تحریک پاکستان میں ڈاکٹر امیر حسن صدیقی کا کردار
اس محفل میں صاحبان علم وادب تشریف فرما ہیں
پروفیسر شاہین حبیب درس وتدریس اوراپنی تخلیقی صلاحیتوں کے حوالے سے کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں، وہ سرسید کالج میں پڑھاتی رہی ہیں اور شعبہ کیمسٹری کی ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ اور ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدے پر فائز رہیں۔ عرصہ دراز سے وہ ایک جریدہ نظم کائنات کے عنوان سے شایع کررہی ہیں۔ وہ بے حد سادہ اور منسکرالمزاج ہیں، لکھنا پڑھنا ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔
حال ہی میں بحیثیت مصنفہ و مولفہ کی حیثیت سے ان کی کتاب بعنوان ''تحریک پاکستان میں ڈاکٹر امیر حسن صدیقی کا کردار'' منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئی ہے، کتاب تقریباً تین سو صفحات اور بارہ ابواب کا احاطہ کرتی ہے۔ کتاب کے ناشر ممتاز صحافی اور کئی تنظیموں کے بانی جناب جلیس سلاسل ہیں۔
قابل احترام اور قدآور شخصیت، قائد اعظم کے آنریری سیکریٹری جناب شریف الدین پیرزادہ ایڈووکیٹ نے پیش لفظ لکھا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ''ڈاکٹر امیر حسن صدیقی کی حیات و خدمات پر پروفیسر شاہین حبیب کی قابل قدر تصنیف، تحریک پاکستان سے سیاسی طور پر وابستہ رہنماؤں کی ایک کہکشاں ہماری تاریخ کے آسمان پر جگ مگ کر رہی ہے، اس کہکشاں میں چھوٹے، بڑے سیکڑوں ستارے روشن ہیں۔
انہی ستاروں میں سے ایک ستارہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سپوت، ماہر تعلیم ، اسلامی تاریخ کے اہم ترین اسکالر اور تعلیمی امور میں قائد اعظم محمد علی جناح کے معتمد ترین ساتھی ڈاکٹر امیر حسن صدیقی بھی ہیں، ڈاکٹر امیر حسن کے انتقال کو اب تقریباً35 برس ہوچکے ہیں ان کی خدمات کا دورانیہ طویل ہے اس دورانیے کو احاطہ تحریر میں لانے کے لیے مسلسل اور متواتر کام کرنے کی ضرورت تھی لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ یہ صورتحال افسوسناک ہے، قومی دھارے میں شامل بعض شخصیات اپنی اساسی خدمات کے حوالے سے عوامی سطح پر اپنے تعارف سے محروم رہتی ہیں، ایسی صورت میں ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ ان شخصیات کی حیات و خدمات کا بار بار تحریری طور پر اعادہ کیا جائے تاکہ وہ اپنی اساسی خدمات کے حوالے سے قومی تاریخ کا حصہ بن جائیں۔
بلاشبہ پروفیسر شاہین حبیب نے یہ اہم کام انجام دے دیا ہے انھوں نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ کتاب ترتیب دی، تمام یادداشتوں اور ان کے علمی و تحقیقی امور کوکتاب کی صورت میں یکجا کردیا ہے اور اپنی تصنیف کے ذریعے یہ بات ثابت کردی ہے کہ ڈاکٹر امیر حسن صدیقی کا قائد اعظم سے دلی تعلق تھا، وہ بہت سی کتابوں کے مصنف و محقق تھے بانی و پرنسپل سندھ مدرسۃ الاسلام کالج، بانی و پرنسپل اسلامیہ کالج، بانی چیئرمین شعبہ تاریخ اسلام جامعہ کراچی کی حیثیت سے انھوں نے خدمات انجام دیں۔
ڈاکٹر امیر حسین صدیقی کی جنم بھومی انڈیا بدایوں ہے بدایوں کو مدینۃ الاولیا کا درجہ بھی حاصل ہے،اس خطے میں صوفیوں، عالموں اوربزرگان دین کا جنم ہوا۔ ایسی ہی قدآور شخصیات میں ڈاکٹر امیرحسن صدیقی کا بھی شمارہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے علی گڑھ کالج سے بی اے اور ایل ایل بی امتیازی نمبروں سے پاس کیا، اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے یونیورسٹی آف لندن سے بی اے آنرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ بے شک شوق کا کوئی مول نہیں ہوتا اور علم تو ہے ہی سمندرکی مانند، جس کا کوئی کنارہ نہیں۔
