ٹائمز میں ڈویل مک مینس کہتے ہیں کہ ٹرمپ کی اصل مشکل ''Deep State''کے بجائے"Broad State"ہے، جب کہ خفیہ معلومات وسیع پیمانے پر لیک کی جا رہی ہیں۔نیویارک ٹائمز میں مائیکل باربارو کہتے ہیں کہ ''نادیدہ ریاست'' کہلائے جانے والا منظم نیٹ ورک ٹرمپ کی صدارت کو کمزور کرنے کے لیے کوشاں ہے۔''
سیاسی و فوجی حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن نوکر شاہی ہر حکمران کی خدمت کے لیے تیار رہتی ہے، یہ دونوں جانب کھیلتی ہے۔ یہ دونوں فریقوں کے باہمی تنازعات کو ہوا دیتی ہے جس کے نتیجے میں ان کی ''بقا'' اور ''ناگزیریت'' کو تقویت ملتی ہے۔ اولاً یہ داخلی سطح پر ہونے والی ہر پیشرفت پر نظر رکھتی ہے چاہے وہ کتنی ہی غیر اہم ہو۔ ثانیاً قومی ایجنڈا سے متعلقہ مخصوص ایشوز کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے راہیں تراشتی ہے۔ سوشل میڈیا پر اپنے سچ کا وایلا کرنے کے لیے یہ میڈیا کو استعمال کرتی ہے۔ فوجی ادوار میں یہ قدرے محتاط ہوجاتے ہیں۔
اسی نادیدہ طاقت کا پاکستان میں بھی سوچا سمجھا ایجنڈا ہے' جو قابل مزمت ہونے کے ساتھ ساتھ تشویش ناک بھی ہے۔ جو عناصر بھی پاکستان میں مودی کا پراپیگنڈا پھیلانے کے ذمے دار ہیں انھیں عدالتوں کے سامنے جواب دہ بنانا چاہیے، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ غلط فہمیوں نے صورت حال کو گمبھیر بنادیا ہے۔
حالیہ کور کمانڈر کانفرنس کے بعد آئی ایس پی آر کے جاری کردہ بیان میں بین السطور پیغام پر بات ہو چکی۔
قمر جاوید باجوہ اپنے پیش رو سے مختلف انداز کے حامل ہیں۔ وہ خاموش طبع ہیں، یکسوئی اور عمل کا جذبہ ان میں زیادہ ہے، کہنے سے زیادہ کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ سپہ سالار مشورے سنتے ہیں لیکن کسی مشورے پر عمل درآمد کے لیے انھیں مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ 120دنوں سے بھی کم مدت میں جنرل قمر باجوہ نے واضح کردیا کہ وہ مصمم عزم اورمضبوط قوت فیصلہ رکھتے ہیں۔ افغان سفارت کاروں کو جی ایچ کیو بلا کر افغانستان کی کمیں گاہوں میں چھپے دہشت گردوں کی فہرست فراہم کرنا اہداف سے گہری وابستگی اور دوٹوک پیغام تھا، جو اسی زبان میں دیا گیا، جسے وہ سمجھتے ہیں۔
ادھر پاکستان کی سیاسی قیادت نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ یہ آج بھی اپنے شہروں کے احمقانہ مشوروں پر عمل کرتے ہیں، یہ مفاد پرست اہل اقتدار کی قربت برقرار رکھنے کے لیے غلط فہمیاں پھیلاتے ہیں۔
''نادیدہ قوت'' ان حالات میں پھولتی پھلتی ہے جب چاپلوس بندگان حکم کے ریوڑ کامیابی سے حکمرانوں کو گمراہ کررہے ہوں۔
یہ ''نادیدہ طاقت '' ہمارے مسائل میں تیزی سے کئی گنا اضافہ کررہی ہے۔ اس کے رسوخ کو محدود کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا نہ کیا گیا تو ریاست انتظامی ذمے داریوں کی ادائی، انصاف کی فراہمی اور قانون کا نفاذ کے قابل نہیں رہے گی اور اس کے نتیجے میں معاشی استحکام کا خواب تعبیر نہیں ہوسکے گا، جس کی آج ہمارے عوام کو سب سے زیادہ ضرورت ہے۔