انگریز اور ہندوستان
ہندو مسلم اختلافات کبھی ختم نہیں ہوں گے
ہمارے ہاں مسلمان حکومتوں میں اگر کوئی کارکن کام کے قابل نہ رہتا تھا یا وہ خود کسی وجہ سے ملازمت سے علیحدگی اختیار کرنا چاہتا تو وہ اپنے بڑے سے اجازت لے کر ملازمت چھوڑ دیتا لیکن اسے کوئی کسی معقول وجہ کے بغیر ملازمت سے الگ نہیں کر سکتا تھا۔ ایک تجربہ کار اور فرض شناس ملازم کو کسی ادارے کے لیے ناگزیر سمجھا جاتا تھا اور اسے بلاوجہ ملازمت سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کسی ملازم کی اہلیت اور اس کی فرض شناسی ہی اس کی ملازمت کی ضمانت ہوتی تھی۔
اگرچہ آج کی طرح پرانے زمانے میں ملازمت کے قواعد و ضوابط نہیں ہوتے تھے لیکن ایک سب سے اہم ملازم کی اہلیت ہوا کرتی تھی جب وہ صحت کے ساتھ اپنا کام کرتا رہتا تھا وہ ملازمت میں رہتا تھا۔ جب وہ ملازمت کی اہلیت ختم کر لیتا تھا تو وہ خودبخود ہی ریٹائر ہو جاتا تھا۔ کسی بھی وجہ سے ایک نااہل ملازم چلتی انتظامی مشینری میں رکاوٹ نہیں بن سکتا تھا۔ مثلاً امریکا میں کوئی ریٹائر نہیں ہوتا، اگر کوئی اپنے فرائض ادا نہیں کر سکتا تو وہ خودبخود ہی ریٹائر ہو جاتا ہے۔ اسے ریٹائر کرنے کی تکلیف نہیں کی جاتی مثلاً امریکا میں ملازمت اور کوئی سا ذریعۂ روزگار ہر شہری کا آئینی حق ہے۔ اسے اس سے محروم نہیں کیا جا سکتا لیکن ایک سرگرم کارکن یا انتظامیہ کا کوئی رکن اگر کام نہیں کرنا چاہتا تو اسے علیحدگی کا حق حاصل ہے۔ اسے کام پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح کسی ملازم کو کسی معقول وجہ کے بغیر ملازمت سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
ملازمت اور ذریعہ روزگار ایک شہری کا بنیادی حق ہے۔ تفصیلات کا تو مجھے علم نہیں لیکن امریکا میں ایسا ہی ہوتا ہے اور امریکی آئین ہر شہری کو روزگار کی سلامتی کی ضمانت دیتا ہے۔ ہمارے ہاں معاملہ بالکل الٹ ہے، یہاں نجی شعبہ میں ملازمت انعام کے طور پر دی جاتی ہے۔ ایک حق نہیں سمجھی جاتی۔ کوئی پاکستانی قانونی اور آئینی طور پر ملازمت حاصل نہیں کر سکتا اس کے قواعد ہیں جن کی پابندی کی جاتی ہے۔ یہ سطریں میں ایک ملازم کی اس شکایت پر لکھ رہا ہوں جس نے افسر کو اچانک سامنے پا کر اسے سیلوٹ نہیں کیا تھا اور ملازمت کھو بیٹھا تھا جو اس نے منت و سماجت کے ساتھ اور نقدی سے بھی حاصل کی تھی۔
ہمارے منتظمین کو یہ بخوبی علم ہے اور ان کا یہ تجربہ ہے کہ ایک خوش دل ملازم یا افسر بہتر کام کر سکتا ہے۔ اگر دفتر میں بد دلی کی کیفیت ہو اور ملازمین میں بے زاری پائی جاتی ہو تو پھر اس دفتر میں کام درست طور پر نہیں ہوتا۔ برسہا برس پہلے شیخ سعدی نے کہا تھا کہ ''مزدور خوشدل کند کار بیش'' یعنی ایک خوش دل مزدور زیادہ اور بہتر کام کرتا ہے۔ لندن میں ہمارے ایک دوست مرحوم رزاق نے گھر پر کسی کام کے لیے کچھ مزدور لگائے۔ میں نے از راہِ تجسس ان کی مزدوری معلوم کی لیکن جب رزاق نے ان کو مزدوری زیادہ دی تو میں نے تعجب کیا اور پوچھا تو معلوم ہوا کہ جب انگریز مزدور کو مزدوری مقررہ حد سے زیادہ دی جائے تو وہ بہت زیادہ خوش ہوتا ہے۔
