77برس
خود مختار اور بااختیار’’آزاد ریاستوں‘‘ کے مطالبے کا مقصد دراصل مسلم اکثریتی یونٹوں کے کنفیڈریشن کا قیام تھا
آج23مارچ ہے۔77برس قبل آج ہی کے روز لاہور کے منٹو پارک(اب مینار پاکستان)میں آل انڈیامسلم لیگ کے تین روزہ کنونشن میں ایک قرارداد پیش کی گئی تھی،جو اگلے روز (24مارچ) منظور ہوئی۔ ابتدامیں اسے قراردادلاہورکہا جاتا تھا۔ بعد میں قرارداد پاکستان کہا جانے لگا۔ پاکستان کاقیام اسی قرارداد کامرہون منت ہے۔سوال یہ ہے کہ آیا 70برس قبل وجود میں آنے والا ملک اس قرارداد کا آئینہ دار ہے یا نہیں؟
لاہور کنونشن 22مارچ1940کو شروع ہوکر 24مارچ کو اختتام پذیر ہوا۔ اس کنونشن میں دیگر کئی قراردادوں کے علاوہ ایک قرار داد یہ بھی پیش کی گئی: That geographically contiguous units are demarcated into regions which should be constituted, with such territorial readjustments as may be necessary that the areas in which the Muslims are numerically in a majority as in the North Western and Eastern Zones of (British) India should be grouped to constitute 'independent states' in which the constituent units should be autonomous and sovereign.۔جس کا سادہ سا ترجمہ یہ ہے کہ برطانوی ہندکے شمال مغرب اور مشرقی زون میں واقع وہ جغرافیائی یونٹ جہاں مسلمان عددی طورپر اکثریت میں ہیں،وہاں خود مختاراور بااختیار ''آزاد ریاستوں''کی شکل دی جائے۔
خود مختار اور بااختیار''آزاد ریاستوں'' کے مطالبے کا مقصد دراصل مسلم اکثریتی یونٹوں کے کنفیڈریشن کا قیام تھا۔جس کا جزولاینفک جمہوری نظم حکمرانی تھی، مگر 1946 میںجب تقسیم ہندکا یقین ہوگیا، تو آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت نے قرارداد لاہورکے مسودے میں موجود اصطلاح 'independent states' میں سے's'کاٹ کر اسےstateکردیا ۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی ابتدائی سوچ میں تبدیلی آگئی تھی اور اب وہ مسلم اکثریتی یونٹوں پر مشتمل کنفیڈریشن کے بجائے فیڈریشن بنانے کی خواہش مند ہوچکی تھی۔ بیانیے میں آنے والی تبدیلی پر پارٹی کے اندرونی حلقوں میں بنگال اور سندھ کے مندوبین نے احتجاج ضرورکیا، مگرکوئی ڈیڈلاک پیدا نہیں ہوا۔
لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ آل انڈیامسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت نئے ملک کے خدوخال کے بارے میں روز اول ہی سے غیر واضح تھی۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ اس نے تقسیم ہندکا مطالبہ توضرورکردیا تھا، مگر ذہنی طورپر اس کے لیے تیار نہیں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ قرارداد کی منظوری سے قیام پاکستان تک اس نے کوئی واضح اور ٹھوس ہوم ورک نہیں کیا۔جس کے اثرات قیام پاکستان کے فوراً بعد نمایاں ہونا شروع ہوگئے۔ جس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
اول،مسلم لیگ کی پوری تحریک کامحور بنگال کے علاوہ مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمان تھے۔ جب کہ شمال مغربی ہندکے مسلم اکثریتی صوبوں میںآل انڈیا مسلم لیگ کا اثرونفوذصرف ایک مختصر مراعات یافتہ طبقے تک محدود تھا۔مسلم لیگ نے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کو اپنے حق میں متحرک ضرورکیا تھا، مگران کے مستقبل کے بارے میں کوئی کلیہ طے کرنے کی کوشش نہیں کی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تقسیم کے ساتھ ہی پورے برٹش انڈیا میں بدترین فسادات پھیل گئے اوران علاقوں کے مسلمان نئے ملک کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ جس کے لیے مسلم لیگی قیادت ذہنی اورعملی طورپر تیار نہیں تھی۔
دوئم، اردو ہندی کا قضیہ شمالی اوروسطی ہند کا معاملہ تھا۔بقیہ ہندوستان اس سے متاثر نہیں تھا۔ سندھ میں عربی رسم الخط میں لکھی جانے والی سندھی زبان مسلمانوں اورہندوؤں میںیکساں طورپر اظہارکا ذریعہ چلی آرہی تھی۔اسی طرح بنگال میں بنگالی زبان ہندؤں اور مسلمانوں کے درمیان وجہ تنازع نہیں تھی، بلکہ معاشی، سماجی اور سیاسی عدم توازن اختلافات کا باعث تھے۔اس باریک اور نازک فرق کو بھی مسلم لیگی قیادت سمجھ نہیں سکی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب آل انڈیا مسلم لیگ نے اردوکو مسلمانوں کی واحد زبان تسلیم کرتے ہوئے اسے نئی مملکت کی قومی زبان قرار دیا، تو نئے تضادات نے جنم لیا۔اس میں شک نہیں کہ اردو برصغیر کیLingua Franca ضرور تھی، مگر برصغیر کے تمام مسلمانوں کی واحد زبان نہیں تھی۔ اردو پر غیرضروری اصرار نے قیام پاکستان کے فوراً بعد وفاقی یونٹوں میں شناخت کے نئے سوالات کو جنم دیا، مگر ان کا جواب دینے کے بجائے سختی کے ساتھ کچلنے کی پالیسی نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
سوئم،اصولی اور قانونی طورپر پاکستانی ریاست کو وفاقی جمہوریہ بنناتھا،کیونکہ نئے ملک میں جو قوانین چل رہے تھے، وہ برطانوی تھے اوراتنا وقت اوراستعداد نہیں تھی کہ فوری طورپر نئے قوانین ترتیب دے لیے جائیں۔ ویسے بھی تمام نوآبادیات نے آزادی کے بعد وہی نظام حکمرانی اپنایا، جو انھیں نوآبادیاتی آقاؤں کی جانب سے ورثہ میں ملا تھا، مگر تہذیبی نرگسیت کے حصار میں پھنسے اراکین دستورساز اسمبلی کی اکثریت ریاست کے منطقی جوازکے بارے میں کوئی متفقہ موقف اختیار کرنے میںمسلسل ناکام رہی۔ حالانکہ بابائے قوم نے دستورساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس (11اگست 1947)میں نئی مملکت کے آئین کے خدوخال واضح طورپر بیان کردیے تھے، مگر فکری ابہام میں مبتلا قانون ساز اس باریک نکتے کو بھی نہیں سمجھ پائے۔
سیاسی قیادت میں پائے جانے والے ابہام کا نتیجہ تھا کہ بیوروکریسی ریاستی منصوبہ سازی پر حاوی آتی چلی گئی۔جس نے من مانے فیصلے کرنا شروع کردیے۔ خاص طورپر وفاقیت کی بنیاد پر قائم مملکت میں 1955میںبنگال کی عددی برتری کوکم کرنے کی خاطر پیرٹی کا اصول متعارف کرایاگیا۔ یہ بنگلہ زبان کو قومی زبان بنانے کے عوض ایک انتہائی سفاکانہ فیصلہ تھا۔ پیرٹی کے اس تصورکو عملی شکل دینے کی خاطر مغربی حصے کے تمام وفاقی یونٹوں کو ایک یونٹ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں ان یونٹوں کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی حیثیت تقریباً ختم ہوگئی ۔یوں ملک وفاقی جمہوریہ کے بجائے وحدانی ریاست میں تبدیل ہوگیا۔جس کی وجہ سے چھوٹے صوبوں میں ریاست گریز رجحانات کو فروغ حاصل ہوا۔
آج قرارداد پاکستان کی منظوری کو77برس ہوچکے ہیں۔ ملک ان گنت مسائل کی گرداب میں پھنسا ہوا ہے، مگر ماضی میں کی گئی غلطیوں کا جائزہ لیتے ہوئے قومی سطح کے فیصلوں پر نظر ثانی سے گریز کیا جارہاہے۔آج بھی حسین شہید سہروردی مرحوم، مولوی فضل الحق مرحوم، شیخ مجیب الرحمن اور سائیں جی ایم سید مرحوم کو محب وطن سمجھتے ہوئے قیام پاکستان میں ان کے کردار سے صرف نظرکیا جا رہا ہے۔اس کے برعکس 13اگست1947تک پاکستان کے قیام کی مخالفت کرنے والی مذہبی جماعتوں کو فیصلہ سازی پر مسلط کرنے کی حکمت عملی جاری ہے۔ سہولتوں سے محروم عوام کی شکایات پرکان دھرنے کے بجائے انھیں بزور طاقت کچلنے کا سلسلہ جاری ہے۔ جب کہ مسلم اقلیتی صوبوں سے ہجرت کرکے سندھ کے شہری علاقوں میں آباد ہونے والی کمیونٹیزکی سیاسی شناخت کو ختم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکمران اشرافیہ نے ان 77برسوں میں اپنی غلطیوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ بلکہ وہی پرانی روش جاری ہے۔تسلسل کے ساتھ ایک ہی قسم کی غلطیاں دہرائی جا رہی ہیںاور ان پر اصرار کیا جارہا ہے۔ ریاستی منصوبہ سازوں کے غلط فیصلوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ملک ایک طرف مذہبی شدت پسندی کی آگ میں جھلس رہاہے۔ دوسری طرف وفاقی جمہوریت سے انحراف اوراقتدارواختیار کی مرکزیت نے چھوٹے صوبوں اور چھوٹی کمیونٹیز میں احساس محرومی پیدا کردیا ہے۔ مقامی حکومتی نظام سے انحراف اورقومی سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس نظام کی حوصلہ شکنی نے عوام اور حکمرانوں کے درمیان خلیج مزیدگہری ہوئی ہے۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ حکمران اشرافیہ اناؤں کے خول سے باہر نکل کر آج کی دنیا کے حقائق کوسمجھنے کی کوشش کرے،تاکہ ملک میں آباد تمام قومیتوں اورکمیونٹیزمیںملک کا مساوی شہری ہونے کا احساس پیدا ہوسکے۔