صداقت کا روشن چراغ امیرالمومنین سیدنا ابُوبکر صدیقؓ

آپؓ نے اپنا سب کچھ اللہ اور ا س رسولﷺ کے لیے وقف کردیا تھا۔


صدیق اکبرؓ کا بہت بڑا اعزاز یہ ہے کہ آپؓ رسول اللہ ﷺ کے سفر ہجرت میں رفیق تھے۔ فوٹو : فائل

NAUDERO: سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں: ایک چاندنی رات میں جب کہ رسول ﷺ کا سر مبارک میری گود میں تھا، میں نے آسمان ِدنیا پر لاکھوں ستاروں کی طرف دیکھتے ہوئے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ﷺ کیا کسی شخص کی نیکیاں اتنی بھی ہیں، جتنے آسمان پر ستارے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا : ہاں! عمر کی نیکیاں اتنی ہی ہیں۔ سیدہ عائشہ ؓفرماتی ہیں کہ پھر میں نے حیرت سے کہا: آقا ﷺ ! میرے بابا کی نیکیوں کا کیا حال ہے ؟ حضور اکرمؐ نے فرمایا : حمیرا ! عمر کی ساری زندگی کی نیکیاں ابُوبکر کی ایک نیکی کے برابر ہیں۔،،

عثمان ابوقحافہ بن عامر کا تعلق قریش کی معزز شاخ بنی تمیم سے تھا۔ عام الفیل کے تین سال بعد ابوقحافہ کے ہاں ان کی بیوی سلمی بنت صخرٰی ام الخیر کے بطن سے ایک بیٹا پیدا ہوا۔ انہوں نے اپنے بیٹے کا نام عبداللہ رکھا۔ آپؓ کا نام عبداللہ اور لقب صدیق و عتیق اور کنیت ابوبکر ہے۔ آپ ؓ کا سلسلہ نسب چھٹی پشت پر جاکر رسول کریمؐ سے مل جاتا ہے۔ آپ ؓ کا ایک عظیم اعزاز یہ بھی ہے کہ آپؓ کے والد اور والدہ دونوں رسول اکرمؐ کے صحابہ ؓ میں شامل ہیں۔ آپؓ کا نمایاں اعزاز یہ بھی ہے کی آپؓ کی چار پشتوں کو صحابیت کا شرف حاصل ہے۔

اللہ کے رسولؐ سے ان کا دوستانہ تعلق اعلانِ نبوت سے قبل ہی سے تھا۔ عادات و اطوار کی مماثلت نے باہمی تعلقات اس قدر بڑھا دیے تھے کہ آپؐ ہفتے بھر میں کئی مرتبہ ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے۔ قریش کے لوگوں کی طرح سیدنا ابوبکر ؓ بھی تجارت کرتے تھے۔ اللہ تعالٰی نے اس میں برکت دے رکھی تھی۔ آپؓ مکہ کے بااثر تاجروں میں سے ایک تھے۔ آپؓ کی امانت و دیانت اور حسن معاملہ کی دور دور تک شہرت تھی۔ جب ان کو اللہ کے رسولؐ نے اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے بلاحیل و حجت اسلام قبول کرلیا۔ چوں کہ صدیق اکبر ؓ مکہ کی بااثر اور ممتاز شخصیت تھے۔ اس لیے اسلام کو ان کی ذات سے اخلاقی اور مادی دونوں اعتبار سے مدد ملی۔ ان کی تبلیغ کے نتیجے میں حضرت عثمان بن عفان، زبیر بن عوام، طلحہ بن عبیداﷲ، عبدالرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص، ابوعبیدہ بن جراح، عثمان بن مظعون، ابوسلمہ بن عبدالاسد اور خالد بن سعید بن عاص رضی اللہ عنہم جیسی بلند پایہ شخصیات نے اسلام قبول کیا۔

جامع الترمذی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

''میں نے ہر ایک کا احسان اتار دیا سوائے ابوبکر کے احسان کے۔ ان کا احسان اتنا عظیم ہے کہ اس کا عوض قیامت کے دن اللہ ہی ان کو عطا فرمائے گا۔ مجھے کسی کے مال سے اتنا نفع نہیں پہنچا جتنا ابوبکر کے مال سے پہنچا۔''

آپ ؓ سفر و حضر میں رسول کریمؐ کے ساتھ رہتے تھے۔ رسول اکرمؐ سے آپؓ کو والہانہ عشق و محبت تھی۔ آپؓ نے اپنا سب کچھ اللہ اور ا س رسولؐ کے لیے وقف کردیا تھا۔

آپؓ نے اپنی بیٹی عائشہؓ کا عقد رسول اکرمؐ سے کردیا تو اس طرح حضرت ابوبکر صدیقؓ کا رسول کریمؐ کے ساتھ رشتہ اور بھی گہرا اور مضبوط ہوگیا۔

صدیق اکبرؓ کا بہت بڑا اعزاز یہ ہے کہ آپؓ رسول اللہ ﷺ کے سفر ہجرت میں رفیق تھے۔ یہ سفر بے حد پرخطر اور دشوار تھا۔ اسی سفر سے صدیق اکبرؓ کے فضائل و مناقب کا سب سے زیادہ درخشاں باب شروع ہوتا ہے۔ آپؓ نے غار کو صاف کیا اور آپؐ اندر تشریف لے گئے اور آپؓ کی آغوش میں سر رکھ کر سوگئے۔ ادھر ابوبکرؓ کے پاؤں پر کسی جانور نے ڈس لیا مگر وہ اس احتیاط کی وجہ سے نہ ہلے کہ اللہ کے رسولؐ کی نیند میں خلل نہ پڑجائے۔ لیکن جب شدت تکلیف سے آنسو نکل کر رسول کریمؐ کے چہرے پر گرے تو آپؐ کی آنکھ کھل گئی۔ دریافت فرمایا: ابوبکر! تمہیں کیا ہوا ؟ آپؓ نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپؐ پر قربان، مجھے کسی موذی جانور نے ڈس لیا ہے۔ آپؐ نے صدیق اکبرؓ کی ایڑی پر اپنا لعاب دہن لگایا تو ان کی تکلیف جاتی رہی۔

آپ ؓ نے رسول کریمؐ کے ساتھ تین دن غار ثور میں قیام فرمایا اور پھر مدینہ منورہ روانہ ہوئے۔ اسی سفر میں اللہ تعالٰی کی طرف آپؓ کو بہ ذریعہ قرآن '' ثانی الثنین'' کا خطاب عطا ہوا۔ مدینہ منورہ میں آپؓ کا رشتہ مواخات حضرت عمرؓ سے کردیا گیا اور جب آنحضرتؐ نے مکانات کے لیے لوگوں کو زمین عطا فرمائی تو حضرت ابوبکرؓ کے لیے مکان کی جگہ مسجد نبوی کے پاس رکھی۔ ایک اور موقع پر آپؐ نے فرمایا : مسجد نبوی میں کھلنے والے سب دروازے بند کردیے جائیں، سوائے صدیق اکبرؓ کے دروازے کے۔''

آپؓ نے تمام غزوات میں شرکت کی۔ غزوہ بدر میں اپنے محبوبؐ کی حفاظت کے فرائض انجام دیے اور اسی سال میں آپ ؓ کو پہلا امیر حج مقرر کیا گیا۔ تمام فضیلتوں کی بنیاد علم پر ہے اور اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ پوری امت میں سب سے زیادہ شرعی مسائل کو جاننے والے اور تمام صحابہ ؓ میں سب سے بڑھ کر ذہین و فطین تھے۔ آپؓ مدنی زندگی میں نبی کریم ﷺ کی موجودی میں فتوے دیتے تھے اور نبی کریمؐ ان کے فتووں کی توثیق فرماتے تھے۔ یہ اعزاز ان کے سوا اور کسی کو حاصل نہیں۔ سیدنا ابوبکرؓ کاتبین وحی میں بھی شامل ہیں۔ آپ ؓکی یہ منفرد شان بھی ہے کہ انہیں جنت کے تمام دروازوں سے داخل ہونے کی دعوت دی جائے گی۔

ایک منفرد اعزاز سیدنا ابوبکرؓ کو یہ بھی حاصل ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی ہی میں اپنے مصلّے پر مسلمانوں کی امامت کے لیے کھڑا کردیا۔ اور آپؓ نے رسول اکرمؐ کی حیات مبارک ہی میں سترہ نمازوں کی امامت فرمائی۔

خاتم الانبیاء ﷺ جب اپنے رفیق اعلٰی کے پاس تشریف لے گئے تو سیدنا ابوبکرؓ کی زندگی کا ایک تاب ناک اور آخری دور شروع ہوتا ہے، جس میں انہوں نے امت مسلمہ کو متعدد خطرناک بحرانوں کے گرداب سے نکالا اور دین اسلام کی ڈگمگاتی کشتی کو اپنی بے مثال ذہانت، شجاعت، علمی وسعت و گہرائی، اللہ پر کامل توکل اور رسول اللہ ﷺ سے سچی محبت کے سہارے کنارے پر لگایا۔

اللہ تعالٰی نے وفات کے بعد بھی انہیں یہ اعزاز بخشا کہ وہ جس طرح زندگی میں رسول کریمؐ کے ساتھ تھے، انتقال کے بعد بھی روضۂ رسولؐ میں ان ہی کے ساتھ ہیں۔

اللہ ان پر اپنی بے شمار رحمتیں برسائے اور ہمارا حشر بھی ان کے ساتھ فرمائے۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں