خیال کی معرفت
انسان جب ذات کے سحرسے باہر نکلتا ہے تو یہ زندگی اورکائنات کے تمام تر اسرار اس پر آشکار ہونے لگتے ہیں
انسان جب ذات کے سحرسے باہر نکلتا ہے تو یہ زندگی اورکائنات کے تمام تر اسرار اس پر آشکار ہونے لگتے ہیں۔ سوجھ بوجھ کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ''انا'' ہے۔ ذات کی الجھنوں سے دور آگہی کا روشن راستہ ہے۔ جو معرفت کی منزلوں تک لے جاتا ہے، لیکن پہلا زینہ ذات کی سمجھ ہے۔
صاف خواہی چشم و عقل و سمع را
بر دران تو پردہ ہائی طمع را
(رومی)
اگر نگاہ، عقل اور سماعتوں کو شفاف رکھنا چاہتے ہو تو حرص و طمع کے پردے جلا کر راکھ کر ڈالو۔
یہ میٹا مارفوسس کا عمل ہے۔ ایک ایسی تبدیلی جو ذہن سے غفلت کے پردے ہٹا دیتی ہے۔ خیال سے ارادہ جنم لیتا ہے اور ارادے سے عمل کی پختگی (قوت ارادی) بالکل اسی طرح عقل، کل کا جز ہے۔ کیونکہ خیال میں پوری دنیا سمائی ہوئی ہے۔ ذہن میں خیال کی اڑان طے شدہ امر ہے۔ اونچائی، تکمیل کے ہنرکی دین۔ جس طرح غیر محسوس ہوا، پروں کو تحرک عطا کرتی ہے۔ عرفان بھی جذب کے سلیقے کی دین ہے۔ پرکھ، سمجھ اور محسوس کرنے کا ہنر ہی عناصر میں ترتیب کا جوہر ڈھونڈ نکالتا ہے۔
سوچ روز ازل سے اپنے محور سے جڑی ہوئی ہے۔ رابطے کے کئی بہانے مل جاتے ہیں۔ دل میں پوری دنیا آباد ہے۔ اسے تحفظ ملنا چاہیے نہ کہ بے یقینی۔ درحقیقت تیر انداز کو اپنے اندر کی طاقت کا علم نہیں ہے۔ جو ہتھیار سے زیادہ پر اثر ہے۔ یہ محبت کا جوہر ہے، مگر ذات کے غرور میں مبتلا غافل مارنے پر تلا ہوا ہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی اس کیفیت کو خوبصورتی سے اس شعر میں سمو دیتے ہیں:
تیر چڑھا چلّے پر' ساجن مار نہ موہے
تیر لگے گا توہے' مجھ میں تو ہے ساجن
بالکل اسی طرح تخلیق یا شعر جذب کے کمال کا عکس ہے۔ جیمز ٹیلرکہتا ہے موسیقار کو بہت سی موسیقی کو اپنے اندر جذب کرنا پڑتا ہے۔ اسے کئی سروں کو اپنی ذات میں سمونے کا طریقہ سیکھنا پڑتا ہے۔ سروں کو من و روح سے ہم آہنگ کیے بغیر موسیقی کا عرفان عطا نہیں ہوتا۔ کوئی منظر، مشاہدہ یا محور اس وقت تک لازوال سوچ میں نہیں ڈھل جاتا، جب تک اسے احساس میں جذب نہیں کیا جاتا۔ نظر ہم آہنگی، خیال کی وحدت اور ارادے کی بلندی، عظیم فن کے محرکات میں شامل ہیں۔ جو خارجی عوامل کے مرہون منت ہیں۔ ماحول کا مشاہدہ، حسیاتی تحرک عطا کرتا ہے۔ یہ حسن ازل کی تلاش ہے۔ جس کا بھید کوئی بھی نہ جان پایا ہے آج تک۔
میں نے روز ازل ہی' پڑھا تھا عشق کا اکھر
تب ہی جان لیا تھا' اپنے نفس کا جوہر
اس جا سب روحوں کو' تھا عرفان میسر
بدلا سارا منظر' ہستی ہو گئی حاصل
