’’لوح‘‘ کی پذیرائی
اردو صحافت اور بالخصوص ادبی جرائد کی تاریخ کوئی بہت زیادہ پرانی نہیں ہے
سہ ماہی ادبی مجلے ''لوح'' کے چوتھے شمارے کی تقریب پذیرائی میں اس کے ایڈیٹر اور پبلشر برادرم ممتاز احمد شیخ نے بتایا کہ اس کے اجراء کی دیگر کئی وجوہات کے علاوہ ایک قدرے ذاتی' جذباتی اور دلچسپ نوعیت کی وجہ یہ بھی تھی کہ گورنمنٹ کالج لاہور کی طالب علمی کے دنوں میں انھیں اس کے مشہور ادبی مجلے ''راوی'' کی ادارت کے لیے منتخب نہیں کیا گیا تھا، سو اس رسالے کے ساتھ اولڈ راوینز ایسوسی ایشن کے قیام اور ''راوی'' کے معروف گٹ اپ کو اپنانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
ظاہر ہے یہ بات ایک ہلکے پھلکے اور نیم مزاحیہ انداز میں کی گئی تھی لیکن حاضرین میں سے کچھ لوگ اسے سنجیدہ بیان سمجھ بیٹھے اس پر مجھے استاد محترم پروفیسر حمید احمد خان صاحب سے منسوب ایک واقعہ بہت یاد آیا، راوی کا بیان ہے کہ جن دنوں وہ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے ان کے پی اے کی انگریزی بہت ہی کمزور تھی اور اس کے تیار کیے ہوئے ڈرافٹس میں گرامر اورا سپیلنگز کی غلطیاں خان صاحب کو بہت کھلتی تھیں لیکن اپنی طبعی شرافت کی وجہ سے وہ کسی نہ کسی طرح سے اسے برداشت کرتے جا رہے تھے، ایک بار وہ ایسا ہی کوئی ڈرافٹ لے کر آیا تو خاں صاحب سے رہا نہ گیا وہ عبارت پڑھتے جاتے اور ساتھ ساتھ کہتے جاتے ''ماشاء اللہ، سبحان اللہ کیا کمال کا جملہ بنایا ہے آپ نے! اور کیا انوکھے سپیلنگ نکالے ہیں اس لفظ کے '' اب ہوا یہ کہ بجائے شرمندہ ہونے کے وہ پی اے جھک جھک کر شکریہ ادا کرنے لگا کہ ''سب آپ کی مہربانی اور جوتیوں کا طفیل ہے آپ ہی سے سیکھا ہے ہم نے سب کچھ'' اس پر حمید احمد خاں اپنی سیٹ سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور ہاتھ جوڑنے کے انداز میں بولے
''ارے بھائی طنز کر رہا ہوں۔طنز کر رہا ہوں''
جہاں تک ممتاز احمد شیخ کی مدیرانہ صلاحیتوں اور ''لوح'' کے اس چوتھے شمارے کا تعلق ہے اس کی تحسین پوری اردو دنیا میں کی گئی ہے کہ بہت دنوں کے بعد کوئی ایسا ادبی پرچہ تسلسل سے نکلنا شروع ہوا ہے جس میں نہ صرف ہمارے علاقائی اور قومی ادب سمیت دنیا بھر کے ادب اور ادبی مباحث کو جگہ دی گئی ہے بلکہ موضوعات اور اصناف کے اعتبار سے بھی اس کا دائرہ وسیع تر کیا گیا ہے۔
اردو صحافت اور بالخصوص ادبی جرائد کی تاریخ کوئی بہت زیادہ پرانی نہیں ہے۔ گفتگو کے دوران جن جرائم کا ذکر بار بار ہوا ان میں قیام پاکستان سے قبل کے ادبی ماہ ناموں ''دل گداز'مخزن' ہمایوں' عالم گیر' تہذیب نسواں' ادبی دنیا' ادب لطیف، نگار ساقی' نیرنگ خیال'' اور اس کے ساتھ یا قدرے بعد اشاعت کا آغاز کرنے والوں میں ''افکار'' سویرا' نئی قدریں' تخلیق' بیاض' الحمرا' مکالمہ' ماہ نور' چہار سو سمیت کئی ایسے ماہوار رسائل بھی شامل تھے جن میں سے کچھ نے مختلف مواقع پر عمدہ اور ضخیم خاص نمبر شایع کیے لیکن ''لوح'' کا شمار ان رسائل میں ہوتا ہے جو چاہے دیر سے نکلیں مگر ان کا ہر شمارہ خاص نمبر کا انداز اور ضخامت لیے ہوئے ہوتا تھا، اس کا آغاز تو محمد طفیل کے ''نقوش'' سے ہوا لیکن اس کے بعد یہ سلسلہ پھیلتا ہی چلا گیا، ان میں سے کچھ رسائل تو بوجوہ چند ایک پرچوں کی اشاعت تک محدود رہے لیکن جنہوں نے زیادہ عرصے تک اپنا تسلسل اور معیار بلند اور قائم رکھا ان میں سرفہرست احمد ندیم قاسمی صاحب کا ''فنون'' اور اس کے بعد اوراق' سیپ' نیا دور' تخلیقی ادب' آثار' معاصر' آج' دنیا زاد' اجرا' اسالیب اور اب ''لوح'' کا نام لیا جا سکتا ہے کہ اس کا ہر شمارہ بہتر سے بہتر کی طرف جا رہا ہے۔
