ڈھونڈو گے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا

جواں سا ل طالب علم جوادکی الم ناک موت جیسے واقعات کب ختم ہوں گے؟


Naveed Jaan January 12, 2013
جواں سا ل طالب علم جوادکی الم ناک موت جیسے واقعات کب ختم ہوں گے؟ فوٹو: فائل

مشتاق کے موبائل کی گھنٹی بجی اس نے جیب سے موبائل نکالا سکرین پر اپنے بیٹے جواد کا نام دیکھتے ہی اوکے کا بٹن دبایا۔

سلام کے فوراً بعد پوچھا ! بیٹا انٹرویو کیسارہا؟ جواد کو اپنے ابو کا یہ طرزِ تخاطب شاید پسند نہیں آیا تھا، اس نے اپنے والد سے فاتحانہ اندازمیں شکوہ کرتے ہوئے کہا ''خدا کے لیے ابو۔ اب تو مجھے جواد نہ کہو انجینئر جواد کہو''۔ مشتاق خود انجینئرنگ یونی ورسٹی پشاور میں کمپیوٹرآپریٹر ہے۔ اس کی دلی خواہش تھی کہ اس کے تینوں بیٹے بھی انجینئر بنیں لیکن خدا کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا، بڑا بیٹا اشفاق پانچویں جماعت میں بیمار ہوا اور اس کا ایک گردہ نکالنا پڑا۔

مرض کی وجہ سے وہ ذہنی کم زوری کا شکار ہوا اور اس وجہ سے وہ بارہویں جماعت سے آگے نہ پڑھ سکا ، اسے انجینئرنگ یونی ورسٹی میں ہی ملازمت مل گئی، اب مشتاق کی نظر اپنے دوسرے بیٹے اشتیاق پر تھی لیکن گزشتہ برس ایف۔ ایس۔ سی کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ اس کا رجحان اپنے والد کاخواب پورا کرنے کی طرف ہرگز نہیں ، مشتاق نے بھی ایک وسیع النظروالد کی طرح اپنے بیٹے پر انجینئرنگ ٹھونسنے کی کوشش نہ کی۔ اب مشتاق کا تیسرابیٹا جوا د ہی اس کی توجہ کا مرکز تھا، باپ کو یقین تھا کہ وہ اس کی آرزو پوری کرے گا، بیٹے کو بھی والد کی آرزو کا پوری طرح احساس تھا۔ جب اس نے ایف ۔ ایس ۔سی کا امتحان پاس کیا تو مشتاق کو لگا تھا کہ اس کے خوابوں کی تعبیر کا وقت آپہنچا ہے۔

اس نے اپنے بیٹے کے لیے ایک کوچنگ اکیڈمی میں ٹیوشن کا بندوبست کیا۔ جواد ڈی آئی خان میں ایمپلائیز کوٹے پر منتخب ہوا، اور اپنی منزلِ مقصود کی جانب روانہ ہو گیا۔ گھر سے نکلنے کے تقریبا ایک گھنٹے بعدجواد نے ابو کو ایس۔ ایم۔ ایس کے ذریعے بتایا کہ گاڑی منزل کی جانب رواں ہے لیکن وائے نصیب کہ جوں ہی یہ بدقسمت گاڑی سکیم چوک کے قریب پہنچی تو سڑک کنارے بارود سے بھری ایک آلٹو گاڑی دھماکے سے پھٹ گئی اور جواد کی کوسٹر بھی اس کی زد پر آگئی، جاں بحق اور زخمی ہونے والوںکوفوری طورپر سٹی اسپتال منتقل کردیا گیا۔

سہ پہرتین بج کر پچپن منٹ پر مشتاق کو اپنے بیٹے جواد کے نمبر سے کال آئی، کسی نے اسے بری خبر دیتے ہوئے کہا کہ اس کا بیٹا جس گاڑی میں سفر کررہا تھا ا سے حادثہ پیش آ گیا ہے اوروہ فوری طور پرسٹی اسپتال پہنچے وہ اسپتال پہنچا اور اپنے بیٹے کی تلاش شروع کردی اتنے میں جواد نے باپ کو دیکھ لیا اور زور سے آواز دی اور اسے اپنی بانہوں میں لے لیا،جواد نے اپنے والد سے گلہ کیا ''ابو میں نے آپ سے کہا تھا کہ میں نہیں جانا چاہتا''۔

مشتاق نے درد بھرے لہجے میں کہا ''بیٹا اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں تمہیں کیوں بھیجتا'' جواد کی دو انگلیاں کٹ چکی تھیں گردن بھی ٹوٹ چکی تھی بیٹا باپ سے پھر گویا ہوا کہ '' ابو میرا دوسرا موبائل کسی نے چرالیا ہے معلوم نہیں اس شکایت کا جواب مشتاق نے کیا دیا ہوگا، جس دوران جواد اپنے والدکو یہ سب کچھ بتا رہا تھا اس کا والد غور سے اس کے جسم کو ٹٹولنے لگا کہ کہیں اسے کوئی بڑی چوٹ تو نہیں لگی؟ اچانک مشتاق نے دیکھا کہ اس کی کنپٹی کے اوپر والے حصے سے خون بہہ رہا ہے وہ یہ سوچ کر قدرے مطمئن ہوا کہ شاید کانچ کے ٹکڑے سے معمولی زخم آیا ہے۔

مشتاق نے اندازہ لگایا کہ اسپتال میں ڈاکٹر کم اور زخمی زیادہ ہیں اس نے اسپتال والوں سے اجازت لے کر بیٹے کو ایل آر ایچ منتقل کرنے کے لیے ایمبولینس منگوائی تو اسی دوران بیٹے نے اپنی ماں کو بلانے کی فرمائش کر دی اور اسی دوران اس کے ناک، منہ اور کان سے خون بہنے لگا، یہ کیفیت دیکھ کر وہ بیٹے کو لے کر لیڈی ریڈنگ اسپتال پہنچا، وہاں اسے سی ٹی سکین کے فوراً بعد آپریشن تھیئٹر منتقل کردیا گیا سرجری تو ہو گئی لیکن جواد جاں بر نہ ہو سکا اور ۱۲ستمبر کی رات تین بجے کے قریب خالقِ حقیقی سے جامل۔ شاہ راہوں پر خون کی ہولی کھیلنے والے خدا جانے کیوں بھول جاتے ہیں کہ بوڑھے باپ کی کمر میں جوان بیٹے کی لاش کو کاندھا دینے کا دم نہیں ہوتا۔ آج مشتاق کی طرح بہت سارے والدین چیخ چیخ کر ظا لموں سے پوچھ رہے ہیں کہ

مرے شہر میں مری نسل لوٹنے والو

پتا ہے کس طرح بیٹا جوان ہوتا ہے؟

مشتاق نے اپنے جواں سال بیٹے کا سانحہ سناتے ہوئے کہا کہ مجھے اپنے شہید بیٹے پر ناز ہے، میری دعا ہے کہ میرا وطن امن کا گہوارہ بنے اور آئند ہ کسی جواد کا خواب ادھورا نہ رہے۔۔۔۔

دیکھوگے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں

ڈھونڈوگے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں