آزادانہ احتساب درکار ہے
ہمارے ملک میں کب وہ وقت آئے گا جب ہمارے عوام زندہ اور باشعور قوموں کی طرح از خود کرپشن کے خلاف سڑکوں پر آئیں گے
www.facebook.com/shah Naqvi
ISLAMABAD:
کرپشن کے ایک اسکینڈل میں جنوبی کوریا کی خاتون صدر اور ان کی قریبی دوست کے ملوث ہونے کی بنا پر پارلیمنٹ نے ان کا مواخذہ کیا تھا۔ ملک کے سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے آٹھ ججوں نے صدر پارک کو برطرف کرنے سے قبل پارلیمنٹ کی جانب سے ان کے مواخذے کے عمل پر تفصیل سے سماعت کی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ صدر پارک نے خفیہ سرکاری معلومات کو راز رکھنے کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کئی اہم دستاویزات کو لیک کیا اور اپنی دوست کو حکومتی معاملات میں مداخلت کی اجازت دے کر قانون کی خلاف ورزی کی۔ جنوبی کوریا کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ان کے فعل نے جمہوریت کی روح اور قانون کی حکمرانی کو سنگین چوٹ پہنچائی ہے۔ اس لیے صدر پارک کو برطرف کیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ صدر کی قریبی دوست دھوکا دہی اور اقتدار کے ناجائز استعمال کے الزامات میں زیر حراست ہے۔ ان پر جنوبی کوریا کی کمپنیوں سے بھی بھاری رقم بٹورنے کے الزامات ہیں۔ اس فیصلے سے کوریا کی خاتون صدر اس استثنیٰ سے بھی محروم ہو چکی ہیں جو بطور صدر ان کو حاصل تھا۔ اب ان پر بدعنوانی کے الزام میں مقدمہ بھی چلایا جا سکتا ہے۔
یاد رہے صدر پارک جنوبی کوریا کی پہلی خاتون صدر تھیں جب کہ شمالی کوریا کے صدارتی ترجمان نے ان کی معزولی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر پارک کا مواخذہ سپریم کورٹ اپوزیشن یا کسی اور نے نہیں بلکہ ان کے اپنے عوام نے کیا ہے۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ معزول صدر کی کرپشن کے خلاف اگر عوام لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نہ آتے، اور وہ بھی سخت سرد موسم میں اور ساری رات دھرنا نہ دیتے جب کہ برف باری ہو رہی تھی تو جنوبی کوریا کی اعلیٰ عدالت کا یہ فیصلہ آنا ممکن نہ ہوتا۔ یہ عوام کی طاقت ہی ہوتی ہے جو اداروں کو مضبوط بناتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کب وہ وقت آئے گا جب ہمارے عوام زندہ اور باشعور قوموں کی طرح از خود کرپشن کے خلاف سڑکوں پر آئیں گے۔ جب ہمارے ہاں کرپشن ہوتی ہے تو عوام کی بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ یہ لوٹ مار سرکاری خزانے کی ہوئی ہے۔ اس میں ہمارا کیا نقصان۔ حالانکہ سرکاری خزانے کا مطلب عوام کا خزانہ ہوتا ہے جس کے عوام مالک ہوتے جس میں عوام کے خون پسینے کی کمائی ٹیکسوں کی شکل میں جمع ہوتی ہے۔ جن ملکوں میں کرپشن بڑھتی جاتی ہے وہاں عوام کی زندگی بڑھتی ہوئی مہنگائی کی شکل میں اجیرن ہوتی چلی جاتی ہے۔
کرپشن کی وجہ سے سرکاری خزانہ خالی ہوتا چلا جاتا ہے۔ چنانچہ نظام حکومت چلانے کے لیے حکومت بھاری ٹیکس لگاتی ہے، خاص طور پر روز مرہ اشیا پر جن میں پٹرول گیس بجلی آٹا چاول چینی چائے صابن وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ حکومت چلانے کے لیے ان بھاری بھر کم ٹیکسوں سے وسائل پھر بھی پورے نہیں ہوتے تو عالمی مالیاتی اداروں اور مالدار ملکوں سے بھاری شرح سود پر قرضے لیے جاتے ہیں۔
