بلی دودھ کی رکھوالی

دولت کے لیے ہم ترک وطن توکرلیتے ہیں مگر دولت کے حصول کے لیے ترک وطن کے بعد نئے وطن کے نظریات میں زندہ رہنا ہوتا ہے



واجدہ تبسم اردوکی ایک معروف ناول نگار ہیں اورایک خصوصی مضمون اور موضوع پر ان کے ناول شہکارکی حیثیت رکھتے ہیں۔ بہت تعجب مجھے ہوا تھا جب میں نے شروع میں ان کا ناول پڑھا کیونکہ میں ان سے اس طرح واقف نہیں تھا جس طرح بعد میں ایک قاری کے طور پر واقف ہوا۔

حیرت مجھے یہ تھی کہ بالا خانوں اور زیرنشین دوچھتوں اور ایک ایک کمرے کے مکانوں میں مقیم اس علاقے یا اس بازارکی خواتین تک اس مہذب پڑھی لکھی خاندانی خاتون یا مصنفہ کی رسائی کیسے ہوسکی ہوگی اور پھر جس قدر ہم سندھی میں خاص طور پر استعمال کرتے ہیں ''قرب'' کے ساتھ انھوں نے یہ سب کچھ لکھا یہ ایک دن کی تو بات ہے نہیں اور اس کے لیے تو مسلسل یوں لگا جیسے کہ وہاں رہنے بسنے کا سا تجربہ چاہیے۔

کچھ عرصے بعد کوئی بھارت گیا تو میں نے واحد فرمائش کی کہ مجھے واجدہ تبسم کے ناولوں کا پورا سیٹ لاکر دیجیے گا جو اس مہربان نے پوری کردی۔ یوں میں اس بات سے واقف ہوا کہ ان کے شوہر نے ، اس شعبے کے بارے میں شوق کو دیکھتے ہوئے ان کا پورا ساتھ دیا اور وہ ان بدنام ترین اور خطرناک ترین مقامات پر ان کو لے کرگئے اور وہاں یہ دل دوز داستانیں، گھنٹوں واجدہ نے ان کے کرداروں سے سنیں، نوٹ کیں اور بعد ازاں انھیں ناولوں کا روپ دیا جو معرکۃ الآرا کتابیں ہیں۔ ان کو کتابوں کے طور پر پڑھا جائے اور معاشرے کے ظالمانہ سسٹم کو جاننا ہو۔

اب شاید وہ زمانہ نہیں کیونکہ جب سے مغرب میں سیکس ورکر(Sex Worker) کا تصور عام ہوا ہے کیونکہ انھوں نے نہ اسے کبھی برا سمجھا وہ گرل فرینڈ، بوائے فرینڈکے طریقہ کارکے عادی تھے بس اس کو قانونی شکل دے دی کیونکہ وہ طریقہ کار آخرکار بہت بڑی تعداد میں اس پر ہی ختم ہوتے تھے۔

وہ ایک برا معاشرہ ہماری نظر میں تھا اور شاید ہے، دولت کے لیے ہم ترک وطن توکرلیتے ہیں مگر دولت کے حصول کے لیے ترک وطن کے بعد نئے وطن کے نظریات میں زندہ رہنا ہوتا ہے جیسے کہ براہمداغ بگٹی اورمہران مری کو رہنا پڑے گا،گاندھی کی سمادی پر پھول بھی چڑھانے پڑیںگے کچھ دن بعد ہاتھ جوڑکر پراتھنا بھی کرنی ہوگی، یہ ہم کدھر نکل گئے اپنے مضمون کی طرف واپس آتے ہیں تو مغرب نے قاعدے قانون کو ہمیشہ اہمیت دی اور فرد کے فعل کو بھی قانونی بنادیا۔ان کا آج بھی رواج ہے توانھوں نے سیکس ورکرکا باقاعدہ قانون بناکر اپنے بھٹکے ہوؤں کو مسلسل بھٹکنے کا راستہ فراہم کردیا۔ ایک مسلمان ملک میں رہتا ہوں، مسلمان ہوں لہٰذا اسے درست راستہ قرار نہیں دے سکتا ہوں، ہے بھی نہیں۔

پھر ہندوستان نے اور ہم نے بھی اسے لائسنس یافتہ کردیا، یعنی حسن کو اگرآپ حسن کہنا چاہتے ہیں، اسلحہ قرار دے کر اس کے لائسنس کا قانون بنایا اور پھر جس طرح اسلحے کے بازار ہوتے ہیں تو حسن کا بھی بازار برصغیر میں قائم ہوگیا بلکہ ہوگئے اوربرصغیر کو بھی درست کرلیتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان بڑی آرزو ہے کہ بھارت پاکستان بن جائے تو کہیں نہ کہیں تو ایسا ہوا نہ، بھارت والے اس کے برعکس کہیں گے، کہتے وہ بھی ٹھیک ہیں آرزو سب کرسکتے ہیں۔