ایک سابق حکمران انگریز کی خوشی دیکھ کر سابقہ محکوموں کو بہت خوشی ہوتی ہے اور فخر کا احساس بھی کہ ہم اپنے حکمرانوں کو مزدوری دے رہے ہیں اور ان کے ملک بلکہ دارالحکومت میں انگریزوں نے اپنی حکمت و دانش کی مدد سے ہم ہندوستانیوں پر کوئی ڈیڑھ سو برس تک حکومت کی اور ان کے ایک وزیراعظم ایٹلی نے ضد کر کے ان کو آزادی دے دی جب کہ ان کا ایک سابق وزیراعظم چرچل اصرار کرتا رہا کہ ہم ابھی پچاس برس تک مزید حکومت کر سکتے ہیں لیکن برطانیہ کے نئے وزیراعظم نے اپنے ڈیڑھ سو برس کے غلاموں کو آزاد کرنا مناسب سمجھا اور جان چھڑا لی کیونکہ دنیا کے حالات اب انگریزوں کی مزید حکمرانی کے لیے موزوں نہ تھے۔
ہندوستان میں آزادی کی تحریکیں چل نکلی تھیں جن کو روکنا مناسب نہیں تھا جب کہ سر ونسٹن چرچل ان کی آزادی میں پچاس برس کی تاخیر کے حق میں تھا۔ چرچل نے ایک فوجی کی حیثیت سے فوج مقیم ہندوستان میں نوکری بھی کی تھی اس خطے کو خوب جانتا تھا اور اس کی دانش ابھی مزید حکمرانی کی نشاندہی کرتی تھی جو برسوں زیادہ تھی لیکن برطانیہ کے نئے وزیراعظم سر ایٹلی نے ہندوستان سے رخصت ہونا ہی مناسب سمجھا اور شاید یہ درست تھا کہ آزادی کی تحریکیں چل نکلی تھیں اور ان کا مقابلہ بہت مشکل تھا۔
ایک غیرملکی حکمران کے لیے جس کی اپنی فوج نہ ہونے کے برابر تھی وہ اتنے بڑے ملک پر قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتی چنانچہ دانشمندی اسی میں تھی کہ برطانیہ اپنی سب سے بڑی غیرملکی مقبوضہ کو آزاد کر دے۔ برطانوی دانشوروں کی سوچ غالب آ گئی اور برطانیہ نے اس بہت بڑی مقبوضہ کو خالی کرنے کا اعلان کر دیا جس کا دنیا بھر میں خیرمقدم کیا گیا۔ خود ہندوستان کے اندر آزادی کے علمبردار بھی مطمئن ہو گئے اور ان کی آپس میں چپقلش شروع ہو گئی جو اب تک جاری ہے۔
ہندو مسلم اختلافات کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ دونوں قومیں جب تک زندہ ہیں تب تک ان کے درمیان اتحاد نہیں ہو سکتا۔ ان دونوں قوموں کا مسلسل اختلاف ہندوستان کی آزادی کا سب سے بڑا سبب تھا کیونکہ ہندوستان میں آباد یہ دونوں بڑی قومیں اتفاق سے نہیں رہ سکتی تھیں اور ان کے اتفاق کے بعد برطانیہ یہاں نہیں رہ سکتا تھا۔
اس صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان میں آباد ان دونوں قوموں کے باہمی اختلافات نے ہندوستان کی فضا بدل دی اور یہ ملک آزادی پر متفق ہو گیا چنانچہ انگریز جب یہاں سے رخصت ہوا تو ہندوستان میں آباد ہر قوم نے جشن منایا، آزادی کو ایک حقیقی نعمت تصور کیا۔ انگریزوں کی رخصتی نے پاکستان کی راہ ہموار کی اور برصغیر ایک نئی زندگی لے کر دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔ یہ اس خطے کا سب سے بڑا انقلاب تھا جس کے بعد یہ خطہ پاک و ہند کہلایا اور دنیا کے نقشے پر ایک نئی دنیا بن کر طلوع ہوا۔ اب تک یہ خطہ دنیا کا ایک نہایت ہی اہم خطہ ہے جس کے گرد دنیا کی سیاست گھومتی ہے۔
یہ محض چند پسماندہ ملکوں کی آزادی کا مسئلہ نہیں بلکہ اس خطے کے ایٹمی ملکوں کا مسئلہ بھی ہے اور کسی بھی وقت یہ مسئلہ کوئی خطرناک صورت حال اختیار کر سکتا ہے۔ بات دو چار گھروں کی نہیں بلکہ کئی انسانوں کی ہے جو کیبل پر انحصار کرتے ہیں اور اپنے دن رات کا پروگرام بناتے ہیں چنانچہ لازم ہے کہ اس بدیہہ اور مفید سہولت سے محروم نہ رکھا جائے، ذمے دار لوگوں کو اس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