اولڈ راوینز کے شہباز شیخ کی سجائی ہوئی اس محفل کی صدارت محترم ایس ایم ظفر نے کی جب کہ مہمانان خاص میں صدیقہ بیگم' سرفراز احمد اور مجھے شامل کیا گیا تھا، اسٹیج سیکریٹری ڈاکٹر ابرار احمد تھے جنہوں نے بہت خوش اسلوبی سے کارروائی کو اس طرح آگے بڑھایا کہ تقریباً 75منٹ کے مختصر وقت میں25احباب نے ''لوح'' کی تاریخ' مندرجات اور خصوصیات پر اپنی رائے کا اظہار کیا، مقررین کی اس فہرست میں مندرجہ ذیل احباب اس ترتیب سے شریک گفتگو ہوئے ڈاکٹر جواز جعفری'عنبرین صلاح الدین' سجاد بلوچ' حمیدہ شاہین' شائستہ نزہت' نیلم احمد بشیر' امجد طفیل' حسین مجروح' عارف خان' وقاص عزیز' انجم قریشی' احمد خیال' باقی احمد پوری، قمر رضا شہزاد' سعود عثمانی' شیریں اسد' ڈاکٹر ضیا الحسن' ڈاکٹر اختر شمار' ڈاکٹر نجیب جمال' ڈاکٹر سعادت سعید' سرفراز احمد' ممتاز احمد شیخ' امجد اسلام امجد' وحید رضا بھٹی' صدیقہ بیگم اور ایس ایم ظفر۔
گفتگو کے دوران ''راوی'' کا ذکر بار بار آیا کہ ممتاز احمد شیخ اور اولڈ راوینز سوسائٹی نے شعوری طور پر اپنی مادر علمی کے اس عمدہ اور تاریخ ساز جریدے کے گٹ اپ' انداز اور پیش کش کو ''لوح'' میں ایک طرح سے دوبارہ زندہ کر دیا ہے لیکن یہ مماثلت بس یہیں تک محدود ہے کہ ''راوی'' کچھ بھی ہو بہرحال ایک تعلیمی ادارے سے شایع ہونے والا پرچہ ہے جس میں سینئرز کے ساتھ ساتھ نو آموز طالب علموں کی تخلیقات کو بھی جگہ دی جاتی ہے اور اس اعتبار سے اس کا دائرہ یقیناً محدود ہے مگر ''لوح'' نے نقوش، فنون، اوراق، آج' سویرا اور دنیا زاد کی طرز پر علمی و ادبی مباحث' جدید رویوں اور تحریکات اور سب سے بڑھ کر عالمی ادب سے منتخب تراجم کو جو اہمیت اور فوقیت دی ہے۔
اس نے بہت کم عرصے میں اس سہ ماہی رسالے کو ایک ادبی دستاویز کی شکل دے دی ہے جو ایک کارنامے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر دو دھاری تلوار کے کچھ خواص بھی رکھتا ہے کہ اب ممتاز احمد شیخ کو خوب سے خوب تر کی تلاش کا وہ چیلنج بھی درپیش ہے جس میں اس کا مقابلہ اپنے ہی پیش کردہ معیار کے ساتھ ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ نہ تو اسے خود ادیب ہونے کا دعویٰ ہے اور نہ ہی وہ کسی خاص مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہے کہ یہ دونوں باتیں بہت سے اچھے ادبی پرچوں کو ڈبو چکی ہیں۔
زبان و ادب کی اس عمومی بے قدری کے زمانے میں ''لوح'' جیسے ادبی پرچوں کی اشاعت تازہ ہوا کے کسی خوش گوار جھونکے سے کم نہیں۔ امید کرنی چاہیے کہ نہ صرف یہ جھونکا فضا کو مہکاتا رہے گا بلکہ اس کی وساطت سے اس اجڑے چمن کی ان بہاروں کو بھی واپسی کا رستہ مل سکے گا جو اب یادوں کا حصہ بنتی جا رہی ہیں۔