ڈاکٹرامیر حسن صدیقی نے اپنی پوری عمر تحصیل علم اور ترویج علم میں بسر کی اور یہ علم و درویشی صوفیانہ صفات انھیں ورثے میں ملی تھی۔ ان کا خاندان روحانی طور پر بابا فرید الدین کے خاندان چشتیہ سے بیعت ہے۔ شاید بزرگان دین کی دعاؤں نے ہی ڈاکٹر امیر حسن صدیقی کو علم دین میں بلند مقام عطا فرمایا۔پروفیسر اظہار حیدری نے ڈاکٹر امیر حسن کے حالات زندگی پر ایک بہت وقیع مضمون قلم بند کیا ہے، جس میں بہت سی معلومات کے در وا ہوتے ہیں۔
اس محفل میں صاحبان علم وادب تشریف فرما ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ڈاکٹر امیر حسن صدیقی نے معلم ومتکلم کے طور پر وہ بڑے بڑے امور انجام دیے جن سے علم کے شائقین نے استفادہ کیا، یہ ڈاکٹر امیر حسن صدیقی ہی تھے کہ جن کی کوششوں سے علمی ادارہ جمعیت الفلاح پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور کراچی مسلم لیگ کے صدر جناب اے ایم قریشی نے ڈاکٹر امیر حسن صدیقی کی مشاورت سے اسکول و کالج قائم کیا اور لڑکیوں کے لیے ایک گرلز کالج کی بنیاد رکھی گئی۔
ایک موقعے پر سابق صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان نے کالج کا افتتاح کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ''اگر پاکستان میں ڈاکٹر امیر حسن صدیقی جیسے ماہر تعلیم اور ایم اے قریشی جیسے تعلیمی اداروں کے معمار پیدا ہوجائیں تو پاکستان سے جہالت مکمل طور پر دور ہوسکتی ہے۔ ''
حاضرین ذی وقار! جب بھی کوئی بڑی شخصیت عالم آب و گل کے منظر نامے پر اپنی علمیت، آگاہی و دانشوری کا سونا بکھیرتی ہے تو دیکھنے والوں کو اس بات کا اندازہ ضرور ہوجاتا ہے کہ ان شخصیات کی تعلیم و تربیت میں والدین اور خصوصاً والدہ کا نمایاں کردار رہا ہوگا۔ یقینا ماں کی ہستی بچے کا پہلا مدرسہ ہوتا ہے، ڈاکٹر امیرصدیقی کی اماں جان نے بھی اپنی اولاد کو گوہر نایاب بنانے میں جدو جہد جاری رکھی۔ انھوں نے بیوگی کا دکھ بھی سہا، لیکن اپنے فرائض سے ذرہ برابر کوتاہی نہ برتی، ان کی تعلیم وتربیت کا ہی نتیجہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ پر آسٹریلیا سے آنیوالے خاندان نے اسلام قبول کیا۔
اسلام سے محبت کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے دینی افکار اور اسلامی علوم پر دسترس کو مدنظر رکھتے ہوئے شعبہ تاریخ اسلام کے سربراہ اور استاد کی حیثیت سے ان کی تقرری عمل میں آئی۔ ان کی علمی کاوشوں کو مدنظر رکھتے ہوئے وزارت تعلیم نے آسٹریلیا کی جامعات شعبہ اسلامی تاریخ کو متعارف کرانے کے لیے انھیں روانہ کیا ڈاکٹر صاحب نے جو لیکچرز دیے وہ کتابی شکل میں شایع ہوئے۔
ڈاکٹر امیر صدیقی نے امریکا، فلپائن اور ہند و پاک کے دوسرے اہم مراکز پر اسلامی علوم پر روشنی ڈالی اور اپنی علمیت کا لوہا منوالیا۔ آج ان کے قائم کیے ہوئے کتب خانے اور ان کی بہت سی اہم کتابیں جن میں مشاہیر اسلام حصہ اول، دویم اور سوم بھی شامل ہیں ان کو حیات ابدی عطا کرنے میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔
شاید علامہ نے ایسی ہی نابغہ روزگار ہستیوں کے بارے میں فرمایا تھا :
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
(تقریب پذیرائی کے موقعے پر پڑھا گیا مضمون)