ان قرضوں کا سود بھی عوام کو اداکرنا پڑتا ہے۔ یعنی عوام کی جان مہنگائی کے دو پاٹوں میں بری طرح پستی ہے۔ جبھی تو یہ نوبت آئی ہے کہ آج پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ ہوا ہے کہ پاکستان کی نصف آبادی یعنی دس کروڑ عوام کو بہ مشکل کھانے کے لیے ایک وقت کی روٹی میسر ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اور سرمایہ داروں کی حکومت ہوتی ہے تو حکمران طبقہ جو خود سرمایہ دار ہوتا ہے اپنے طبقے پر ٹیکس نہیں لگاتا اس طرح غریب عوام زندہ رہتے ہوئے بھی بن موت مر جاتے ہیں۔ یہ نہیں کہ ہمارا ملک کنگال ہے۔
ہر سال ہزاروں ارب روپے کی آمدنی ہوتی ہے لیکن یہ کرپٹ حکمران طبقے' بیوروکریسی کی نذر ہو کر بیرون ملک بینکوں میں جمع ہوتی چلی جاتی ہے۔ پہلے انگریز آقا براہ راست لوٹ مار کرتا تھا تو بدنام بھی ہوتا تھا۔ اب یہی لوٹ مار تیسری دنیا کے ہمارے جیسے ملکوں کے حکمران کرتے ہیں تو سیکڑوں ارب ڈالر ہمارے ملکوں سے فلٹر ہو کر سامراجی ملکوں کے بینکوں میں جمع ہوتے چلے جاتے ہیں۔ حقیقت میں اس لوٹی ہوئی دولت کے اصل مالک امریکا اور یورپ ہی ہوتے ہیں۔ جب یہ کرپٹ حکمران استعمال ہو جاتے ہیں تو ان کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک کر ان کی لوٹی ہوئی دولت کو ضبط کر لیا جاتا ہے۔
شاہ ایران، مارکوس، حسنی مبارک وغیرہ اس کی زندہ مثال ہیں۔سوال یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں کرپشن کے خلاف زندہ باشعور اور باضمیر قوموں کی طرح ''زیرو ٹالرنس'' کب پیدا ہو گی۔ اسرائیلی وزیراعظم سے پولیس چار مرتبہ پوچھ گچھ کر چکی ہے صرف اس لیے ان کے ایک دوست نے دو لاکھ روپے کا تحفہ دیا تو وہاں یہ سوال پیدا ہوا کہ وزیراعظم اس تحفے کے زیر اثر آ کر ملکی مفادات کو نقصان نہ پہنچا دیں۔ جب انھوں نے کہا یہ تحفہ مجھے ذاتی حیثیت میں دیا گیا تو ان سے پوچھا گیا کہ آپ اگر وزیراعظم نہ ہوتے تو تب بھی آپ کو یہ تحفہ ملتا۔
اسرائیلی وزیراعظم نے پولیس تفتیشی پارٹی کو جب یہ کہا کہ فوری طور پر میرے پاس وقت نہیں اہم میٹنگ کی وجہ سے تو انھیں جواب ملا کہ آپ سب اہم کاموں کو بھول جائیں اہم ترجیح ہمارے سوال ہیں جن کا آپ کو جواب دینا پڑے گا۔ وہاں پولیس ڈپارٹمنٹ ہی اتنا طاقتور ہے کہ وہ اسرائیلی وزیراعظم سے براہ راست تفتیش کر سکتا ہے۔ اور پی ایم کی جرات نہیں کہ وہ انکار کر سکے۔ کیا ہمارے ہاں بھی ایسا ہو سکتا ہے؟
کینیڈا کے وزیراعظم سے بھی تفتیش جاری ہے کہ وہ اپنے خاندانی دوست کے جزیرے پر چھٹیاں گزارنے کیوں گئے۔ اب پتہ نہیں ان کی قسمت کا کیا فیصلہ ہوتا ہے۔ انھیں سزا ملتی ہے یا بری ہوتے ہیں۔ اسی طرح اسپین کی شہزادی کو ٹیکس چوری کے الزام پر سخت ترین تفتیش سے گزرنا پڑا۔ جو قومیں دیانتدار ہوتی ہیں وہاں ایسے ہی سخت معیارات ہوتے ہیں۔ کیا ہم بھی کبھی دیانتدار قوم بنیں گے۔
یہاں تو حال یہ ہے کہ معمولی درجے کے سرکاری اہلکاروں نے اربوں روپے کے اثاثے بنا لیے ہیں۔ بلوچستان اور سندھ میں اربوں کی کرپشن سامنے آ چکی ہے۔ اگر پنجاب میں کرپٹ لوگوں کے خلاف کارروائی ہو تو پتہ نہیں کیا کیا کچھ سامنے آئے۔ ابھی تو کرپشن کے آئس برگ کا صرف اوپری سرا ہی سامنے آیا ہے۔
کیا وہ وقت ہمارے ملک بھی کبھی آئے گا جب تمام مقدس گائیوں کا احتساب کیا جائے گا' چاہے وہ سیاستدان ہوں یا جرنیل یا جج یا صحافی۔
پانامہ کیس کا فیصلہ مارچ کے آخر اور اپریل کے آغاز میں آنے کا امکان ہے۔جس کا آغاز 27مارچ سے ہو جائے گا۔
سیل فون:۔0346-4527997