پی ایس ایل سے ای سی ایل تک
پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں کھل کر کھیلنے والے 5کھلاڑی ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں آ چکے ہیں
پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں کھل کر کھیلنے والے 5کھلاڑی ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں آ چکے ہیں۔ پی ایس ایل سے ای سی ایل کا یہ سفر چند ہفتوں میں ہی طے ہو گیا ہے۔ پاکستان سپر لیگ کے آغاز سے ہی اسپاٹ فکسنگ کے اس معاملے کا پتہ چل گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ آئی سی سی نے کھوج لگایا اور پی سی بی نے فوری طور پر اسلام آباد یونائیٹڈ سے تعلق رکھنے والے شرجیل خان اور خالد لطیف کو ذمے دار قرار دے کر کھیلنے سے روکتے ہوئے وطن واپس روانہ کر دیا تھا۔ شک کی انگلی جس تیسرے کھلاڑی پر اٹھی اس کا نام محمد عرفان ہے۔
عرفان سے البتہ یہ رعایت برتی گئی کہ اسے دبئی اور شارجہ میں ہونے والے ٹورنامنٹ میں کھیل جاری رکھنے کی اجازت دی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ اجازت ایک بڑے سابق کرکٹر کی سفارش پر دی گئی تھی کیونکہ عرفان کا تعلق بھی اسلام آباد یونائیٹڈ سے ہی تھا۔ ٹیم کے دو کھلاڑی پہلے ہی اسپاٹ فکسنگ کے اس کھیل کی نذر ہو چکے تھے اگر تیسرا بھی واپس بھجوا دیا جاتا تو مصباح الحق کی ٹیم کے پلے کچھ بھی نہ رہتا۔ سپر لیگ کا فائنل لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں ہو چکا تو نہ صرف عرفان کو معطل کر دیا گیا بلکہ دیگر دو کھلاڑی شاہ زیب حسن اور ناصر جمشید بھی ای سی ایل کی فہرست میں شامل کر لیے گئے۔ 4کھلاڑی یہاں خوار ہو رہے ہیں البتہ 5واں کرکٹر ناصر جمشید برطانوی تحقیقاتی اداروں کا مہمان بنا ہوا ہے۔
کرکٹ میں میچ فکسنگ یا اسپاٹ فکسنگ کا یہ پہلا واقعہ ہے نہ آخری۔ آئی پی ایل' بی پی ایل اور پی ایس ایل جیسے ٹورنامنٹ تو ویسے بھی اس طرح کے کاموں کے لیے مشہور ہیں۔ زیادہ تر لیگز کے دوران یا بعد میں اس طرح کے الزامات لگتے رہتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بات ان چار یا پانچ کھلاڑیوں تک محدود نہیں۔ کچھ اور بھی نام اس فہرست میں شامل ہو سکتے ہیں۔ کیا پتہ صرف کھلاڑی ہی قصور وار ہوں یا پی سی ایل کے کچھ کرتا دھرتا بھی اس میں شامل ہوں۔ میرے خیال میں شک کا دائرہ کچھ امپائرز تک بھی پھیلانا چاہیے۔ ٹورنامنٹ کے دوران بعض فیصلے تو ایسے تھے کہ شاید امپائرنگ سے کوئی ناواقف شخص بھی نہ کرتا۔ وہ فیصلے بھی اسپاٹ فکسنگ کا حصہ ہو سکتے ہیں۔
میچ فکسنگ اور اسپاٹ فکسنگ کے بڑے بڑے چیمپیئن ہو گزرے ہیں۔ ہمارا ایک کھلاڑی ایسا بھی تھا جو کہا کرتا تھا میچ چھوڑو پوری سیریز کی بات کرو۔ یعنی فکسنگ کرنی ہے تو کسی ایک میچ کے لیے کیوں کی جائے پوری سیریز کا سودا ہو اور مال بھی خوب بنے۔ کئی ایسے کرکٹر بھی تاریخ کا حصہ بن گئے جو بہترین صلاحیتوں کے مالک تھے مگر پیسے کے لالچ میں اپنا کیرئیر تباہ کر بیٹھے۔ پاکستان میں جو چار کرکٹر شامل تفتیش ہیں اب تک کی اطلاعات کے مطابق وہ سب خود کو بیگناہ بتا رہے ہیں۔ عرفان نے یہ اعتراف کیا کہ بکی نے ان سے رابطہ کیا تھا' ان کی غلطی محض اتنی ہے کہ وہ بورڈ کو آگاہ نہیں کر سکے۔ دیگر کے پاس بھی کچھ جواز ضرور موجود ہونگے۔
اسپاٹ فکسنگ کے تازہ معاملے سے کچھ اور ہوا یا نہیں سلمان بٹ کی واپسی کی راہ میں رکاوٹ ضرور پڑ گئی۔ ان دنوں محمد عامر کی واپسی کا فیصلہ بھی زیر بحث ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر محمد عامر کو واپسی کی اجازت نہ ملتی تو کسی اور کرکٹر کو اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے کی جرات نہ ہوتی۔ چین کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہاں کرپشن پر موت کی سزا دی جاتی ہے لیکن کیا وہاں کرپشن کے واقعات نہیں ہوتے۔ جس نے کرپشن کرنی ہے وہ ضرور کرتا ہے۔ ایسے ہی نہیں کہا جاتا کہ چور وہ جو پکڑا جائے۔ جو پکڑ میں نہیں آتا اسے چور کون کہہ سکتا ہے۔ ہمارے ملک میں تو سرعام قومی دولت پر ڈاکہ ڈالنے والے معزز بن کر پھرتے ہیں۔ کرپشن کے کیسز ملک کی سب سے بڑی عدالت میں بھی زیر سماعت ہیں۔ سب سے بڑے پانامہ کیس پر فیصلہ محفوظ پڑا ہوا ہے۔ آئیں اسپاٹ فکسنگ میں ملوث تمام کھلاڑیوں کو نشان عبرت بنا دیں۔ کیا اس کے بعد میچ یا اسپاٹ فکسنگ کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے گا۔ میرا خیال ہے ایسا ممکن نہیں ہے۔ قصور واروں کو سزائیں جذبات کے مطابق نہیں قانون کے تحت دی جاتی ہیں۔
پی ایس ایل کے چیئرمین نجم سیٹھی اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کے درمیان ''لڑائی'' بھی قانونی ہے۔ نجم سیٹھی فرماتے ہیں کہ پی سی بی کے اپنے قوانین' انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے قوانین سے زیادہ سخت ہیں اور چونکہ ملک میں اسپاٹ فکسنگ جیسے معاملے سے نمٹنے کے لیے قانون موجود ہیں لہٰذا معاملہ پی سی بی کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔
انھوں نے یقین دہانی کرائی کہ بورڈ معاملے میں ملوث کھلاڑیوں کو مثالی سزا دے گا۔ سیٹھی صاحب کو ایف آئی اے کی تحقیقات پر اعتراض ہے بھی اور نہیں بھی۔ یہ ماننا پڑے گا کہ نجم سیٹھی وزیر اعظم کے کافی قریب ہیں اسی وجہ سے وہ اس عہدے پر بھی فائز ہیں۔ دوسری طرف چوہدری نثار علی خان ہیں جو نواز شریف کی کابینہ کے واحد وزیر ہیں جو کابینہ کے اجلاسوں میں بھی کھل کر بات کر لیتے ہیں۔ انھیں وزیر اعظم سے جہاں اختلاف ہوتا ہے وہ بنا جھجکے جرات اظہار کر جاتے ہیں۔ چوہدری نثار نے اسی لیے واضح طور پر کہا ہے کہ ایف آئی اے کو کسی ادارے کو لکھ کر دینے یا اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ایف آئی اے عدالت کی ڈائریکشن پر تحقیقات کر رہی ہے۔
بہترہو گا کہ پی سی بی اور پی ایس ایل کے چیئرمین اپنی تفتیش کریں اور ایف آئی اے کو اپنا کام کرنے دیں۔ میرا نہیں خیال کہ ایف آئی اے کی تحقیقات سے کسی کو خوفزدہ یا پریشان ہونے کی ضرورت ہے۔ چوہدری نثار بکیز کے خلاف بھی کارروائی کی ہدایت جاری کر چکے ہیں۔ اچھی بات ہے' معاملے کی تہہ تک جانے کی اشد ضرورت ہے۔ ممکن ہے تفتیش میں آگے چل کر کوئی بڑی مچھلی بھی قابو میں آ جائے۔ کرکٹر کم عمر ہوتے ہیں لیکن انھیں فکسنگ کے جال میں پھنسانے والے کافی سمجھدار لوگ ہوتے ہیں۔ چیئرمین پی سی بی شہریار خان کرکٹ کی بہتری کے لیے گول میز کانفرنسیں کر رہے ہیں۔ ان کانفرنسوں کا تب تک کوئی فائدہ نہیں ہو گا جب تک سابق اسٹار کرکٹرز ان میں شریک نہیں ہوتے۔
آخر میں یہی امید کرنی چاہیے کہ پی ایس ایل سے ای سی ایل کا یہ سفر آخری ثابت ہو۔ اس کے بعد صرف پی ایس ایل ہونی چاہیے اور بس۔ چاہے کوئی بھی کرائے۔