(شاہ لطیف)
یہی کیفیت امریکا کے معروف شاعر والٹ وٹمن کی شاعری میں نظر آتی ہے۔ اپنی نظم "Song of Myself" میں وٹمن مستقل ماحول سے رابطے میں دکھائی دیتا ہے۔ شاعرکی تمام تر حسیں، قبولیت و سرشاری کے احساس کے تحت ذات کا جشن مناتی ہیں۔ بعد ازاں روح کی وحدت خالق کائنات سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے۔
اس صورتحال میں وجد کے توسط سے روحانی کیفیت قائم ہو پاتی ہے۔ ایک الوہی مسرت جو اعلیٰ و ارفع شعوری مشاہدے کا ثمر ہے اور اشیا کا پرنور ادراک، لمحے کی الہامی کیفیت کی صورت واضح ہونے لگتا ہے۔ یہ مشاہدہ اس وقت ممکن ہے، جب حواس خمسہ کسی طرح کے دوغلے پن کا شکار نہ ہوں۔ خود فریبی یا واہمے میں مبتلا نہ ہوں۔ بعض اوقات طبعی یا نیوراتی خلل بھی مشاہدے کا صحیح ادراک نہیں ہونے دیتے۔ اپنی اس نظم میں والٹ وٹمن فطرت اور کائنات کی ہر شے سے براہ راست رابطے میں ہے۔
رابطہ، مشاہدے کا عرفان ہے۔ رابطے یا تعلق کے بغیر اشیا کی تشریح ناممکن ہے۔ بادلوں سے سمندر کا واسطہ، زمین سے جڑا ہریالی کا رنگ۔ درخت سے چھاؤں کا تصور، پھول سے خوشبو کا احساس، یہ تمام رنگ، رابطہ اور تعلق جو مظاہر فطرت کے درمیان دکھائی دیتا ہے ایک مربوط، بے کراں و بے ساختہ مسرت سے جڑا ہوا ہے۔ جس کی وضاحت ناممکن ہے۔ وٹمن کے لیے لوگوں سے رابطہ بھی اشد ضروری ہے۔ جس کے بغیر فعال سماجی زندگی کا اس کے پاس کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ شاہ لطیف کے فن کا نچوڑ یکجہتی ہے۔ چاہے اشیا کے مابین ہو۔ احساس کی ڈور سے بندھی ہوئی ہو یا پھر کائنات میں موجود عمل اور ردعمل کی وضاحت کرتی ہو۔ یہ تخیل کا حسن ہے جو ہر سو جا بجا دکھائی دے رہا ہے۔
ولیم ورڈز ورتھ کی نظر میں حسن، تخیل کا مرہون منت ہے۔ تخلیق جسے معنویت عطا کرتی ہے۔ تکمیل فن، تخیل کو لازوال حسن بخشتے ہیں۔ یہ تخیل، خیال سے تصورکے سانچے تک مختلف رنگ بدلتا ہے۔ احساس ایک خاکہ ہے کامل تصویرکی خاطر۔ احساس، زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے۔ یہ ایک آزاد روح ہے، جسے عقل، نظریے، ترجیح یا شرط کے خانوں میں بانٹ دیتی ہے۔ مشروط رویے اور حد بندیاں تخلیق کے خالص پن کو نقصان پہنچاتی ہیں۔
رومی، شاہ لطیف، ورڈز ورتھ یا والٹ وٹمن فطری ماحول سے، خیال کو تحرک عطا کرتے تھے،کیونکہ ماحول میں ایک متحرک قوت موجود رہتی ہے۔
یہ Eetheric Energy Field (فطری توانائی کی لہریں) انسانی مزاج اور رویوں پراثرانداز ہوتی ہیں۔ایک لحاظ سے ماحول، ذہن وطبعی توانائی کو یکجا کر دیتا ہے۔ جو ذہن، جسم وروح کو جلا بخشتی ہے اوراسے متحرک و فعال رکھتی ہے۔