تو یہ ایک کاروبار یعنی انڈسٹری بن گیا ، بنا ہوا ہے، شاید بھارت میں۔ یہاں اس کی نمود ونمائش پر ضیا الحق نے پابندی لگادی، حالانکہ یحییٰ خان کیا کچھ کرچکے تھے، پابندی لگی توکاروبار والوںکو فکر ہوگئی انڈسٹری خطرے میں پڑگئی یہاں سرکاری تماشبین جو ان انڈسٹری والوں کا سرمایہ واندوختہ تھے میں وہ کام آئے اوریہ انڈسٹری ہوم انڈسٹری بن گئی۔ محلوں میں گھرکرائے پر لے کر یہ اداکار، صداکار وہاں باعزت طریقے سے ٹھور ٹھکانے کے ساتھ کاروبارکرنے لگے اورکررہے ہیں۔ اس پر اعتراض کرنا بے کار ہے۔ آپ اور ہم سب جانتے ہیں کہ اب یہ کاروبارکس نمونے سے چل رہا ہے۔ مفتی عبدالقوی نے تو عنایت کی کہ حق پرستانہ جدوجہد کی اور حقیقت کو طشت از بام کیا یہ ان کا ہی کمال ہے کوئی کرکے دکھائے۔

اس کاروبار میں مختلف لڑکے لگائے جاتے ہیں، ہمارے پڑھنے والے بہت باشعور ہیں لہٰذا تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے تو یوں جب یہ وبا ضیا الحق کی عنایت سے کہ صدر پاکستان تھے جو چاہے کرتے اورکیا اورآج تک ہم افغانستان کو بھگت رہے ہیں۔ گھر، گھر یہ بیماری پہنچانے پر باز پرس تو ان سے ضرور ہوگی۔ چائنا کی طرح اسے ختم کیوں نہیں کیا،کرنا تھا تو معلوم کرتے اور پھر کرتے، مگر جو ہوا سو ہوا معصوم بچیاں پاس پڑوس سے متاثر ہوئیں اوراس کاروبارکے کارندوں کو شکار گھر بیٹھے مل گئے بات سمجھنے کے لیے امراؤجان پڑھیے یا دیکھیے۔

ملک بھر میں خصوصاً آج بھی جرائم کا گراف اونچا ہے ( بعض جرائم سرفہرست ہیں یہ وہ تحفہ ہے جو افغان وارکے علاوہ ضیا الحق نے قوم کودیا تھا ) اس کاروبار میں سہولت کاراورخریدار تمام صوبوں میں کثیرتعداد میں تھے اور ہیں۔

حکومت کا انداز بھی وہی ہے شاہانہ، یہ ہم دشمنی میں نہیں حقیقت میں تعریف کرتے ہوئے لکھ رہے ہیں۔ اگر واقعی لکھنا چاہیں واجدہ تبسم کی طرح تو بہت مشکل ہے ہمارے پاس اتنا طاقت ور کوئی دنیاوی آسرا نہیں ہے اور پروردگارکو ہم اس معاملے میں زحمت نہیں دینا چاہتے۔

اب آپ دیکھ لیں ہم نے واجدہ تبسم کے ناولوں سے بات کی اور یہ عرض کیا کہ کم ازکم اس ماحول میں بیٹھ کر انھوں نے تجربہ کیا کہ کیا کچھ رہا ہوگا، ہوا ہوگا کے ضمن میں اور پھر داستان گو بھی موجود تھے، پہلے تو چند لوگوں کو میڈیا پریکٹس پر لگایا اور وہ اس قدر ایکسپرٹ ہوگئے، تردید اورانکارکا کورس کرتے کرتے نیند میں بھی سوالوں کے جواب دے دیا کرتے تھے۔ اب نیند کی قسموں پر ہم بات کرینگے تو اقتدار اور اختلاف دونوں برابر ہوجائیںگے لہٰذا چھوڑدیتے ہیں۔

راوی نے کوشش کی ہے کہ اب اس سلسلے میں چین یا چین لکھ دے ایک کمال کہ وائرل ویڈیو ہم نے نہ دیکھی، ویڈیو ہم نہ دیکھ سکے، اسٹل فوٹوگراف دیکھے ایک میڈیا پریکٹشنر کے ، اس وقت جناب کورس کررہے تھے برائیوں سے اجتناب اور اسی انداز میں کررہے تھے ، اور ان کی ذہنی ترقی، پبلک کو الو بنانے کی صلاحیت جھوٹ کو سچ کی طرح بیان کرنے کے اعتراف میں حکومت نے ایک فیصلہ کیا۔اب وہ اقبال کے شہباز تو ہیں نہیں۔ انھوں نے ایک صاحب کے سپرد اوقاف اور مذہبی امورکردیے ہیں کسی عالم مولانا نے چوں بھی نہیں کی ہے نہ کریںگے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں